• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتخابات آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کئی دبی ہوئی چنگاریوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ گویا اس بات کا کچھ جواز ہے کہ ہم سیاسی مباحثوں میں الجھے رہیں۔ لیکن سیاست تو مسلسل ہمارے اعصاب پر سوار رہتی ہے اور ہم ایک بدلتے ہوئے، بگڑتے ہوئے معاشرے کو دیکھنے اور سمجھنے سے گریز کرتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارا قومی بحران اتنا سیاسی نہیں جتنا ذہنی، علمی اور اخلاقی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہمارے ٹاک شوز میں چند جانی پہچانی آوازیں، اپنے رٹے ہوئے فقرے دہرانے میں مصروف رہتی ہیں۔
اب اس مسئلے کو دیکھئے کہ ہم بھی اور دوسرے مسلم معاشرے بھی ایک عرصے سے انحطاط اور انتشار کا شکار ہیں لیکن ہم اکثر گزرتے ہوئے زمانے کی کڑوی سچائیوں سے آنکھیں چرا کر اپنے ماضی کی عظمت کا غلاف اوڑھ لیتے ہیں۔ جیسے یہ ’تہذیبی نرگسیت‘ ہمارے دکھوں کا مداوا ہو۔ اس ضمن میں میرا حوالہ وہ مہم ہے جو ’جیو‘ اور جنگ گروپ نے ’ذرا سوچئے‘ کے باب میں تعلیم کے موضوع پر شروع کی ہے۔ اس کی ایک پیشکش میں اس فرق کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی کہ جس زمانے میں مغل حکمران ہرن مینار اور تاج محل جیسی عمارات تعمیر کروا رہے تھے، مغرب میں ان یونیورسٹیوں کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں جو آج بھی پوری دنیا میں علم کی روشنی پھیلا رہی ہیں۔
اس سیدھے سادے تقابلی جائزے نے چند حضرات کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ یہ اعتراض کیا گیا کہ اس طرح اپنے آباؤ اجداد کو ”جاہل، ناخواندہ، بدتہذیب، ظالم اور گنوار“ کہا جا رہا ہے۔ مغل دور کی تعمیراتی عظمت تو مرعوب کرتی ہے لیکن اس زمانے کے تعلیمی اور سماجی کمالات کا ذکر بھی کیا گیا۔ اپنے تئیں ان حضرات نے ”تاریخ کی گواہی“ پیش کی ہے۔
تاریخ کی گواہی؟ کون سی تاریخ؟ ہمارا تو المیہ یہی ہے کہ ہم تاریخ کو اپنا گواہ بنانے سے ڈرتے ہیں۔ ہم تاریخ سے چھپے، چھپے پھرتے ہیں۔ جن مغربی درس گاہوں کا ’ذرا سوچئے‘ کی مہم میں ذکر کیا گیا ہے وہ تو اب بھی موجود ہیں اور ان میں مسلسل توسیع ہوتی رہی ہے۔ مغلیہ دور کے کتب خانے، درس گاہیں اور شفاخانے کہاں ہیں؟ ہاں، ہرن مینار کھڑا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان حضرات نے جو تاریخ کی سچائیوں کو تسلیم نہیں کرتے، اپنی ایک تاریخ الگ لکھ رکھی ہو۔ اس تاریخ میں انگریزوں نے کبھی برصغیر پر غلبہ حاصل نہ کیا ہو۔ اورنگ زیب مغلوں کے زوال نہیں بلکہ ان کے عروج کا پیامبر ہو۔ مغلوں نے ہی اس خطے میں ٹیلی گراف اور ریلوے کا نظام رائج کیا ہو۔ تاریخ کی گواہی اپنی جگہ، جو اس وقت ہماری اور دوسرے بیشتر مسلم معاشروں کی صورت حال ہے، اس کی تصویر کون بنائے گا اور وہ کیسی ہو گی؟
’ذرا سوچئے‘ کی مہم پر جو اعتراضات کئے گئے ہیں ان کی اپنی جگہ کوئی اہمیت نہیں البتہ ان کا ذکر اس لئے مفید ہے کہ اس بہانے اس مہلک انداز فکر کی نشاندہی ممکن ہے جو ہمیں اپنے آپ پر تنقید سے روکتا ہے۔ یہاں موضوع تعلیم ہے۔ تو یہ سوال بھی تو کوئی پوچھے کہ کیا مغل حکومت کے اختتام کے وقت مسلمان تعلیم اور معاشی خوشحالی میں غیر مسلموں سے آگے تھے؟ یہ تو اسی خطے کی بات ہوئی، باقی دنیا میں کیا ہو رہا تھا، اس کی تو ایک اور ہی کہانی ہے۔
آیئے! سرسید سے پوچھتے ہیں کہ یہ کہانی کیا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کے لئے سرسید کی کاوشیں بھی تاریخ کی گواہی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ 1869ء میں سرسید انگلستان گئے تو انہوں نے دو دنیاؤں کے فرق کو اتنی شدت سے محسوس کیا کہ اس کے اظہار میں وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائے اور ان کے سفرنامے کی اشاعت کو روک دیا گیا۔ لندن سے اپنے ایک خط میں انہوں نے لکھا ”میں سچی کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان کی قومیں خواہ وہ اعلیٰ ذات کی ہوں یا ادنیٰ، سوداگر ہوں یا چھوٹے دکاندار، پڑھے لکھے ہوں یا ناخواندہ، جب ان کا مقابلہ انگریز لوگوں کی تعلیم، آداب اور راست بازی سے کیا جائے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی غلیظ انسان کو کسی خوبرو انسان کے مقابل رکھ دیا جائے“۔ یہاں وہ تمام ہندوستانیوں کی بات کر رہے ہیں۔ بہرحال یہ تو واضح ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے تعلیم میں کوئی باقاعدہ دلچسپی نہیں لی۔ تعلیم کی اہمیت اور مسلمانوں کی خستہ حالت کا ذکر سر سید نے یوں کیا”تعلیم اور طاقت کا رشتہ اس قدر واضح ہے کہ اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اے مسلمانو، میں آپ سے کہتا ہوں کہ اپنی حالت پر آنسو بہاؤ،کیا آپ کے پاس اتنی دولت (علمی اور مادی) ہے کہ آپ ہندو سے مقابلہ کر سکتے ہیں؟“
اس ضمن میں ایک اور موازنہ بھی برمحل ہے۔ ہم نے مغل سلطنت کے زوال پر ایک نظر ڈالی۔ اس زمانے میں اور اس کے بعد بھی ایک طویل عرصے تک سلطنت عثمانیہ کا چراغ جلتا رہا۔ کیسی عظیم الشان تاریخ ہے عثمانیوں کی۔ لیکن جب زوال کا وقت آیا تو وہاں کیا ہو رہا تھا اور مثلاً انگلستان میں کیا ہو رہا تھا؟ یاد رہے کہ ہم صرف علم کی بات کر رہے ہیں۔ منشی محبوب عالم ”پیسہ“ اخبار لاہور کے ایڈیٹر تھے۔ 1901ء میں انہوں نے یورپ، بلاد روم اور شام و مصر کا سفر کیا۔ ان کے سفرنامے میں بھی دو مختلف دنیاؤں کی داستان ہے۔ انہوں نے لکھا کہ عثمانیہ سلطنت میں کیسے کتابوں اور اخبارات کو سنسر کیا جاتا تھا اور لندن میں ان دنوں علمی ماحول کیسا تھا، اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک اشارہ کہ ایک سو سال سے زیادہ عرصے پہلے منشی محبوب عالم نے کیا دیکھا۔ مطالعے کے شوق کا انہوں نے خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ کتابوں کی ایک دکان سے وہ بہت مرعوب ہوئے۔ آگے لکھتے ہیں”اسی کے قریب ایک دوسری جگہ ہے کہ جہاں مطالعہ کرنے والوں کا ہر وقت ہجوم رہتا ہے۔ اس سے میری مراد برٹش میوزیم کی لائبریری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں سب سے بڑا کتب خانہ ہے۔ جب تم کبھی اس میں داخل ہونے کی کوشش کرو گے تو کم و بیش چار سو مرد اور عورتیں اس کے ریڈنگ روم میں کتابوں میں مصروف پاؤ گے“۔ یہ 1901ء کی بات ہے کیا ہم لکھنے پڑھنے کے میدان میں، سو سال پرانے لندن سے بھی میلوں پیچھے نہیں ہیں؟
تاریخ کی گواہی کا ذکر ہوا تھا۔ اگر ہم سن سکیں تو تاریخ چیخ چیخ کر ہمیں بتا رہی ہے کہ صرف تعلیم ہی قومی سلامتی کی ضمانت دے سکتی ہے۔ اسی سے قوموں کا مستقبل وابستہ ہے۔ چلتے چلتے، ارشد محمود کی کتاب ”تعلیم اور ہماری قومی الجھنیں“ کے چند جملے“ اسلام کی ثقافتی تاریخ، عقیدے اور عقل کے درمیان تصادم کی داستان ہے۔ تعلیم کا لفظ علم سے ماخوذ ہے اور علم بنیادی طور پر عقل سے مشروط۔ چنانچہ عقل، علم اور تعلیم مسلم معاشروں میں کمزور ترین عناصر کے طور پر پائے جاتے ہیں۔ عقیدے کی حفاظت اس قدر پُرجوش رہی کہ اس کے عوض کیا کیا کھویا جا سکتا ہے اس کا ہمیں ہوش ہی نہ رہا“ ذرا سوچئے!
تازہ ترین