• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عام انتخابات میں 24دن باقی ہیں۔تمام سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کو ٹکٹس جاری کرچکی ہیں۔امیدواروںکی نااہلی کا سلسلہ جاری ہے۔ بہت سے امیدواروں نے پارٹی ٹکٹ واپس کئے ہیں ،جبکہ کئی اضلاع میں ٹکٹوں کی تقسیم بھی غلط کی گئی ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلے کبھی ایسے انتخابات نہیں ہوئے۔غیر یقینی کی صورتحال ہے۔تحریک انصاف کے امیدوار بھی پریشان ہیں اور مسلم لیگ ن بھی تذبذب کا شکا ر ہے۔گزشتہ چند ہفتوں کے دوران مسلم لیگ ن کو جنوبی پنجاب میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔مگر تحریک انصاف اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھا سکی۔تحریک انصاف کو مسلسل مواقع دئیے جارہے ہیں مگر لگتا ہے دوڑنے والا گھوڑا بہت کمزور ہے۔ٹکٹوں کی تقسیم نے تحریک انصاف کی ساکھ کونقصان پہنچایا ہے ۔عمران خان کے فیصلوں نے تحریک انصاف کو ہروانے میںکوئی کمی نہیں چھوڑی۔ غیرسنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ عمران خان نے پنجاب کے چند اہم حلقوں میں ٹکٹ نہیں دئیے اور ان پر بات چیت جاری تھی کہ کس امیدوار کو میدان میں اتار ا جائے۔مگر اچانک رات کو پتہ چلا کہ خواتین کو پانچ فیصد ٹکٹوں کی تقسیم کے بغیر انتخابی نشان الاٹ نہیں ہوگا۔عمران خان نے کسی بات کی پرواہ کئے بغیر حکم جاری کیا کہ ان اہم ترین حلقوں میں جو بھی خاتون امیدوار ہے اسے پارٹی کا ٹکٹ دے دیا جائے۔ایسے ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیا گیا جنہوں نے کبھی کونسلر کا الیکشن نہیں لڑا۔کچھ امیدواروں کو تو خود بھی یقین نہیں آیا کہ انہیں پارٹی نے ٹکٹ دے دیا ہے۔
جنوبی پنجاب کے آخری ضلع راجن پور سے آغاز کرتے ہیں۔راجن پور کے حوالے سے تحریک انصاف نے اچھے فیصلے کئے ہیں۔راجن پور کی تین سیاسی حقیقتوں کو اکٹھے کرکے ٹکٹ دئیے گئے۔میر بلخ شیر مزار ی کے بیٹے،نصر اللہ دریشک اور جعفر لغاری کو قومی اسمبلی کے تین حلقوں سے میدان میں اتارا گیا ہے۔ابھی تک کی صورتحال سے تو نظر آتا تھا کہ تحریک انصاف تینوں نشستیں حاصل کرلے گی مگر نصر اللہ دریشک کی نااہلی سے صورتحال پر خاصا فرق پڑا ہے۔ایک روز قبل اچانک مسلم لیگ ن کی ٹکٹیں واپس کرنے والے گورچانی اور حفیظ دریشک مضبوط امیدوار ہونگے۔ڈیرہ غازی خان اہم ترین ضلع ہے۔سیاسی طور پر فاروق لغاری اور ذوالفقار کھوسہ کی سیاست کا محور رہا ہے۔مگر تحریک انصاف نے اس ضلع میں بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں۔این اے 192سے میاں شہباز شریف کے مقابلے میں انتہائی کمزور امیدوار کو ٹکٹ دیا ہے۔اس حلقے سے پچھلے تین سال سے ذوالفقار کھوسہ کے بیٹے سیف کھوسہ الیکشن لڑ رہے ہیں۔ایک مرتبہ رکن قومی اسمبلی اور رکن پنجاب اسمبلی بھی رہے ہیں۔یہ حلقہ اویس لغاری کے آبائی حلقے کے طور پر جانا جاتا ہے۔او یس لغاری اور سیف کھوسہ پرانے سیاسی حریف ہیں۔مگر ایسے حلقے سے ایک دوست کے داماد کو ٹکٹ دے دیاگیا ۔ مقصود لغاری کے بیٹے محمد لغاری سیف کھوسہ کے مقابلے میں یہاں سے کمزور امیدوار ہونگے۔اسی طرح ڈیرہ غازی خان شہر کے فیصلوں میں بھی بہت غلطیاں کی گئیں۔ذوالفقار کھوسہ کا خاندان ڈیرہ شہر کی سیٹ پر مضبوط گرفت رکھتا ہے۔ذوالفقار کھوسہ اس حلقے سے 9مرتبہ ممبر صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں۔مگر ان کے بیٹے کو ٹکٹ دینے کے بجائے ایک ایسی خاتون کو ٹکٹ دیا گیا ،جن کو شاید ہی ڈیرہ غازی خان شہر میں کوئی جانتا ہو۔اویس لغاری کے مقابلے میں زرتاج گل کو ٹکٹ دیا گیا مگر زرتاج گل کے نیچے دو ونگز اتنی کمزور ہیں کہ مجھے تمام امیدواروں کی ضمانت ضبط ہونے کا خدشہ ہے۔جبکہ تیسرا ٹکٹ ذوالفقار کھوسہ کو دیا گیا ہے۔جہاں پر ان کا مقابلہ امجد فاروق کھوسہ سے ہے۔اس حلقے میں سخت مقابلے کی توقع ہے۔مظفر گڑھ کے حوالے سے بھی تحریک انصاف کے فیصلے کوئی بہت اچھے نہیں کئے گئے۔پہلے جمشید دستی کے مقابلے میں امیدوار نہ اتارنے کا ارادہ تھا۔مگر پھر اچانک کسی خاتون کو ٹکٹ دے دیاگیا لیہ کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ان اضلاع میں تحریک انصاف سے زیادہ آزاد امیدواروں کی کامیابی کا امکان نظر آرہا ہے۔
ملتان ضلع میں شاہ محمود قریشی نے اپنی پسند کے امیدواروں کا انتخاب کروایا ہے۔سکندر بوسن کو ٹکٹ نہیں لینے دیا۔اس لئے ملتان میں بھی تحریک انصاف کو دھچکا لگنے کا امکان ہے۔ٹکٹوں کے اچھے فیصلے تحریک انصاف کی فتح کی را ہ ہموارکرسکتے تھے مگر پوری امدادکے باوجود تحریک انصاف اس کا فائدہ نہیں اٹھاسکی ہے۔جنوبی پنجاب میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلم لیگ ن کمزور ہوئی ہے مگر یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ تحریک انصاف مضبوط ہوگئی ہے۔بلکہ اصل گیم آزاد امیدواروں کے ہاتھ میں جاچکا ہے۔شہباز شریف کے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے مسلم لیگ ن کا ووٹر تو متحد ہے مگر کچھ حلقوں میں امیدواروں نے آخری موقع پر ٹکٹ واپس کرکے نقصان پہنچایا ہے۔مکمل حمایت اور سپورٹ کی وجہ سے تحریک انصاف جنوبی پنجاب میں اچھی سیٹیں نکال سکتی تھی۔مگر الیکشن لڑنے کے لئے سیاسی وژن کی اشد ضرورت ہوتی ہے جبکہ عمران خان بدقسمتی سے اس سے محروم ہیں۔جنوبی پنجاب کی قسمت کا فیصلہ آزاد امیدوار کریں گے۔کہا جاسکتا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کی یہاں پر پوزیشن بہتر ہے اور پورا جھاڑو نہیں پھر سکا مگر کوئی بہت اچھی بھی نہیں ہے۔کانجو،ریاض پیرزادہ سمیت متعدد امیدواروں کا کھڑا رہنا فرق ڈالے گا۔وگرنہ لغاری، کانجو، پیرزادہ، ہنجرا یہ وہ لوگ ہیں جو سب سے پہلے اڑتے ہیں۔مگر اس مرتبہ ان لوگوں نے اسٹینڈ لیا ہے۔سلطان ہنجرا شاید خود آزاد لڑیں مگر ان کے بھائی کے بچے پارٹی ٹکٹ پر لڑرہے ہیں۔اس لئے مسلم لیگ ن کو تو حالات کی سختی کا سامنا رہا ہے وگرنہ ان کی ٹکٹوں کی تقسیم اور فیصلے کافی بہتر تھے۔جبکہ تحریک انصاف کے لئے ہر طرح کے حالات سازگار تھے مگر ان کی بدقسمتی یہ رہی کہ عمران خان نے ٹکٹوں کی تقسیم کے بہت غلط فیصلے کئے ہیں۔ایسی شکایات بھی سامنے آئی ہیں جس میں مبینہ طور پرپیسے لے کر تحریک انصاف کے ٹکٹ تقسیم کئے گئے ہیں۔اگر یہ معاملہ مزید اٹھا تو عمران خان کےلئے مشکلات پیدا کرے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین