• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں فنانشل ٹیکنالوجی کا فروغ

مالی سہولیات کی فراہمی کے لیے ٹیکنالوجی استعمال کرنے والے کاروبار کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے،تاہم ہر بینک کی برانچ میں یہ انتباہی نوٹس بھی لگاہوتا ہے کہ اس کا استعمال دانش مندی سے کریں اور کسی کو بھی اپنے پاس ورڈ کی بھنک نہ پڑنے دیں۔یوں ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں برانچ لیس یا ڈیجیٹل بینکاری کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔

کمرشل بینکنگ کے شعبے میں 18 سال گزارنے کے بعد قاصف شاہد نے ملازمت چھوڑ کر اپنی کمپنی قائم کی۔ انھوں نے 10لاکھ ڈالر کی وینچر کیپیٹل کی سرمایہ کاری حاصل کرکے ایک ایسا ڈیجیٹل والٹ تیار کیا ہے جس کے ذریعے کیش کے استعمال کو کم کیا جاسکتا ہے۔ کمپنی کی سافٹ ویئر ایپ کو صارفین کے بینک اکاؤنٹس سے متصل کردیا جائے گا تاکہ وہ اپنے اسمارٹ فون ہی کے ذریعے پارٹنر کاروباروں کو رقم کی ادائیگیاں کرسکیں۔ اسمارٹ فونز کو بینک اکاؤنٹس کی معلومات سے منسلک بارکوڈ پڑھنے کی صلاحیت سے آراستہ کرنے والی یہ ٹیکنالوجی ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کا متبادل ثابت ہوسکتی ہے۔ ہر صارف کے والٹ کو کسی ایک پارٹنر بینک کے منفرد اکاؤنٹ سے متصل کیا گیا ہے اور کمپنی کی یہ ایپ اینڈرائڈ اور آئی او ایس کے حامل ہر اسمارٹ فون پربآسانی ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہے۔صارفین کسی بھی بینک اکاؤنٹ سےاس ایپ کے ذریعے اپنے والٹ میں پیسے ڈال سکتے ہیں۔ اس کمپنی کی ٹارگٹ مارکیٹ کو پہلے ہی چند بڑے کمرشل بینک سہولیات فراہم کررہے ہیں لہٰذا اس کمپنی نے صارفین کی تعداد میں اضافے کے لیے ایپ کے ذریعے کی جانے والی تمام ٹرانزيکشنز کی فیس ختم کردی ہے۔یہ کمپنی اب تک سو بزنس اور 25,000 کے قریب صارفین کو سائن اپ کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ مالی سہولیات کی فراہمی کے لیے ٹیکنالوجی استعمال کرنے والی یہ فِن ٹیک(فنانشل ٹیکنالوجی) کمپنی ایک مثال ہے۔

فِن ٹیک کی بڑھتی مقبولیت

پرائس واٹر ہاؤس کوپرز (Pricewaterhouse Coopers)، جسے عرفِ عام میں PwCکے نام سے جانا جاتا ہے، کی 2016ء میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق فِن ٹیک کے شعبے میں دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں اضافہ ہورہا ہے۔ 2014ءمیں فِن ٹیک کی اسٹارٹ اپ کمپنیوں کی سرمایہ کاری 5.6 ارب ڈالر تھی جو 2015ء میں دگنی ہو کر 12.2 ارب ڈالر ہوگئی۔ تحقیق میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ کرنٹ اور سیونگز اکاؤنٹس، غیرتجارتی قرضےاور رقوم کی ٹرانسفر جیسی کمرشل بینکنگ کی سہولیات پر پوری مالی صنعت میں سے سب سے زیادہ اثر فِن ٹیک کا ہی ہوگا۔

فِن ٹیک کسی نئی صنعت کا نام نہیں ہے۔ اس صنعت کی بڑی کمپنیاں 1950ء کی دہائی سے کام کررہی ہیں۔ ان کمپنیوں کی ابتدائی مصنوعات میں اے ٹی ایم اور ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی کی سہولت شامل تھی۔ اندرونی طور پر ان کمپنیوں کو روایتی فِن ٹیک کا نام دیا گیاہے کیونکہ یہ کمرشل بینکوں کو مصنوعات اور سہولیات فراہم کرتی ہیں۔انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز، جیسا کہ براڈ بینڈ اور وائرلیس انٹرنیٹ کی سہولیات اورا سمارٹ فون ٹیکنالوجی کی ترقی سے پاکستان میں فِن ٹیک کی کمپنیوں کی ایک نئی کھیپ سامنے آئی ہے۔ یہ ابھرتی ہوئی فِن ٹیک کمپنیاں موجودہ مالی اداروں کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے خود مالی سہولیات کی فراہمی کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کررہی ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق 3.2 کروڑ انٹرنیٹ کے صارفین پر مشتمل اس ملک میں جن میں سے 2.9 کروڑ افراد 3G یا 4G ٹیکنالوجی کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور جہاں ایک تہائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، ابھرتی ہوئی فِن ٹیک کمپنیوں کی اختراعی مالی سہولیات میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔

ادائیگیوں کے لیےا سمارٹ فونز کا استعمال

ڈیجیٹل ادائیگی کے پلیٹ فارمز کی ایک اور اختراعی خوبی یہ ہے کہ ان میں مختلف بینکوں کے اکاؤنٹس کو ایک دوسرے کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایک اور فِن ٹیک کمپنی کے حسنین شیخ جلد ہی ایک نئی ایپلی کیشن لانچ کرنے والے ہیں جس میںا سمارٹ فونز کے ذریعے ادائیگیاںکرنا ممکن ہوگا لیکن اس کا پیمانہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہوگا۔ اس میں صارفین کو موجودہ کمرشل بینکوں میں جمع کردہ رقم کو ٹرانسفر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔یہ کمپنی بینکوںکے ساتھ ساتھ نقل و حمل، ریٹیل، اشیاء خوردونوش، تفریح، بجلی، گیس اور ٹیلی فون کی بڑی کمپنیوں کو بطور پارٹنر سائن اپ کررہی ہے۔ حسین شیخ کے مطابق اب تک 12 بڑے بینکس سائن اپ ہوچکے ہیں۔ان کا کہناتھا کہ،’’ہم نے ادائیگی کی سہولت کی بس تیار کی، جس کے ذریعے بڑے بینکوں کے اکاؤنٹس کا باہمی استعمال ممکن تھا۔ ہماری کمپنی نے بڑی موبائل کمپنیوں کو سائن اپ کرلیا۔ اس کے بعدہماری ٹیم نے برانچ لیس بینکنگ کی سہولت رکھنے والا سافٹ ویئر تیار کیا اور کئی بینکس کے ساتھ معاہدہ بھی کرلیا‘‘۔ 2015ء میں کمپنی کی مالیت 18 لاکھ ڈالر تھی اور وہ مالی سہولیات کی تخلیق کے کئی منصوبہ جات ،جیسے کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال کے لیے 54 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی تھی۔

ڈیجیٹل ادائیگیوں کو قابل عمل بنانے کے لیے ٹیلی کمیونیکیشنز اور مالی سہولیات کے فراہم کنندگان کے درمیان پائیدار تعاون ضروری ہے۔ ٹیلی کمیونیکیشن کی کمپنیوں کے پاس مالی سہولیات سے محروم افراد کو سہولت پہنچانے کے لیے انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی موجود ہیں جبکہ مالی سہولیات کے فراہم کنندگان کے پاس ضوابط کا ساتھ ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ موبائل فون آپریٹرزپہلے ہی اپنے صارفین کو موبائل نمبرکے ذریعے رقم بھیجنے اور وصول کرنے کی سہولت دیتے آرہے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک اور فِن ٹیک کمپنی ڈائریکٹ کیریئر بلنگ کا پلیٹ فارم بنا رہی ہےجس کے ذریعے صارفین اپنے موبائل فون کے بیلنس سے شریک کاروباری اداروں کو ادائیگیاں کرسکیں گے۔ اس مقصد کے لیے موبائل فون آپریٹرز کو سائن اپ کیا جارہا ہے۔ آگے چل کر یہ اسٹارٹ اپ کمپنی گوگل پلے اسٹور (Google PlayStore) اور نیٹ فلکس (Netflix) کے لیے بھی موبائل فون کے بیلنس کے ذریعے ادائیگی کی سہولت فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

برانچ لیس بینکنگ کا مستقبل

بظاہرفِن ٹیک کمپنیوں کابینکوں کے بغیر کوئی مستقبل نظر نہیں آتا ہے۔ اگر فِن ٹیک کمپنیاں ڈیجیٹل والٹ کے استعمال کو فروغ دینے میں کامیاب ہوجائيں تو کمرشل بینکس بھی ،جو اس وقت اپنے حجم کی وجہ سے برانچوں اور کیش میں پھنسے ہوئے ہیں، اسی راہ پر چل پڑيں گے۔ اس طرح، پاکستانی معیشت زیادہ تیزی سے کیش کے مکمل خاتمے کی جانب بڑھے گی لیکن یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہوگا جب فِن ٹیک کمپنیاں اور کمرشل بینکس ایک ساتھ ملک کرکام کریں۔

تازہ ترین