• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دماغی صحت کا رکھیں خیال زندگی کزاریں باکمال

ہم جب کسی سوچ میں گم ہوتے ہیں اور کوئی ہم سے بات کرنا چاہتاہے تو ہمارے منہ سے یہی جملہ نکلتاہے، ’’ ابھی بات کرنے کا موڈ نہیں ہے‘‘ یا پھربالمقابل کوئی چھوٹا ہو توہم اسےڈانٹ دیتے ہیں یا اول فول بک دیتے ہیں۔ بعد میں ہمیں خیال آتا ہے تو ہم یہی کہتے ہیںکہ سوری یار بس دماغ خراب ہوگیا تھا۔ اس کےعلاوہ دماغ کام نہیں کررہا، مینٹل بلاک آگیا ہے ، وغیرہ جیسے جملے ہم اکثر کہتے رہتے ہیں اور ہمارے ذہن میں ہی نہیں آتا کہ ہمارا دماغ ایسی حرکتیں کیوں کررہاہے۔ ہم اپنے جسم کے دیگر اعضاء کے بارے میں پریشا ن رہتے ہیں اورصحتمند رہنے کے لیےسدباب بھی کرتے رہتےہیں لیکن دماغ کی خرابی کیلئے دماغ لڑانے پر تیار نہیں ہوتے ۔ ہماری دماغی صحت ہمارے لیے کتنی اہم ہے ، اسی پر آج بات کرتے ہیں۔ سب سے پہلے اس سوال پر روشنی ڈالتے ہیں کہ

دماغ کیسے کام کرتاہے ؟

ہمارا دماغ ایک کمپیوٹر کی مانندہے جو موجود معلومات کی حدود میں رہ کرکام کرتا ہے۔ جب بھی انسان کسی نئے خیال یا کسی نامعلوم موضوع کا سامنا کرتا ہے تو یہ اطلاع اسی طرح ہمارے ذہنی عمل میں شامل ہوجاتی ہے۔ انسانی دماغ اس نامعلوم چیز کی معلومات اکھٹی کرلیتاہے اور اس کے بعد اسی خاکے کے اندر مطابقت رکھتے ہوئے تحلیل و تجزیہ کرکے آخرکار اسے قبول یا رد کردیتا ہے۔ عام اصطلاح میں اِسے غوروفکر کہتے ہیں۔ اْس کا رد، یا قبول کرنا اْن چیزوں کی بنیاد پر ہے جو ابھی تک اْس نے جمع اور حاصل کی ہیں یا تجربہ کرکے اپنے حافظے میں محفوظ کی ہیں۔ پھر اِسی علم اور دانائی کو اپنا پیمانہ اور معیار قرار دیتے ہوئے وہ اسے مختلف چیزوں کو پرکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

غیر صحتمندانہ عادات واطوار

ہماری بہت سی بگڑی عادات اور ررویے ّ ہیں جن سے چھٹکارہ پانا از حد ضروری ہوتا ہے۔ روزمرہ زندگی میں کم گفتگو کرنا، اپنے جذبات کو شیئر نہ کرنا، آلودہ فضا میں رہنا، موٹاپا اور نیند کی کمی وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو ہماری دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ماہرین کے مطابق ان کے علاوہ بھی کئی ایسی عادات ہیں جو ہماری دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں، وہ کیا ہیں اور ان سے کیسے چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے آئیےجانتے ہیں ۔

نیند کی کمی

درمیانی عمر میں نیند کی کمی سے دماغی ساخت میں تبدیلیاں آتی ہیں جو کہ طویل المعیاد یاداشت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں، جبکہ نوجوانوں میں بھی نیند کی کمی سے یاداشت خراب ہونے کے مسائل دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ زیادہ سوتے ہیں ان کی یاداشت بھی اچھی ہوتی ہے جبکہ ناقص نیند کے نتیجے میں دماغ میں ایسے جز کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے جو الزائمر کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

ذہنی تنائو

مستقل ذہنی تنائو میں مبتلا رہناآپ کو زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی طرف متوجہ ہونے سے روکتا ہے۔ایک طویل عرصے تک ذہنی تناؤ کا شکار رہنے والا شخص بلا آخر اس کا عادی بن جاتا ہے اور اپنے آپ کو زندگی کی خوشیوں سے محروم کر لیتا ہے۔

ہر وقت اسمارٹ فون کا استعمال

ہر دوسرے منٹ اپنے اسمارٹ فون میں مختلف ایپس اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ جیسے فیس بک، ٹوئٹر پر وقت گزارنا، یا مختلف گیمز کھیلنا آپ کے کسی کام کا نہیں ہے۔یہ آپ کی دماغی صلاحیت کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے۔

ہر چیز کی تصویر کھینچنا

معروف اداکار جارج کلونی نے ایک بار کہا تھا، ’ہم آج ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں لوگوں کو زندگی جینے سے زیادہ اسے ریکارڈ کرنے سے دلچسپی ہے‘۔ہم اپنی زندگی کے بے شمار خوبصورت لمحوں اور اپنے درمیان کیمرے کا لینس حائل کردیتے ہیں اور اس لمحے کی خوبصورتی اور خوشی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ماہرین نے باقاعدہ تحقیق سےیہ ثابت کیا ہےکہ جو افراد دوستوں یا خاندان کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے موبائل کو دور رکھتے ہیں اور تصاویر لینے سے پرہیز کرتے ہیں وہ ایک خوش باش زندگی گزارتے ہیں۔

تنقید برائے تنقید

اسکول میں کوئی نہ کوئی بچہ اپنی شکل و صورت یا وزن کے باعث دیگر بچوں کے مذاق کا نشانہ بنتا ہےنتیجتاً اس بچے کی نفسیات میں تبدیلی آتی ہے اور وہ احساس کمتری سمیت مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ اسکول تک ختم نہیں ہوجاتا بلکہ کام کرنے کی جگہوں پر بھی یہ لوگ تنقید و مذاق کا نشانہ بنتے ہیں اور اپنی تمام تر سنجیدگی اور ذہنی وسعت کے باوجود یہ ان پر منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔

رشتوں کی مجبوریا ں

ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ لوگوں کی زندگیوں میں ناکامی کی بڑی وجہ ان کا ایسے رشتوں میں بندھے رہنا ہے جنہیں وہ پسند نہیں کرتے۔ صرف معاشرے یا خاندان کے خوف سے وہ ان رشتوں کو نبھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ایسے دوست احباب، شریک حیات یا اہل خانہ جو منفی سوچ کو فروغ دیں، آپ کی کامیابی پر حسد کریں، ناکامی پر خوش ہوں اور ہر وقت تنقید کا نشانہ بناتے رہیں، ایسے رشتوں سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔

تنہائی بھی ضروری ہے

محبت کرنے والے دوست احباب اور اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنا اچھی عادت ہے لیکن ہفتے میں کچھ وقت تنہائی میں بھی گزارنا چاہیئے۔

تنہائی اور خاموشی آپ کے دماغی خلیات کو پرسکون کرتی ہے اور یہ ایک بار پھر نئی توانائی حاصل کر کے پہلے سے زیادہ فعال ہوجاتے ہیں۔

اٹھنے بیٹھنے ، چلنے پھرنے کا انداز

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے چلنے پھرنے اور اٹھنے بیٹھنے کا انداز ہمارے موڈ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ماہرین سماجیات کے مطابق جو افراد چلتے ہوئے کاندھوں کو جھکا لیتے ہیں یابیٹھتے ہوئے ایسا کرتےہیں، وہ عموماً منفی چیزوں کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں۔

ورزش نہ کرنا

یونیورسٹی کالج لندن میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق جسمانی طور پر غیر فعال ہونا ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کے خطرات بڑھا دیتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ افراد جو ہفتے میں 3 دن ورزش کرتے ہیں وہ ورزش نہ کرنے والوں کی نسبت ذہنی تنائوکا کم شکار ہوتے ہیں۔

دماغی صحت کیلئے مشورے

لیٹ کر لکھنے اور پڑھنے سے دماغ پر زور پڑتا ہے،دماغ کی کمزوری ہونے لگتی ہے اور وہ اپنا کام اس تیزی سے نہیں کرتا جس طرح اسے کرنا چاہیے۔

دماغی کام ہمیشہ کھلی روشن اور ہوا دار جگہ پر بیٹھ کر کرنا چاہیے۔

دماغی کام کرنے کے بعد چند منٹ متواتر لمبے سانس لینے چاہئیں تاکہ زیادہ مقدار میں آکسیجن اندر جانےسے خون صاف ہو جائے۔

سبزے پر نگاہ ڈالنے سے دماغ کو تازگی حاصل ہوتی ہے، اس لیے دماغی کام کرنے والوں کے لیے باغ کی سیر نہایت مفید ہے۔

کچھ دیر تک دماغی کام کرنے کے بعد آسمان کی طرف دیکھنے سے سر کی طرف دوران خون کم ہوتا ہے اور آسمان کی نیلی اور پاکیزہ روشنی دماغ کو تقویت پہنچاتی ہے۔

دماغی تھکان کی صورت میںدودھ کا ایک گلاس ایک ایک گھونٹ کر کے پینے سے سر کی جانب خون کا دوران کم ہو جاتا ہے اور دماغ کو فرحت حاصل ہوتی ہے۔

دماغی محنت سے تھکنے کے بعد کھلی ہوا میں سرکو دونوں ہاتھوں سے آہستہ آہستہ ملنا تھکان میں کم کرتا ہے۔

تازہ ترین