• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کثرت تعبیر اور خواب
فارسی کا مقولہ ہے:’’شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیر ہا‘‘ (میرا خواب کثرت تعبیر سے بکھر گیا) ہمارے ہاں جب بھی کوئی بڑی خبر یا بڑا فیصلہ آتا ہے اس پر میڈیا، تبصروں، تجزیوں اور آراء کے ڈھیر لگا دیتا ہے جن میں قوم اصل مطلب جو صرف سن کر بھی سمجھ آ جاتا ہے، گم ہو کر رہ جاتا ہے، یہاں تک کہ اب تو اشتہار نے بھی بریکنگ نیوز کا درجہ اختیار کر لیا ہے، اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے، ووٹ سوچنے، ووٹ سمجھنے کی تربیت دینا چاہئے کیونکہ ووٹ کی اہمیت جس قدر ووٹ مانگنے والے کو معلوم ہے دینے والے کو معلوم نہیں پھر یہ کہ تمام چینلز نقل روایت تک محدود رہیں، روایت کو نہ تو کوئی رخ دیں اور نہ ہی کوئی ایسی تشریح کریں جسے سن کر کہنے والے کو محسوس ہو کہ اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہ تھا، فیصلوں پر بحث ہو مگر اپنی اپنی پسند کے شار حسین سے اس کی تشریح نہ کرائی جائے، اونٹ کو اپنی کروٹ بیٹھنے دیا جائے، اونٹ کا مالک یا سوار اسے اپنے مطابق کروٹ اختیار کرنے پر مجبور نہ کرے، غیر جانبداری بہت بڑا سچ ہوتا ہے اور سر چڑھ کے بولتا ہے، آج صورتحال یہ ہے کہ ناظرین، چینل چینل بھٹکتے پھرتے ہیں انہیں کہیں تسلی نہیں ہوتی اور بار بار بدلنے سے اس کی سوچ کا چینل پاگل ہو جاتا ہے، ایک چینل پر سُر سنگیت کا پروگرام دیکھ کر کچھ دیر سستانے کو جی چاہا تو وہاں ایک خوبرو گانے والی سے اینکر صاحب بار بار یہ پوچھ رہے ہیں آپ نے کبھی پیار کیا ہے، حالانکہ اسے گانے کے لئے بلایا گیا تھا، سنا ہے کہ آپ کو سب حسین مانتے ہیں، اگر گانے کا تعلق حسن سے ہوتا تو لتا کو بھلا کون سنتا، اب کہئے یہ حالات نشریات تو ناظرین کی ذہنی کیفیت کا حشر نشر کر دیں گی، لوگوں کو یہ تاثر نہیں ملنا چاہئے کہ جانبدار نے اپنا نام غیر جانبدار رکھ لیا ہے۔
٭٭٭٭
کوئی کرپشن سی کرپشن ہے
کوئی کرپشن سی کرپشن ہے
دیکھ کے امیر کو غریب یاد آیا
کرپشن وہ سوچ ہے جو کرپٹ پیدا کرتا ہے، ہم نے ہمیشہ کرپٹ افراد پر ہاتھ ڈال کر یہ سمجھ لیا کہ شاید اس طرح کرپشن ختم ہو گی یا دل کے خوش رکھنے کو یہ سمجھ لیا کہ کرپشن ختم ہو گئی، پھر یہ بھی بہت دور کا واہمہ ہے کہ کرپشن مالی خورد برد کا نام ہے، برائی کا درخت چھانٹنے سے وہ اور ہرا بھرا اور دیو قامت بنتا ہے اور اس کو جڑ سے اکھیڑنا ہمارا دستور ہی نہیں، کیونکہ اس میں بہت زور مارنا پڑتا ہے، کوئی نیکی کو بدی کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا ہے ہم اس کے ہو لئے، کسی نے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر کافری کی راہ پر لگایا اس کے پیچھے چل پڑے، جس نے کچھ اچھا کرنا ہوتا ہے وہ دعویٰ نہیں کرتا کر کے دکھاتا ہے، اور آغاز بھی اپنی ذات سے کرتا ہے، جو لوگ فکر رسا کو ظاہری حیثیات میں تلاش کرتے ہیں وہ دام ہمرنگ زمین کا دانہ چگنے میں زندگی گزار دیتے ہیں اور بالآخر موت ہی اسے اس خوشرنگ اسیری سے نجات دلاتی ہے، اور یہ نجات بھی زندگی کے غلط استعمال کے باعث موجب سزا بن جاتی ہے، کرپشن پہلے ہم اپنی ذات سے کرتے ہیں، کیونکہ ذات کا قتل کئے بغیر ہم کرپشن سے کسی بھی قسم کی تباہی نہیں لا سکتے، کرپٹ تباہ حال ہوتا ہے مگر ہم اسے خوشحال سمجھ کر اسے رول ماڈل بناتے ہیں کائنات میں ہر نظر آنے والی چیز ہمیں ایسی صلاحیت پیدا کرنے کا اشارہ ہے تاکہ ہم نظر نہ آنے والی حقیقتوں کو دیکھ سکیں اور اس طرح شہود کے ذریعے اس غیب کا نظارہ کر سکیں جو غیب نہیں فقط ہماری دیکھنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث ہمیں نظر نہیں آتا کیا خبر احساس ہی چشم بینا ہو۔
٭٭٭٭
ذرا دیکھ کے چلو
دیکھ کے چلنے کا مطلب یہ ہے کہ انتخابات کے بعد پورے پانچ سال کو دیکھ کے پولنگ اسٹیشن چلو، پورا نیک تو ملنے سے رہا البتہ غور و فکر کرنے سے کم بُرے کا سراغ مل جاتا ہے بس اسی ہی کو رہنما بنا لو مگر تحفظات کے ساتھ، اپنی جیب اور دل پر سے ہاتھ ہرگز نہ ہٹانا، کہ جاگتے میں ہی نیند حملہ آور ہوتی ہے، بڑے بڑے اچھے لوگ گزرے ہم نے بہت سا وقت اپنی بھلائی ان کے کمالات گنوانے میں ضائع کر دیا تاریخ کا ایسا مطالعہ بھی صدیوں پیچھے پھینک دیتا ہے، جب ہم نئے پرانے کپڑوں میں تمیز کر لیتے ہیں تو نئے پرانے خیالات میں فرق کو کیوں نہیں جان سکتے؟ اس وقت 3 بڑی سیاسی جماعتیں میدان میں ہیں، ہمیں حساب کتاب بعد میں کر لینا چاہئے تھا تاکہ خیر و شر کو یہ گلہ نہ ہوتا کہ ان کے ووٹ مارے گئے، ویسے ہم یہ بتاتے چلیں کہ خیر میں بھی تھوڑی سی شر کی آمیزش ہونا چاہئے تاکہ معلوم ہو سکے کہ شر کسے کہتے ہیں اور خیر کی کیا پہچان ہوتی ہے پرانی کہاوتوں، ٹوٹکوں اور شرارتوں کو اب ترک کر کے آئین نو کو اپنانا چاہئے، یہ بھی دھیان رہے کہ بعض نئے بھی پرانے اور کچھ پرانے بھی نئے ہوتے ہیں، ایک فارمولا یہ بھی ہے کہ یار کو اپنی گلی سے گزار لو، اس کا مزا لے لو اور رنگ بھلا دو، بہرحال بچ بچ کے چلنے اور کچھ اچھا پانے کے لئے ہم نے بالکل نئی راہیں، نئی ترکیبیں بتا دی ہیں، لڑائی اور غصہ دو دشمن بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں ان سے جو بچ گیا اس نے پا لیا، بصورت دیگر بھی بہت کچھ ملتا ہے مگر پچھتائوں کی شکل میں، اب مرضی ہے اس مفت بازار میں سے کچھ بھی اٹھا لو، آنکھیں بھی ہیں مگر اندھی اگر ان کے پیچھے شعور نہ ہو، ہم نے پورا انتخابی ذائچہ کھینچ دیا ہے اب چاہے یہ مانو چاہے وہ مانو۔
٭٭٭٭
پیسہ ہمارا عیش کسی اور کا
....Oبلاول کٹھ پتلیوں کو الیکشن کے دنوں میں جنوبی پنجاب صوبہ یاد آیا۔
کٹھ پتلیاں، کٹھ پتلی تھیٹر کی پیداوار ہوتی ہیں، یہ نہ بھولیں کہ آپ اپنی جگہ ایک نوخیز کٹھ پتلی ہیں، جیسے والد گرامی کہتے ہیں ویسے ہی فر فر اسکرپٹ پڑھتے ہیں۔
....Oعمران خان:نواز شریف منڈیلا نہیں، حساب دیں، کیا صفدر نے کشمیر فتح کر لیا۔
خدا کرے کہ مرکز میں حکومت ملے اور آپ کے بارے میں کمنٹس کئے جا سکیں، ویسے خیبر پختونخوا کا حساب، خٹک صاحب سے پہلے لے لیں جو یہ کہتے ہیں کہ خان صاحب کو کچھ پتا نہیں کے پی کے کا۔
35....O ارب کی منی لانڈرنگ اسکینڈل زرداری، فریال سمیت 13طلب۔
خوشی اس بات کی ہے کہ کرپشن نے ہمارا پیسہ محفوظ کیا اور اب یہ یکمشت ملے گا تو ہم خوشحال ہو جائیں گے۔
....Oبلاول: میرا مقابلہ کسی سیاستدان سے نہیں عوام کی محرومیوں سے ہے۔
محرومیاں انقلاب لاتی ہیں اس لئے ان کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔
....Oفیصل آباد کنٹینر گاڑی کو کچلتا ہوا نہر میں جا گرا۔
صاحبان کنٹینر کے لئے اچھا شگون نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین