• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں اس بات کی پیش گوئی کی تھی کہ آنیوالے وقت میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مزید کمی ہوگی۔ معیشت دانوں کے مطابق پاکستانی روپے اپنی حقیقی قدر سے زیادہ قیمت پر ٹریڈ ہورہا تھا اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جون 2013ء میں حکومت سنبھالنے کے بعد دو سال تک روپے کو مصنوعی طور پر 98.25روپے کی سطح پر رکھا تھا، اس عرصے جب بھی مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھتی تو اسٹیٹ بینک کی دخل اندازی سے مطلوبہ ڈالرز مارکیٹ میں سپلائی کرکے ڈالر کی طلب اور رسد برقرار رکھی جاتی تھی تاہم تیسرے سال جون 2015ء میں روپے کی قدر کم ہوکر 101.80 روپے تک آگئی اور جون 2017ء تک ڈالر 104.80روپے پر ٹریڈ ہوتا رہا، اس طرح سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور میں روپے کی قدر کو انا کا مسئلہ بناتے ہوئے روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر 98سے 104کی سطح پر رکھا جو اس کی اصل قدر سے 14سے 15فیصد زیادہ تھا جبکہ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں بھی روپے کی قیمت اس کی حقیقی قدر سے 10 سے 15فیصد زیادہ بتائی گئی جس کے بارے میں، میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا۔ دسمبر 2017ء میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے جانے کے بعد جب رانا افضل وزیر مملکت اور ڈاکٹر مفتاح اسماعیل مشیر برائے خزانہ بنائے گئے تو ڈالر 4.7 فیصد کمی سے 112 روپے کی سطح پر پہنچ گیا جس کی وجہ سے دیگر بیرونی کرنسیوں یورو اور پونڈ کی قدریں بھی بڑھ گئیں۔ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کی پالیسی تھی کہ ڈالر کو اس کی اصل قدر پر لایا جائے جس کیلئے وہ روپے کی قدرمیں مزید کمی کرنے کے حامی تھے اور اس وجہ سے 29؍جون 2018کو ڈالر انٹربینک میں 121.5روپے اور اوپن مارکیٹ میں 124.5 روپے کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گیا۔ اس طرح گزشتہ پانچ سالوں میں ڈالر کی قدر میں تقریباً 23.50 روپے کی مجموعی کمی ہوئی جس میں صرف گزشتہ 6 مہینوں میں 18روپے کی کمی ہوئی اور دسمبر 2017ء سے جون 2018ء تک اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر میں 3مرتبہ کمی کی جبکہ روپے کی قدر پر متضاد حکومتی پالیسیوں کے باعث پانچ سالوں میں ملکی ایکسپورٹ بری طرح متاثر ہوئی۔
میں ذاتی طور پر روپے کی یکدم ڈی ویلیو ایشن کے خلاف ہوں لیکن روپے کی حقیقی قدر کا حامی ہوںکیونکہ ماضی میں یکدم ڈی ویلیو ایشن کے اچھے اثرات دیکھنے میں نہیں آئے۔ حکومت نے جب بھی پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی، ایکسپورٹرز نے اِس کا فائدہ بیرونی خریداروں کو ڈسکائونٹ کی شکل میں منتقل کردیا اور ملکی ایکسپورٹس میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا لیکن اگر روپے کی قدر مارکیٹ میں ڈالر کی طلب و رسد کے حساب سے رکھی جائے اور اسٹیٹ بینک مداخلت نہ کرے تو یہ ایک بہتر حکمت عملی ہے۔ ایکسپورٹس میں اضافے کیلئے حکومت کو ڈی ویلیوایشن کے بجائے ایکسپورٹرز کی مقابلاتی سکت برقرار رکھنے کی ضرورت ہے جس میں بجلی اور گیس کے مقابلاتی ریٹس اور ایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس ریفنڈز سرفہرست آتے ہیں۔ ڈی ویلیو ایشن سے نہ صرف بیرونی قرضے مزید بڑھ جاتے ہیں۔ مثلاً روپے کی قدر میں صرف 5روپے کم کرنے سے راتوں رات ہمارے بیرونی قرضوں میں 425ارب روپے کا اضافہ ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ ڈالر کی قدر میں اضافے سے امپورٹ کی گئیں پیٹرولیم مصنوعات اور خام مال کی قیمتیں بڑھ جائینگی جو افراط زر میں اضافے کا سبب بنیں گی جس سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آسکتا ہے لہٰذابہتر یہ ہے کہ روپے کی قدر کے تعین کو مارکیٹ قوتوں پر چھوڑ دیا جائے جو ہماری ایکسپورٹ میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 14ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا ہوگیا ہے حالانکہ گزشتہ چند ماہ ملکی ایکسپورٹس میں 13فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں 34 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ بیرونی قرضے بڑھکر 96ارب ڈالر کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئے ہیں جس میں سے ہمیں اس سال تقریباً 5 ارب ڈالر کی ادائیگی بھی کرنی ہے جس کیلئے حکومت نے عارضی طور پر چین سے ایک سے دو ارب ڈالر سوفٹ ڈپازٹ کی درخواست کی ہے جبکہ اپریل 2018ء میں حکومت نے چین کے کمرشل بینکوں سے مزید ایک ارب ڈالر کے مختصر المیعاد قرضے حاصل کئے تھے۔ معیشت کے طالبعلم کی حیثیت سے میرا جائزہ ہے کہ ہماری معیشت کا چین پر انحصار بڑھتا جارہا ہے جس میں چین سے لئے جانیوالے نئے قرضے بھی شامل ہیں حالانکہ پاکستان کو مالی قرضے دینا چین کی پالیسی میں نہیں۔
14جون 2018ء کوپاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر سے کم ہوکر 16.79ارب ڈالر رہ گئے ہیں جس میں اسٹیٹ بینک کے 10.26ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے ڈپازٹس 6.53ارب ڈالر شامل ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی سے روپے کی قدر پر شدید دبائو ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں بیرونی خریدار ملک میں سیاسی عدم استحکامی کی وجہ سے اپنا سرمایہ مسلسل نکال رہے ہیں۔ گزشتہ سال بیرونی سرمایہ کاروں نے 728 ملین ڈالر اور اس سال اب تک 266 ملین ڈالر کے اپنے شیئرز فروخت کئے ہیں جس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ مندی سے نکل نہیں پارہی لیکن امید ہے کہ روپے کی اضافی ڈی ویلیو ایشن سے بیرونی سرمایہ کار پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں دوبارہ سرمایہ کاری کریں گے۔پاکستان کے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں کمی کے باعث انٹرنیشنل کیپٹل مارکیٹ پاکستان کے جاری کردہ یورو اور سکوک بانڈز جن کی ادائیگیاں 2027ء اور 2036ء میں کرنی ہیں، اپنی اصل قیمت 100 ڈالر فی بانڈ سے کم ہوکر بالترتیب85 اور 82 ڈالر تک آگئی ہے جبکہ چند سال پہلے یہ بانڈز انٹرنیشنل مارکیٹ میں پریمیم پر ٹریڈ ہوتے تھے۔ ان حالات میں سپریم کورٹ کی طرف سے نئی ایمنسٹی اسکیم کو گرین سگنل دیئے جانے کے بعد حکومت کی توقعات ہیں کہ اس اسکیم کے تحت بیرون ملک اثاثوں کو دستاویزی شکل دینے یا انہیں ملک میں واپس لانے پر حکومت کو تقریباً 3 ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے جس سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا ملے گا۔ سابق گورنر اسٹیٹ بینک اور نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر سے حال ہی میری کراچی میں ایمنسٹی اسکیم کے سلسلے میں تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ان سے گفتگو سے یہ اندازہ ہوا کہ وہ روپے کی قدر کیلئے اسٹیٹ بینک کی دخل اندازی کے حق میں نہیں۔عبوری حکومت کے پاس ایک مختصر مینڈیٹ ہے جس میں وہ اہم پالیسی فیصلے نہیں لے سکتی کیونکہ ان کا بنیادی مقصد ملک میں صاف اور شفاف الیکشن کروانا ہے لیکن آنے والی نئی حکومت کو میرا مشورہ ہے کہ وہ اپنے پہلے 100 دن میں صحیح ترجیحات اختیار کرکے ملک کو درپیش معاشی چیلنجز کا مقابلہ کریں جس میں کرنٹ اکائونٹ خسارے اور اخراجات میں کمی، ایکسپورٹس، ترسیلات زر اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں ہنگامی بنیادوں پر اضافہ کرنا ہوگا۔ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی امدادروکنے کیلئے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) نے اپنے حالیہ پیرس اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا ہے جس کے بعد اب ہمیں آئی ایم ایف سے قرضے لینے کیلئے سخت شرائط پر مذاکرات کرنا ہوں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین