• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی اقتصادی آزادی

اکنامک فریڈم آف دی ورلڈ2017ءکی سالانہ رپورٹ میں اقتصادی آزادی کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے 159 ممالک میں سے 127ویں نمبرپر کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کو کینیڈا کے فریزر انسٹیٹیوٹ کے تعاون سےپالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف مارکیٹ اکانامی (PRIME) نے جاری کیا ہے۔ واضح رہے کہ پچھلے برس اس درجہ بندی میں پاکستان 137 ویں نمبرپر تھا۔ نئے مالیاتی سال کے آغاز میں ہی یہ خوش خبری پاکستان کے لئے اس لحاظ سے قابل اطمینان ہے کہ پاکستان کی اقتصادی آزادی کے حوالے سے عالمی رینکنگ میں بہتری آئی ہے اور گزشتہ برس کے مقابلے میں 10درجے بہتری نے اس بات کا اطمینان دلایا ہے کہ پاکستان دنیا کے آزاد معاشی ممالک میں آہستہ آہستہ اپنی جگہ بناتا جارہا ہے۔

اس فہرست میں پہلی اور دوسری ٹاپ پوزیشن پر بالترتیب ہانگ کانگ اور سنگاپور ہیں جبکہ نیوزی لینڈ، سوئٹزر لینڈ، آئرلینڈ، برطانیہ، ماریشس، جارجیا، آسڑیلیا اور اسٹونیا کو ٹاپ 10 میں شامل کیا گیا ہے۔

فریڈ مِک ماہون، جو فریز رانسٹیٹیوٹ میں مائیکل واکرچیئرآف اکنامک فریڈمریسرچ ہیں، کا کہنا ہے کہ ’’یہ وہ ممالک ہیں جہاں لوگ اپنے مواقع اور اپنی پسند کے مطابق کاروبار کرتے ہوئے زیادہ خوشحال، خوشگوار اور صحت مند زندگیاں گزار سکتے ہیں۔‘‘

2017ء کی رپورٹ فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی کے جیمز گیوارٹنی ، سدرن میتھو ڈِسٹ یونیورسٹی کے رابرٹ اے لاسن اورویسٹ ورجینیا یونیورسٹی کے جوشواپال نے تیار کی۔ ان معروف یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے ان ماہرین معاشیات کی عالمی اقتصادی نظام و امور پر گہری نظر ہے۔

پاکستان کو درپیش مختلف مسائل کے باوجود اقتصادی طور پر آزاد ممالک کی درجہ بندی میں بہتری یوں قابل قدر ہے کہ پاکستان کا معاشی پہیہ تمام تر دشواریوں کے باوجود گھوم رہا ہے، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا جائے تو دیرپانتائج سامنے آسکتے ہیں۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ضمن میں سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارےدہشت گردی کا مکمل قلع قمع کرنے اور امن و امان کی صورتحال بحال رکھنے میں اپنا تعاون جاری رکھیں۔ اقتصادی آزادی کی حالیہ رپورٹ میں دو اہم نکات بیان کئے گئے ہیں۔ ایک تو مستحکم آمدنی 6.21فیصدسے بڑھ کر6.38 فیصد ہوگئی ہے، جبکہ قرضے، افرادی قوت اور کاروبار کرنے کے لیے قانون سازی میں بہتری آئی ہے ،جس کا تناسب 6.31 فیصد رہااور اس سےقبل یہ 6.19 فیصد تھا۔ تاہم بین الاقوامی تجارت میں کمی واقع ہونا بلاشبہ آزاد تجارت کی اس دنیا میں ہمارے لئے چیلنج ہے۔ چیف آپریٹنگ آفیسر پرائم عائشہ بلال کا کہنا ہے کہ ہر چند اکنامک فریڈم آف دی ورلڈ انڈیکس 2017ء میں مجموعی طور پر پاکستان کی بہتری حوصلہ افزا ہے تاہم دنیا کے آزاد ممالک اور ایشیا میں اپنی جگہ اور اہمیت کو قائم و دائم رکھنے کے لئے ابھی بہت گنجائش موجود ہے۔ جب تک ہم موثر ٹیکس اصلاحات، مالیاتی نظم و ضبط، کنٹریکٹ کےنفاذ میں بہتری اور آزاد تجارت جیسے اقدام نہیں اٹھاتے تب تک ہم ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل نہیں ہوسکتے۔ واضح رہے کہ بھارت اس فہرست میں 95 ویں نمبر پر ہے جس سے موازنہ اس لئے نہیں کرسکتے کہ وہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ہم سے کہیں بڑا ہے۔ تاہم ہانگ کانگ اور سنگاپور سے اپناموازنہ کریں تو بلاشبہ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان ممالک نے اپنے ٹیکس نظام اور مالیاتی انصرام کو بہتر بناکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان خوبصورت ممالک میں ہوتا ہے جسے نہ صرف فطرت نے چاروں موسموں سے نوازا ہے بلکہ سرسبز اور پہاڑی زمینوں سے لیکر ہر قسم کی اراضی اور حجر و شجر ہمارے پاس موجود ہیں، جن میں معدنی ذخائر کی صورت میں بیش بہا خزانہ موجود ہے۔ اتنا ہی نہیں ہم انسانی وسائل کے لحاظ سے بھی نوجوانوں کی وسیع دولت سے مالا مال ہیں جسے تعلیم یافتہ اور ہنرمند بناکر ہم اپنے معاشرے کو صارفیت کے بجائے ٹیکنالوجی کی مینوفیکچرنگ کی جانب راغب کرسکتے ہیں۔ پاکستان کو یہ فخر حاصل ہے کہ اسے کراچی، بن قاسم اور گوادر جیسی تین بندرگاہوں کی نعمت حاصل ہے جنہیں جدید خطوط میں ڈھال کر ہم آزاد اور بین الاقوامی تجارت کو فروغ دے سکتے ہیں۔

پاکستان کی اقتصادی آزادی کا مکمل ہدف اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک پاکستان کے عوام کو معیاری تعلیم اور جدیدٹیکنالوجی کی جانب مائل نہیں کیا جاتا۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں خودکفیل ہونے کے لئے ہمارے پاس چین جیسا عظیم دوست ہے، جس سے ہم ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت کو سنجیدگی سے پیش رفت کرنی ہوگی۔

معیار و کارکردگی پر مبنی معیشت

دنیا کی کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک وہ اپنی معیشت کو معیار اور کارکردگی کی بنیاد پر استوار نہیں کرلیتی۔ معاشی ترقی اور انسانی ترقی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کاروبار میں آپ جتنی بھی سہولتیں دیں گے اتنا ہی اس کی بنیادیں پختہ ہوں گی۔ اقتصادی آزادی کے حوالے سے یہ رپورٹ بھی معیار اور کارکردگی پر مبنی معیشت کو فزوں تر گردانتی ہے۔ اس رپورٹ کے اعدادوشمار 1980ء سے 2015ء کے عرصے پر محیط ہیں،جس میں کئی دلچسپ حقائق شامل ہیں مثلاً بیوروکریسی کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ تجارتی قانون سازی میں حائل رکاوٹوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ کاروبار شروع کرنے کی لاگت بھی بڑھ گئی ہے، ساتھ ہی ٹیکسوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں دیکھا جائے تو افرادی قوت میں جہاں اضافہ ہوا ہے وہیں محنت کشوں کے حقوق میں کمی واقع ہوئی ہے ۔بہت افسوس کا مقام ہے کہ ہماری معیشت اشرافیہ دوست رہی ہے جس میں بڑے صنعت کاروں کو ہر قسم کی معاشی سہولتیں حاصل ہیں لیکن چھوٹی، درمیانی صنعتوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہےجبکہ گھریلو صنعتیں نظرانداز ہوکر رہ گئی ہیں۔ ہمارے کئی فن اور ہنر معدومیت کا شکار ہوگئے ہیں، جن میں مغل ادوار میں بامِ عروج پر آنے والی حجری اور سنگی تعمیرات شامل ہیں جسے ہم کب کا فراموش کرچکے۔اب تو تاریخ کے اوراق میں ہمیں ملتا ہے:’’راجستھان کے سنگلاخ بیابانوں میںکبھی سلاوٹ برادری ہوا کرتی تھی،جن کے ماہر کاریگروں نےپتھر کی عمارات کے خد و خال واضح کیے۔‘‘ اب تو وہ بھی پتھر آنکھوں سے اپنے عظمتِ رفتہ کے مٹتے نشانوں کو دیکھ کر سرد آہ بھرتے ہیں۔ یہی حال برتن سازی و کوزہ گری کی صنعت کا ہے،کانچ کی چوڑیاں بھی گاہکوں کی منتظر ہوتی ہیں کیونکہ اب عورتوں میں پلاسٹک اورتانبے کی چوڑیوں پہننےکا رواج عام ہوتا جارہا ہے۔ان تمام گھریلو و مقامی صنعتوں کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔

ہماری مقامی اور گھریلو صنعتیں جس طرح نظرانداز ہورہی ہیں اس کے اشارے اقتصادی آزادی کی عالمی رپورٹ میں بھی ملتے ہیں۔ پاکستان ہنرمندوں کی سرزمین کہلاتا ہے جہاں کھڈی، قالین سازی، رلی، اجرک، چارپائیاں، کرسیاں، دروازے و دیگر فرنیچر، کوزہ گری، ریشم سازی اور کپڑا سازی سمیت کئی مقامی ہنراب ماضی کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں ہماری دستکاری اورکاشی گری کے برتنوں کی بہت مانگ ہے۔پاکستان کو اس ضمن میں ہینڈی کرافٹ کے شعبے کوعالمی سطح پر مزید بہترانداز میں متعارف کرانا ہوگا۔

تازہ ترین