• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کیلئے حالات جتنے آج سازگار ہیں کبھی نہ تھے اور شاید آئندہ بھی نہ ہوں گے۔ اس لئے قیادت‘ انتخابی امیدوار اور کارکن کا ہم آہنگ ہونا ضروری ہے تاکہ زیادہ بہتر اور واضح کامیابی حاصل ہو سکے۔ حریف کی صفوں میں انتشار اور ان کی یقینی شکست دیکھ کر کیا ضروری ہے کہ آپ بھی ذاتی انا یا مفاد کیلئے اپنی صفیں درہم برہم کر لیں۔
سیاست کے تمام ممکنہ اشارے (Indicator) تحریک انصاف کی کامیابی کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔ پرندے موسم نہیں بناتے بلکہ وہ موسم کے تیور دیکھ کر اپنے ٹھکانے بدلتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ہمدردوں کیلئے یہ امر باعث اطمینان ہونا چاہئے کہ رنگ برنگ پرندے دور و نزدیک کی چھتریوں سے اڑ کر ان کی منڈیر پر آن اترے ہیں۔
30اکتوبر 2011ء کے جلسے میں پاکستان سمیت ساری دنیا تحریک انصاف کی مقبولیت کا مشاہدہ کرچکی تھی۔ لوگ جوق در جوق پارٹی میں شامل ہونے لگے۔ انتخاب کا موسم قریب آیا تو بہت سے پرندے جو تحریک کی منڈیر پر اتر آئے تھے اور وہ جو اترنے کیلئے ابھی منڈلا رہے تھے واپس پلٹ گئے۔ ان کی چھٹی حس بتا رہی تھی کہ موسم بدلا ضرور ہے لیکن یہ تبدیلی دیرپا نہیں چنانچہ وہ اپنے ٹھکانوں کو واپس ہو لئے۔ اب کی بار نہ صرف وہ پرندے منڈیر پر اترے بلکہ انہوں نے گھروندے اور گھونسلے بنانا بھی شروع کر دیئے جو ان کے دیر پا قیام پر دلیل ہے۔غنیم کی صفوں میں انتشار، واویلا، چیخ و پکار دوسرا بڑا اشارہ ہے۔ حریفوں کے صلاح کار جو انہیں گلستاں کے دھوکے میں مقتل کی طرف ہانک رہے تھے ان کا خیال تھا کہ شریف حکمرانی سے الگ زیادہ خطرناک ہو گا اور حکمرانی سے جدا کر کے اگر نااہل کر دیا گیا تو اس کی خطرناکی دو چند ہو جائے گی۔ اب وہ شرمندگی کے ساتھ کھسیانی ہنس رہے ہیں۔ ابھی روئے نہیں مگر کھسیانے تو ہیں۔
جس طرح سیاسی پرندے حساس ہیں۔ اسی طرح ذرائع ابلاغ کے ماہرین کی حسیات بھی بڑی تیز ہوتی ہیں۔ ان میں جو سدھائے ہوئے ہیں وہ اپنی ڈال پر بیٹھے رہتے ہیںکہ انہیں وفاداری نبھانی پڑتی ہے مگر جو آزاد ہیں اور حساس بھی ان کا فارمولا ہے کہ ’’اپوزیشن کی اپوزیشن‘‘ نہیں کی جاتی بلکہ اچھا اخبار نویس اور قلمکار اپنے عوام کی نمائندگی کے لئے حکمرانوں پر کڑی نگاہ رکھتا ہے چنانچہ حکمرانوں کے لئے ان کی تیور ہمیشہ کڑے ہوتے ہیں۔ کئی اخبار نویسوں نے پچھلے کچھ دنوں سے کپتان اور اس کی ٹیم کو نشانے پر رکھ لیا ہے جو اس کے آئندہ منصب اور منصب کے محتسبوں کے چوکنا ہونے کی دلیل ہے۔
مقامی سطح پر سیاسی سرگرمیاں اور امید و یاس سے جلتے بجھتے چہرے بھی آنے والے دنوں کی آہٹ ہیں۔ انتخابی ڈیروں کی رونق بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔ جدھر پہلے تین اشاریے۔اہم ترین نشانی جھنگ، اوکاڑہ کے دریائی علاقے اور جنوبی پنجاب ہے جہاں سیاسی جماعت سے زیادہ مقامی حالات اور برادریاں‘ فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ وہاں پر اچھے امیدوار پارٹیوں کی الجھن میں پڑنے کے بجائے آزاد الیکشن کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب کے بار ہم دیکھتے ہیں کہ جھنگ کے سلطان‘ بھروانے‘ سیال‘ چنیوٹ کے لالی اور سید، حکمران جماعت کو چھوڑ کر آزاد الیکشن کے بجائے تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ جنوبی پنجاب کے مخدوم، سردار اور وڈیرے جنہوں نے الگ صوبے کے نام پر مقبول نعرہ اور مضبوط پلیٹ فارم بنا لیا تھا انہوں نے بھی تین دہائیوں کے حکمرانوں کو چھوڑ کر کپتان کا ساتھ دینے میں عافیت سمجھی۔ماضی کی مقبول، مضبوط حکمران جماعتیں مل کر بھی تحریک انصاف جتنے امیدوار میدان میں نہیں اتار سکیں۔ جہاں ان کے امیدوار تھے وہ بھی بڑی تعداد میں بھاگ نکلے اور ٹکٹ واپس کر کے آزاد انتخاب لڑنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
خیبر پختونخواہ اور فاٹا کی اکاون (51)میں سے پچاس (50)نشستوں پر کپتان کے کھلاڑی میدان میں ہیں۔ پنجاب کی 141نشستوں میں ہر ایک پر وہ براہ راست اپنے امیدوار لائے ہیں یا اپنے اتحادیوں کو سونپ دی ہیں۔ بلوچستان کی سولہ میں سے چودہ اور سندھ کی اکسٹھ میں سے پچاس پر امیدوار اتارے ہیں اور باقی نشستیں اتحادیوں کو دیدی گئی ہیں۔
پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کے دو بڑے صوبوں میں مستقل اجارہ داریاں قائم ہو گئیں تھیں۔ پنجاب میں نواز شریف کی مسلم لیگ بلا شرکت غیرے اپنا ڈنکہ بجاتی رہی کوئی حریف تھا نہ مقابل، دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کا کوئی حریف پیدا نہ ہو سکا اور انہوں نے اپنا سکہ خوب چلایا۔ شہری سندھ پوری طرح ایم کیو ایم کی اجارہ داری میں تھا۔ وہاں جس نے اٹھنے کی کوشش کی اسکو کچل ڈالا گیا۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا البتہ رنگ رنگ کا مزہ لیتے رہے۔ ملک بھر میں عشروں سے قائم اجارہ داریوں کو کپتان کی قیادت میں تحریک انصاف نے بیک وقت آن لیا ہے۔ ایک ہی ضرب میں اجارہ داریاں ٹوٹتی نظر آرہی ہیں۔ ہاں مقابلہ ضرور ہے۔ آج نہیں تو کل گرتی دیواروں کو ڈھے جانا ہے۔
دنیا بھر کے ہر ملک میں جو بھی طرز حکومت ہو وہاں ایک اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے۔ جو نظام چلانے اور تسلسل قائم رکھنے کی ذمہ دار ہے۔ یہ ادارہ جاتی نظام پاکستان میں بھی فعال‘ منظم اور طاقتور ہے۔ پچھلے 35برس میاں نواز شریف کبھی ان کے کندھوں پر سوار نکلے اور کبھی ان کا ہوّا دکھا کر ملک بھر میں بلا شرکت غیرے حکمرانی کرتے رہے۔ پچھلے چند مہینوں سے انقلاب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھی کے عادیوں نے خود غل مچا دیا کہ اسٹیبلشمنٹ ہمارے خلاف ہو گئی ہے۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں وہ پردہ گرا دیا جس کی آڑ میں من مانی کیا کرتے تھے۔ چنانچہ شیر کی کھال اترنے پر اندر سے جو بے ضرر جانور نمودار ہوا تو جنگل کے سارے درند، پرند حتیٰ کہ چرند بھی اپنا حساب چکانے آن پہنچے۔
اسٹیبلشمنٹ جس کو اپنا دشمن قرار ہی نہیں دیا، بنا بھی لیا ہے اسکی عوامی حمایت کسی بھی سیاسی جماعت کے مقابلے تعداد میں کم نہیں ہوتی۔ وہ شریف برادران کے مخالف پلڑے میں چلی گئی۔ اس حمایت کے چھن جانے کا نتیجہ ہے کہ جو اپنے تھے وہ بھی بھاگ نکلے، بچ جانے والے بھی آزاد امیدوار بن کر نئی پناہ گاہوں کی تلاش میں ہیں۔
کپتان کے کھلاڑیو! آپ کے پاس دوسری غلطی کی گنجائش نہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت انجانے میں مہلک غلطی کر چکی، انتخابی امیدواروں سے درخواستیں طلب کیں اور درخواست گزاروں کو انٹرویو کے لئے بلائے بغیرغیر واضح درمیانی قیادت کی رپورٹ پر پارلیمانی بورڈ نے یکطرفہ فیصلے کر ڈالے۔ وہ پارلیمانی بورڈ جو ملک بھر کے حلقوں کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں رکھتا تھا۔ بعض انتخابی حلقوں میں سروے کروائے گئے مگر فیصلہ کرتے وقت سروے کے نتائج کو نظر انداز کر کے بعض سفارشیں مان لی گئیں اور نئے آنے والوں کو محض نیا ہونے کی وجہ سے ترجیح دیدی گئی۔ ہر حلقے کے درخواست گزاروں کو بلا کر ان کی زبانی حالات سنے جاتے اور ان سے روبرو عہد لیا جاتا کہ جس کو ٹکٹ مل گیا دوسرا خوشدلی سے اس کے حق کو تسلیم کرے گا تو نہ قیادت کو الجھن پڑتی نہ ہی درخواست گزاروں کی دل شکنی ہوتی۔ بڑی تعداد میں فیصلے درست ہوئے لیکن کم از کم پانچ فیصد حلقوں میں صریحاً غلط ٹکٹ جاری کئے گئے۔ ان فیصلوں کی غلطی کے اثر کو براہ راست ہونیوالی بات چیت سے کم کیا جا سکتا تھا۔ زیادہ تر کارکنوں نے طوعاً و کرہاً فیصلوں کو تسلیم کر لیا ہے۔ مگر چند درخواست گزار جو یقیناً پرانے ہیں اور ان کی کامیابی کے امکانات بھی زیادہ تھے وہ آزاد الیکشن لڑنے کے درپے ہیں۔ پہلی غلطی قیادت نے کی کہ ان کو دلجوئی کئے بغیر رنجیدہ چھوڑ دیا گیا۔ اب دوسری غلطی کا ارتکاب وہ امیدوار کریں گے جن کی اپنے علاقوں میں مقبولیت اور کارکنوں کی ہمدردیاں ان کیساتھ ہیں۔
مگر وہ کڑوہ گھونٹ پی کر یعنی غصہ کھانے کے بجائے غصہ پی جائیں تو اسی میں پارٹی اور محروم رہ جانیوالے امیدواروں کی بھلائی ہے۔ انتخاب لڑنے کی صورت میں گزرتے دنوں کے ساتھ کارکنوں کی اکثریت اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گی اور زیادہ سے زیادہ مایوس ہو کر غیر فعال ہو جائینگے۔ آزاد الیکشن لڑنے والے امیدوار کی کامیابی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ مگر پارٹی کے چند ہزار ووٹ تقسیم ہو جانے سے مخالف فریق کی کامیابی یقینی ہو جائےگی۔

تازہ ترین