• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاعر مشرق نے کیا خوب کہا تھا کہ ،تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے ،ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔
اپنی غفلت،کوتاہی اور کوتاہ بینی کا خمیازہ تو ادا کرنا ہی پڑتا ہے اور جب بندہ ماضی سے بھی سبق سیکھنے کیلئے تیار نہ ہو تو پھر کوئی نہ کوئی قیمت تو چکانا ہی پڑتی ہے۔ یہ دو چار یا چھ مہینوں کا معاملہ نہیں بلکہ سات سال کا عرصہ ہے جو محض نیتوں کے فتورکی نذر کر دیا گیا۔خوش گمانی یہی رہی کہ دوسرے ہی زد پہ ہیں لیکن یہ بھلا دیا گیا کہ ہوا کسی کی نہیں حالانکہ دیار غیر میں میثاق جمہوریت کی دستاویز پر دستخط کرتے ہوئے عہدو پیماں کئے گئے تھے کہ آئندہ احتساب کے نام پر انتقام کی سیاست ہمیشہ کیلئے دفن کر دی جائے گی۔ یہ بھی طے پایا تھا کہ شفاف احتساب کیلئے ایک خود مختار ادارہ تشکیل دیا جائیگا لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ اور موجودہ حکومت کے ڈھائی سالہ دور اقتدار میں ترجیحات وہ رہیں کہ ان میں ایسے کسی ادارے کے قیام کی گنجائش نہ نکالی جا سکی اوربالآخر نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ وزیر اعظم کو تلخ لہجے میں نیب (قومی احتساب بیورو) کے بارے میں وہ سب کہنا پڑا جو ان کے منصب کے شایان شان نہیں تھا۔ یہ وہی نیب ہے جس کے سربراہ کی تعیناتی کے دوران قحط الرجال کی صورتحال تھی۔وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے درمیان پانچ ملاقاتوں میں بھی نیب کی سربراہی کیلئے کوئی ڈھنگ کا بندہ نہیں مل پایا تھا۔ خدا خدا کر کے موجودہ چیئرمین کے نام پر اتفاق ہوا تھا جو اب حکومت کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا جبکہ اپوزیشن لیڈر فرماتے ہیں کہ وہ کیسے اس چیئرمین کو برا کہیں جس کا نام انہوں نے وزیر اعظم سے مشاورت کے بعد تجویز کیا تھا۔ اب تماشا دیکھنے کی باری چونکہ پیپلز پارٹی کی ہے ا س لئے شاہ صاحب بھی مزے لے رہے ہیں تاہم اب ایک بار پھر میاں صاحب کو ان کی اور پارلیمنٹ کی ضرورت پڑ گئی ہے اس لئے خاکسار کی اطلاعات کے مطابق رواں اجلاس کے دوران ہی قائد ایوان تقریبا تین ماہ بعد قومی اسمبلی میں جلوہ افروز ہوں گے۔ چاہئے تو یہی تھا کہ وفاقی حکومت کو اگر قومی احتساب بیورو سے کچھ شکایات اور تحفظات تھے تو ان کا اظہار حقیقی فورم پر یعنی پارلیمنٹ میں کیا جاتا کیوں کہ ایک آئینی ادارےکو اس طرح سر بازارتنبیہ کو کسی حلقے نے بھی پسندیدگی کی سند عطا نہیں کی۔ نیب پر سخت برہمی کے اظہار کے دوران وزیر اعظم نواز شریف کا یہ جملہ کہ ’’حکومتیں عوام کے ووٹوں سے بنتی ہیں لیکن انہیں توڑتا کوئی اور ہے،اب یہ سلسلہ بند ہو جانا چاہئے‘‘بہت کچھ آشکار کر رہا ہے۔ وزیر اعظم صاحب شاید بھولے نہیں ہیں کہ دوسری بار ان کی حکومت کی برطرفی کی توثیق کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے جو فیصلہ سنایا تھا اس میں دیگر ناکامیوں کے ساتھ یہ جواز بھی شامل کیا گیا تھا کہ نواز حکومت کا احتساب کا عمل شفاف نہیں تھا بلکہ اسے سیاسی حریفوں کے خلاف انتقام کیلئے استعمال کیا گیا اور یہ کرتے ہوئے آئینی ،قانونی اور اخلاقی تقاضوں کو بھی نظر انداز کر دیا گیا تھا۔عدالت عظمی نے یہ کلمات اسی احتساب سیل کے بارے میں تحریر کئے تھے جس کے سربراہ اس وقت کے سینیٹر سیف الرحمان تھے۔ ان کی ہدایات پر پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف بنائے گئے مقدمات نے پاکستان میں انتقامی سیاست کو اس بام عروج تک پہنچایا جس کا خمیازہ دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت کو ملک بدری کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ تاریخ کے جبر نے اسی سیف الرحمان کو ہتھکڑی میں جکڑے آصف زرداری سے معذرت کرتے بھی دیکھا لیکن اب وہ پھر اپنے احتساب سیل کی ’’شفافیت‘‘ کا اصرار کر کے نہ جانے کس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب نے نیب کے متعلق جن خدشات کا ذکر اب کیا ہے یہ اچانک پیدا نہیں ہوئے بلکہ قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ برس جولائی میں نیب نے عدالت عظمی کی ہدایات پرمالی بے ضابطگیوں،اراضی کی لین دین میں خورد برد، اختیارات کے ناجائز استعمال اور بد عنوانی سے متعلق 150 میگا کرپشن اسکینڈلز کی فہرست جمع کرائی تھی تو ملک میں ایک بھونچال آگیا تھا کیوں کہ اس فہرست میں حکمران خاندان،ایک وفاقی وزیر اورسابق وزرائے اعظم سمیت اہم شخصیات کے نام شامل تھے۔ ان میں بیشتر مقدمات وہ تھے جن کی دستاویزات کی روشنائی بھی مہ و سال کی گردش میں دھندلا چکی تھی۔ اگرچہ یہ فہرست قومی احتساب بیورو نے ازخود جمع نہیں کرائی تھی بلکہ عدالت عظمی کے استفسار پر پیش کی تھی لیکن حکومت نیب پر اس قدر سیخ پا ہوئی تھی کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے خصوصی نیوز کانفرنس میں دستاویزات کے ذریعے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔وفاقی حکومت کے ترجمان سینیٹر پرویز رشید تو فہرست میں وزیر اعظم کا نام دیکھ کر اتنے جذباتی ہو گئے تھے کہ انہوں نے نیب کا احتساب کرنے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ گویا درپردہ معاملات گزشتہ کچھ مہینوں سے جاری تھے اور جب وزیر اعظم کو نیب کے سربراہ کی کچھ’’ اہم ‘‘ ملاقاتوں کی اطلاعات ملیں تو ان کا ماتھا ٹھنکا تھا لیکن تپش تب محسوس ہوئی جب شعلے اپنے چلمن کی طرف بڑھتے دکھائی دئیے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وزیر اعظم صاحب نے نیب میں پائی جانے والی جن کمزوریوں کی نشان دہی کی ان کا اعتراف خود نیب نے ان کی طرف سے’’سرزنش‘‘ کے بعد جاری کئے گئے بیان میں خود بھی کیا ہے لیکن اسی بیان میں نیب نے یہ بھی واضح کر دیا کہ یہ قباحتیں اسے ورثے میں ملی ہیں۔ انہی قباحتوں کی وجہ سے خیبر پختونخوا نے علیحدہ صوبائی احتساب کمیشن بنالیا جبکہ پیپلز پارٹی ایسا کرنے کے عمل سے گزر رہی ہے۔ میثاق جمہوریت ہو،مسلم لیگ ن کا منشوریا پھر بطور اپوزیشن رہنما میاں نواز شریف کا دس نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا آزاد احتساب کمیشن کا قیام ان کی ترجیحات میں شامل رہا کیوں کہ پرویز مشرف دور میں وہ نہ صرف احتساب بیورو کو بھگت چکے تھے بلکہ ق لیگ اور پیٹریاٹ کی صورت میں وہ اس کا نتیجہ بھی دیکھ چکے تھے۔ اسی ترجیح کے تحت پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ن لیگ زور و شور سے غیر جانب دار احتساب کمیشن کا مطالبہ کرتی رہی لیکن تب آصف زرداری اس ادارے سے محض کٹھ پتلی کا کام لینا چاہتے تھے جنہوں نے نیب کے اختیارات کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے وزارت قانون و انصاف کو منتقل کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دی ہولڈرز آف پبلک آفسز اکائونٹبیلٹی بل 2009ء، نیشنل اکائونٹبیلٹی کمیشن بل 2010 ءاور پھرنیشنل اکائونٹبیلٹی کمیشن بل 2012ءپر تقریبا ساڑھے تین سال تک قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں سینگ پھنسائے بیٹھے رہے تاہم اتفاق رائے نہ ہو سکا،تب مسلم لیگ ن مجوزہ احتساب کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کو تعینات کرنا چاہتی تھی۔ اب جو ن لیگ برسوں پرانے مقدمات کی تفتیش پر نالاں ہو رہی ہے تب وہ مجوزہ بل میں کسی بھی مقدمے کی تفتیش ٹائم فریم کی قید سے آزاد کسی بھی دور سے کرانے کا مطالبہ کر رہی تھی۔اختلاف رائے کے دوران پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہو گئی اور برسر اقتدار آنے پر آزاد احتساب کمیشن کے قیام کا موقع مسلم لیگ ن کو مل گیا لیکن ستم ظریفی کہ نصف مدت گزر جانے کے باوجود احتساب آرڈیننس میں ترمیم کا بل ایک بار بھی پیش نہیں کیا جا سکا۔ وزیر اعظم کو یاد رکھنا چاہئے کہ جس ادارے کے قیام کا مقصد ہی برسوں مقدمات قائم رکھ کر سیاست دانوں کو بلیک مل کرنا ، دوسروں کا بازو مروڑ کر اپنی مرضی کی راہ پر چلانا اورپلی بارگین کے ذریعے بدعنوانی کو تحفظ فراہم کرنا ہو اس سے کیا گلہ کرنا۔ جناب عالی نوبت یہاں تک پہنچانے کے ذمہ دار تو آپ سب ہیں جو سات سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ایک آمر کی طرف سے قائم کئے گئے ادارے کو غیر جانب دار اور حقیقی معنوں میں خود مختار بنانے کیلئے قانون سازی نہیں کر سکے۔ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ جانے کے بعد وفاقی حکومت شفاف احتساب کو یقینی بنانے کیلئے آئینی ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کی طرز پر بورڈ بنانے کی تیاری کر رہی ہے جس میں ہر صوبے سے ایک رکن لینے کی تجویز ہے جبکہ پلی بارگین کی سہولت کو سرے سے ختم کیا جا رہا ہے تاہم مجوزہ آئینی ترامیم پر دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ابھی حکومت کو بڑے پاپڑ بیلنا پڑیں گے۔
تازہ ترین