• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانی انسان کی ہی نہیں تمام اقسام کی حیات کی بنیادی اور اہم ضرورت ہے لیکن اس کا ادراک وطن عزیز کے نہ حکمرانوں کو ہے نہ ہی اہل سیاست کو وہ تواقتدار کے نشے میں سرشارہیں ۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے مشروط قرضے لے لے کر مملکت خداداد کو گروی رکھ دیا ہے جانے نئے آنے والے کیا کرتے ہیں یہ تو فی الحال اللہ ہی جانتا ہے ۔بھارت جس نے تقسیم ہند کو آج تک دل سے تسلیم نہیں کیا وہ کوئی موقع نہیں جانے دیتا کہ پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا سکے ،اب تک کروڑوں ڈالر وہ پاکستان کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے اور پاکستان میں دہشت گردی اور بد نظمی پھیلانے پر خرچ کر چکا ہے۔ قیام پاکستان سے وہ بیرون سرحد اور اندرون سرحد اپنی کارروائیاں کرتا رہتا ہے۔ جب بھارتی منصوبہ سازوں نے یہ دیکھ لیا کہ عسکری قوت سے پاکستان کو زیر کرنا تو دور کی بات اسے پریشان کرنا بھی ممکن نہیں ہےتو انہوں نے اپنی منصوبہ بندی تبدیل کرلی ہے اب انہوں نے آبی جارحیت کا طریقہ اپنانے کاصرف فیصلہ ہی نہیں کیا بلکہ اس پر عمل درآمد بھی شروع کردیا ہے ان کی یہ واضح منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند سے ترسا دیا جائے وہ کشمیر سے آنے والے دریائوں پر دھڑا دھڑ جگہ جگہ ڈیم بنا کر پاکستان کے حصے کے پانی کا رخ بھی اپنی طرف موڑ رہا ہے اس طرح جب پانی ناپید ہوجائے گا تو پاکستان جو اسی فیصد زرعی ملک ہے اس کی زمینیں بنجر ہوجائیں گی ۔ مگرپاکستانی حکمرانوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ پانی ذخیرہ کرنے کے لئے بھی کچھ انتظامات کتنے ضروری اور اہم ہیں۔ پاکستان میں پانی کی کمی کی وجہ سے نہ صرف زراعت کے لئے بلکہ عوام کے پینے کے لئےبھی پانی نایاب ہو رہا ہے اور صنعتیں متاثر ہونا شروع ہوگئی ہیں بجلی جو پہلے ہی عنقا ہے اب پانی کی کمی کے سبب اس کا حصول مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے دو ہزار پچیس تک کشمیر سے نکلنے والے دریائوں پر بھارت جلد ہی مزید ڈیم بنانے والا ہے پاکستان کو پانی کے قطرے قطرے سےمحتاج کردینے کی منصوبہ بندی کرچکا ہے جبکہ پاکستان میں کسی سازش کے تحت جگہ جگہ سفیدے کے درخت لگا کر زیر زمین پانی کو بھی ختم کیا جا رہا ہے پہلے جہاں پانی پانچ چھ فٹ پر دستیاب تھا اب وہاں تیس سے چالیس فٹ پر بھی دستیاب نہیں ہے، پانی کی کمیابی خطرے کے نشان کوچھو رہی ہے یا یوں کہا جائے کہ خطرے کی گھنٹی بجنے لگی ہے ماہرین اور محب وطن ادارے حکمرانوں کی توجہ بار بار اس طرف دلاتے رہے ہیں لیکن حکمرانوںنے اس جانب بلکل توجہ نہیں دی جبکہ پانی کی کمی ملک کو جلد ہی ایسی ہیبت ناک صورت حال سے دوچار کرنے والی ہے کہ سرسبزشاداب علاقے بنجر اور خشک سالی کا شکار ہونے والے ہیں۔
گزشتہ دنوں عدالت عظمیٰ پاکستان کے چیف جسٹس نے اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے کہا کہ اس اجتماعی مفاد کے معاملے کو عدالت عظمیٰ سن سکتی ہے ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو گہرائی میں دیکھنا اور سمجھنا ہوگا بجلی، پانی اور ڈیموں کی تعمیر کا تعلق پاکستانی عوام کی بقا و سلامتی سے ہے چیف جسٹس نے کالا باغ ڈیم کیس کی سماعت کے دوران کہا کالا باغ کے متنازع ہونے کی وجہ سے دوسرے ڈیم ہنگامی بنیادوں پر بنائے جاسکتے ہیں۔ معروف اہل قلم جناب نصرت مرزا نے بروقت نشاندہی کی بھی ہے کہ گلگت بلتستان سے گزرنے والے دو دریا کالا پانی اور چھوٹا پانی پر فوری طور پر ڈیم بنا کر ان کا رخ اپنی طرف موڑا جاسکتا ہے اور بھارت جانے والا پانی اپنے استعمال میں لایا جاسکتاہے۔ ڈیم بننے سے یقینا پانی ذخیرہ ہوسکے گا، بارش کا پانی اور سیلابوں کی وجہ سے ضائع ہونے والا پانی محفوظ کیا جاسکے گا وہیں سستی بجلی پیدا کی جاسکے گی اور ڈیموں کے ذخیرہ شدہ پانی سے زراعت کو بروقت پانی میسر آسکے گا صنعتیں جو پانی کی کمی کا شکار ہو رہی ہیں ان کی کارکردگی بحال ہوسکے گی اور ملک میں روز بروز بڑھتی غربت اور بے روزگاری کا مناسب انتظام کیا جاسکے گا ، اگر ڈیم نہ بنائے گئے تو نہ صرف زراعت کو نقصان ہوگا بلکہ صنعتی نقصان کے سبب بے روزگاری اور غربت کے ساتھ ساتھ مہنگائی میں اضافہ ہوجائے گا اگر واقعی حکمرانوں نے عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے جلد از جلد ڈیموں کی تعمیر شروع کردی تو بھارت اور اس کے حواریوں کے مذموم عزائم ناکام ہوسکتے ہیں اور ملک میں حقیقی اقتصادی معاشی ترقی کا آغاز ہوسکتا ہے زراعت و صنعت کا اگر رک جانے والا پہیہ ایک بار پھر اپنی رفتار سے چل پڑے تو ملک سے نہ صرف بے روزگاری، غربت، مہنگائی اور بیرونی قرضوں سے نجات مل سکتی ہے امریکہ اپنی منصوبہ بندی سے پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں پر قرضے دلوا کر اپنا غلام بنائے رکھنا چاہتا ہے کیونکہ اب تک یہی ہوتا آیا ہے کہ امریکہ ہماری پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی کو شش کرتا رہا ہے۔ ہمارےسیاستدانوں کو اس کابلکل احساس نہیں ہےوہ ملک و قوم کے مفادات کے بدلے ذاتی مفادات کی دوڑ میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہتے ہیں اہل سیاست کو سمجھنا ہوگا کہ اگر وطن عزیز ہے تو وہ سیاست دان رہیں گے اسی کھینچاتانی میں ملک کا ایک بڑا حصہ ہم کھو چکے ہیں دشمن باقی ماندہ ملک کا بھی شیرازہ بکھیرنے کے در پے ہے خود ہمارے اہل سیاست اپنے مفادات کے حصول کے لئےہر وہ کام کر گزرتے ہیں جس سے ملک و قوم کا نقصان ہو رہا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ستر برس گزرنے کے باوجود ملک ترقی نہیں کر رہا۔ اب صرف بھارت ہی نہیں بلکہ اس کی سرپرستی اور امداد امریکہ، اسرائیل اور افغانستان کے طالبان کر رہے ہیں پاکستان چاروں اطراف سے دشمنوں کے نرغے میں ہے لیکن ہمارے اہل سیاست مسند اقتدار حاصل کرنے کے لئے ہر طرح ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں یہ وطن عزیز میں نئے انتخابات کا مہینہ ہے ہر طرف اہل سیاست نے میدان سجا رکھا ہے ، ہر کوئی کسی اخلاقی اقدار، عزت نفس کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی ڈفلی بجانے میں مصروف ہے کسی کو وطن عزیز کے وقار و عزت کی پروا نہیں تمام جماعتیں ایک دوسرے کی عیب جوئی میں مصروف ہیں، انتخابات کی دوڑ میں بعض سیا ستداں ایک دوسرے پر گند اچھال رہا ہے ایسے لوگ اگر کامیاب بھی ہوگئے تو ان سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ وطن عزیز کے سب سے اہم مسئلے پانی اور ذخیرہ آب کی تعمیر کے بارے میں کچھ کرسکیں گے، یہ بھی اپنے پیشرئوں کی طرح اس مسئلےکو کوئی اہمیت نہیں دیں گے اللہ ہماری ہمارے وطن عزیز کی حفاظت فرمائے اور نیک و صالح دیانت دار افراد کو منتخب کرنے کی توفیق عطا کرے، آمین۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین