• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنگ نیوز

سونے کی چکا چوند اور چمک دمک ہر آنکھ کو خیرہ کردیتی ہے۔خوبصورت ڈیزائن کے ہار، چوڑیاں اور انگوٹھیاں ہر کسی کے دل کو لبھاتی ہیں۔شادی بیاہ اور دیگراہم مواقع پر سونے کی خریداری بڑھ چڑھ کر کی جاتی ہے۔اگر بات کریں سونے کی قیمتوں کے تعین کی تو پاکستان میں اس کا تعین عالمی منڈی میں سونے کی قیمتوں کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ چونکہ سونے کی عالمی قیمتیں ڈالر میں ہوتی ہیں اس لیے پاکستان میں سونے کی قیمت کا تعین ڈالر کی قدر پر بھی منحصر ہے۔دوسری جانب بین الاقوامی مارکیٹ میںخام تیل کی قیمتیں، عالمی صورتحال اور مختلف ممالک کی جانب سے سونے کی ذخیرہ اندوزی، سونے کی قیمت کا تعین کرتی ہے۔

بین الاقوامی سطح پرسونےکاکاروبار

سونے کی منڈی (گولڈ مارکیٹ) سے مراد وہ بازار ہے، جہاں بڑے پیمانے پر ایسے سونے کی خرید و فروخت ہوتی ہے جو زیور کی شکل میں نہیں ہوتا۔ دنیا کے بہت سارے مالیاتی ادارے (ETF Funds) لوگوں کو سونے کی خریداری پر رقم کے عوض کاغذ کی رسید دیتے ہیں کہ آپ کا اتنا سونا ہمارے پاس محفوظ ہے جسے آپ جب چاہیں ہم سے لے سکتے ہیں۔ چونکہ اصلی سونے کے مقابلے میں ان رسیدوں کی حفاظت کرنا آسان ہوتا ہے اس لیے مغربی ممالک میں یہ رسیدیں کافی مقبول ہیں۔ لیکن مشرقی ممالک میں زیادہ تر لوگ ان رسیدوں پر اعتبار نہیں کرتے اور خریداری پراصل سونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

سونے کی قیمتیں حقیقی سونے کی خرید و فروخت سے طے نہیں ہوتیں بلکہ کاغذی سونے(گولڈ فیوچر) کی خرید و فروخت کے لحاظ سے طے کی جاتی ہیں جو کئی ہزار ارب ڈالر کی مارکیٹ ہے اور لندن اور نیویارک سے کنٹرول کی جاتی ہے۔کاغذی سونا خریدنا دراصل سونے کے شیئرخریدنا ہے اور جس طرح اسٹاک مارکیٹ میں نفع نقصان ہو سکتا ہے اسی طرح کاغذی سونے میں بھی ہو سکتا ہے۔

عالمی بلین مارکیٹس

مغربی ممالک میں سونے کی قیمتوں پر کومکس (Comex) اور لندن بلین مارکیٹ کی اجارہ داری ہے۔نیویارک میں واقع کومکس (comex) دنیا کی سب سے بڑی سونے کی مارکیٹ ہے اور پوری دنیا میں سونے کی قیمت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ لیکن یہاں خرید و فروخت ہونے والا 99.999 فیصد سونا اصلی نہیں بلکہ کاغذی ہوتا ہے۔اصلی سونا فزیکل گولڈکہلاتا ہے جبکہ گولڈ فیوچر، گولڈ آپشن، گولڈ فنڈز، مِنی آپشن وغیرہ کاغذی سونے کی چند مثالیں ہیں۔ ایک فیوچر کانٹریکٹ کا مطلب 100 اونس (2835 گرام) سونا ہوتا ہے۔ فیوچر کانٹریکٹ کی میعاد پوری ہونے پر حقیقی سونے چاندی کی وصولیابی ایک پیچیدہ اور مہنگا سودا ہے جبکہ "کیش سیٹلمنٹ" بہت آسان اور منافع بخش رہتا ہے اس لیے بیشتر گاہک کیش سیٹلمنٹ کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور کبھی اپنا اصلی سونا طلب نہیں کرتے۔ اس طرح سونے کا ایک ہی ٹکڑا کئی گاہکوں کو بیچا جاتا ہے۔ ہر گاہک کے پاس صرف سونے کے کلیم کی کاغذی رسید ہوتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ کومکس میں حقیقی سونے کے ہر اونس کو دو سو سے زیادہ گاہکوں کو بیچا جا چکا ہے۔

اپریل 1982ء سے لندن بلین مارکیٹ میں کاغذی سونے (گولڈ فیوچر کونٹریکٹ) کی خرید و فروخت شروع کی گئی۔کومکس کے برخلاف لندن بُلین مارکیٹ ایک ایکسچینج نہیں ہے بلکہ سونے کے بڑے بڑے ڈیلروں اور بینکوں کا ایک گروپ ہے جو آپس میں تجارت کرتا ہے یا اپنے گاہکوں کی طرف سے خرید و فروخت کرتا ہے۔ یہاں ہر کاروباری دن میں لگ بھگ 1000 ٹن سونا خریدا اور بیچا جاتا ہے جو کومکس کے مقابلے میں سات یا آٹھ گنا زیادہ ہے۔ اس ہزار ٹن سونے کا 99 فیصد کاغذی سونا ہوتا ہے اور ایک فیصد یعنی دس ٹن حقیقی سونا ہوتا ہے۔ کومکس میں کم سے کم تین کلو سونے کا کاروبار ہوتا ہے جبکہ لندن بلین مارکیٹ میں بڑے خریدار سونا ٹنوں میں خریدتے بیچتے ہیں۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2001ءسے 2017ء کے دوران سونے کی قیمت گرانے کے لیے امریکا کو اپنے سونے کے ذخائر میں سے 2340 ٹن سونا برآمد کرنا پڑا۔ اسی مدت میں 3490 ٹن سونا برطانیہ سے سوئٹزرلینڈ برآمد کیا گیا جہاں سے وہ ایشیائی ممالک چلا گیا۔

سونا بطورکرنسی

کیمیائی طور پر سونابہت غیر دلچسپ دھات ہے اور دوسرے عنصر کے ساتھ کم ہی ردِعمل دکھاتی ہے۔ انسان کی اس سے رغبت بہت عجیب و غریب ہے۔تاہم دوری جدول (Periodic Table) میں سونا واحد عنصر ہے جسے انسانوں نے ہمیشہ کرنسی کے طور پر استعمال کرنے کو ترجیح دی ہے۔ 16ویں صدی میں جنوبی افریقہ کی دریافت اور پھر وہاں سونے کے وسیع ذخائر کا پتہ لگنے سےاس کی مالیت میں قابلِ قدر کمی واقع ہوئی۔1973ء میں امریکی صدر رچرڈ نکسن نے امریکی ڈالر کا سونے سے تعلق ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ نکسن کے اس فیصلے کے پیچھے ایک ہی سادہ وجہ کارفرما تھی اور وہ یہ کہ امریکا کے پاس ضروری سونا ختم ہونا شروع ہو گیا تھا جو اسے ڈالر شائع کرنے کے لیے زرِ ضمانت کے طور پر رکھنا ہوتا تھا۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہےکہ بظاہر سونے کا معیشت کے ساتھ تعلق نہیں ہوتابلکہ اس کا رشتہ کان کنی سے ہے کہ کتنا سونا نکالا جاسکتا ہے۔سونے کی قیمت اوپر نیچے ہوتی رہتی ہےاور یہ اتار چڑھاؤ کسی مثالی کرنسی کی نشانی نہیں ہوتا۔

سونے چاندی یا دوسری دھاتوں کے ذریعے لین دین بارٹر سسٹم (Barter System) ہی کی ایک شکل ہوتی ہے جس میں ادائیگی مکمل ہو جاتی ہے۔ ہزاروں سال سے کرنسی سونے چاندی کے سکّوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی کیونکہ لوگ اپنی مرضی کی چیز بطور کرنسی استعمال کرنے کا حق رکھتے تھے۔مگر جیسے جیسے وقت نے کروٹ بدلی اور صنعتی ترقی کے نئے باب کاآغاز ہوا توسونے کی جگہ کاغذی نوٹوں اور پلاسٹ منی نے لے لی،اس طرح سونا اب صرف زیبائش اور سرمائے کو محفوظ رکھنےکے لیے استعمال ہونے لگاہے۔ کاغذی کرنسی سے کی جانے والی ادائیگی درحقیقت ادائیگی نہیں بلکہ محض آئندہ ادائیگی کا وعدہ ہوتی ہے جو کبھی پورا نہیں ہوتا۔ یعنی کاغذی کرنسی میں ادائیگی دراصل قرض کی منتقلی ہوتی ہے۔ اس قرض کی ادائیگی کا ضامن کسی بھی ملک کا مرکزی بینک ہوتا ہے جس کی پشت پناہی حکومت کرتی ہے ۔

تازہ ترین