• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صنعتی انقلاب کی نوید

پاکستان میں کل صنعتوں کا 99فیصد چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں پر مشتمل ہے ۔ یہ شعبہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں 40فیصد سے زائدحصہ ڈال رہا ہے۔ اس شعبے میں غیر زرعی لیبر فورس کے تقریباً 80فیصد افرادکو باعزت روزگار مل رہاہے۔آج سے تقریباً 19سال پہلے چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں اور کاروبار کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے سمیڈا کا قیام عمل میں لایاگیا تھا اور اسے یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ ایس ایم ایز کی ترقی، مکمل تکنیکی مشاورت، رہنمائی، تربیت کی فراہمی، صنعتی اداروں اور ماہرین تعلیم کے باہمی روابط کے قیام اور فروغ،جدید ریسرچ سے آگاہی او ر اس کے استعمال، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے ذریعے روزگار کی فراہمی میں اضافے اور ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے ایک قابل عمل حکمت عملی بنائے اور پھر ان پر عملدرآمد بھی کروائے۔ ان مقاصد کے حصول کیلئے اس ادارے نے ملک کے طول و عرض میں بے پناہ کام کیا ہے۔ دنیا جس تیزرفتاری سے صنعتی اور اقتصادی میدان میں آگے بڑھ رہی ہے اس کے پیش نظر ہمیں فوری نتائج دینے والی پالیسیاں بنانی ہوںگی ،بڑی اوردیرپا صنعتوں کےلیے طویل المیعاد منصوبے بنانے ہوں گے۔

چھوٹی،درمیانی صنعتوں کی اہمیت

ساری دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ملک کی فوری ترقی، معیشت کی مضبوطی، مقامی خام مال کی کھپت، زرمبادلہ کمانے، پسماندہ علاقوں کی ترقی اور بے روزگاری کے خاتمے میں چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کی اہمیت مسلمہ ہے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ”چھوٹی صنعتیں بڑی نعمتیں“کے حقیقی نعرے پر ہم نے عمل کرنے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ آپ پاکستان کے مختلف شہروں میں قائم اسمال انڈسٹریل اسٹیٹس کی حالت زار کو دیکھ لیں توآپ کو خود اندازہ ہوجائے گا کہ ہم نے اپنی ناقص منصوبہ بندی سے ان کا کیا حال کردیا ہے۔ 

چھوٹی صنعتوں کے فروغ کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یونیڈو کے تعاون سے شروع کیا جانے والا تعلیمی اور تربیتی پروگرام ایس پی ایکس نہایت کامیابی سے جاری ہے۔ اس وقت دنیا کے پچاس ممالک کی ایک لاکھ تیس ہزار کمپنیوں سے مکمل رابطہ کرکے ان کاڈیٹا بھی مرتب کیا جاچکا ہے۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ پاکستان میں خواتین بھی صنعتی شعبے میں بے حد دلچسپی لے رہی ہیں۔اس وقت پاکستان کی تمام بڑی صنعتیں بے شمار مسائل کا شکار ہیںجن میں بجلی اور گیس کا بحران، ٹیکسوں کی بھرمار، سرخ فیتہ، ناقص مالی اور برآمدی پالیسیوں اور بلدیاتی اداروں کے من مانے قوانین شامل ہیں،انہیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جن وسائل سے نوازا ہے اگر ہم انہیں ایمانداری اور محنت کے ساتھ استعمال کریں تو ہمارا شمار بھی بہت جلد دنیا کے 25مضبوط معیشت والے ممالک میں ہوسکتا ہے اس کیلئے ہمیں 2025ءکا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

برآمدی صنعتیں

پاکستان کی برآمدات کی شروعات کھیلوں کے سامان ، آلات اور سرجیکل اوزاروں سے ہوئی ۔ یہ اشیاء ان علاقوں سے برآمد کی جاتی تھیں جو آج بھی پاکستان کا حصہ ہیں۔ برآمدات کی فروغ کیلئے حکومت کی ترغیبات سے نہ صرف ملکی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا بلکہ برآمدات کی مالیت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ پاکستان کی مجموعی برآمدات میں گومندرجہ بالا اشیاء کا حصہ کافی زیادہ تھا لیکن آج بھی یہ ملک کی نما یاں برآمدات نہیں کہلائی جا سکتیں ۔

بنیادی مصنوعات:ایک وقت تھا کہ کھالیں ملک کی نمایاں برآمدات میں شمار کی جاتی تھیں۔ مگر یہ مسلسل کم ہوتی گئیں ۔خام چمڑے اور کھالوں کی برآمدات میں جو کمی ہوئی وہ چمڑ ے کی مصنوعات خصوصاًجوتوں کی برآمدات میں اضافہ سے پوری ہوگئی ۔

سوتی مصنوعات:سوتی کپڑے اور مصنوعات کی برآمدات میں بھی غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پاکستان کی سوتی کپڑ ے کی صنعت کی برآمدات مسلسل بہتر ہوتی جا رہی ہیں۔ملک کی مجموعی پیداوار کا ایک تہائی سے زیادہ برآمد کیا جاتا ہے۔ترقیاتی منصوبوں میں سوتی مصنوعات کی برآمد ات کا ہدف بہت زیادہ تھا۔جو وقت سے پہلے ہی عبور کر لیا گیا اور اب یہ مصنوعات پاکستان کی نمایاں برآمدات میں شامل ہیں۔سوتی برآمدات کی کار کردگی اس لحاظ سے اور بھی قابلِ تعریف ہے کہ انکی پیداوار اور متعلقہ درآمدی مرحلوں میں کئی مسا ئل اور پیداوار میں تاخیر بھی ہوئی۔ ابتدائی منصوبے کے تحت سوتی دھاگے کی پیداوار میں اضافہ متوقع ہے۔ سوتی مصنوعات کی برآمدات میں بھی مجموعی طور پر بہترین سالانہ شرح اضافہ دیکھنے آیا بلکہ اسکی برآمدات کی رفتار پیداواری صلاحیت سے بھی زیادہ تھی۔سوتی دھاگے پر ملی رعائتوں کی غیر موافق تقسیم اور غلط حکمتِ عملی کے باعث سوتی مصنوعات کی برآمدات کی سالانہ شرحِ نموکم ہو رہی ہے۔لیکن پھر بھی برآمدات پیداوار سے کہیں زیادہ ہیں۔ سوتی دھاگے اور سوتی کپڑوں کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔کھڈیوں اور چرخوں کی صورت میں کپڑا سازی کی صلاحیت میں بھی وسعت آئی ہے۔آج سوتی دھاگے کی برآمدات دنیا میں چوتھے نمبر پر اور سوتی مصنوعات کی برآمدات پانچویں نمبر پر ہیں۔سوتی دھاگے کے نمایاں خریدار سوشلسٹ ممالک رہے ہیں۔مجموعی طور پر ہماری سوتی دھاگے کی برآمدات ساٹھ فیصد سے زیادہ ترقی پذیر ممالک کیلئے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ہانگ کانگ سوتی دھاگے کی سب سے بڑی منڈی ہے۔

پاکستان عمدہ معیار کا سوتی دھاگا اور سوتی کپڑے کی مصنوعات برآمدکرتا ہے اور یہ ملکی پیداوار کا بڑا حصہ ہے۔سوتی دھاگے کی مجموعی پیداوار کا 30 فیصد برآمد کیا جاتا ہے۔

تقابلی برآمدات:انیسویں صدی میں ترقی یافتہ ممالک تیار شدہ اشیاء بناتے تھے اور غیر ترقی یافتہ نو آبادیاں ان ممالک کی صنعتوں کیلئے خام مال تیار کرتی تھیں ۔ یہ رجحان اب بدل گیا ہے۔ اسکی جگہ اب تقابلی برآمدات نے لے لی ہے۔ عالمی معیشت کی بہتری کیلئے اب اس نظرئیے کو فروغ دینا ہوگا کہ ترقی یافتہ ممالک پیچیدہ اور مشکل اشیاء بنائیں اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک سوتی کپڑوں جیسی سادہ مصنوعات تیار کریں۔ترقی پذیر ممالک کے اس غیرمتوازن مسئلے کا صحیح ادراک ماضی میں اس لئے نہ ہو سکا کہ انکے تجارت کے خسارے کو پورا کرنے کیلئے یا تو اپنے بیرونی اقتصادی تعلقات میں نہایت کم سطح پر غیرمتوازن سمجھوتے کرنے پڑینگے یا پھر وہ خسارے کو اپنی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ کرکے پورا کرینگے ۔

تازہ ترین