این آر او کیس میںپرویز مشرف کی جانب سےسپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیاگیا۔
سپریم کورٹ میں این آر او (قومی مفاہمتی آرڈیننس) سے متعلق درخواست دائر کی گئی تھی جس میں درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ این آر او کی وجہ سے ملک کا اربوں کا نقصان ہوا لہٰذا قانون بنانے والوں سے نقصان کی رقم وصول کی جائے۔
سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہےکہ این آر او سیاسی انتقام کے خاتمے اور انتخابی عمل شفاف بنانے کے لیے جاری کیا، این آر او کے اجراء میں کوئی بدنیتی اور مفاد شامل نہیں تھا۔
جواب میں کہا گیا کہ این آر او آرڈیننس اس وقت کےحالات کومدنظر رکھ کرجاری کیا،اس وقت کیے گئے اقدامات قانون کے مطابق تھے ۔
جواب میں این آر او سے متعلق درخواست خارج کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے این آر او کیس میں آصف زرداری اور پرویز مشرف کے بیرون ملک اثاثوں اور جائیداد کی تفصیلات بھی طلب کررکھی تھیں۔
این آر او کیا ہے؟
نیشنل ری کنسی لیشن آرڈیننس ایک متنازعہ قانون تھا جو پاکستان کے سابق صدر جنرل پرويز مشرف نے 5 اکتوبر 2007 کو جاری کیا۔
اس قانون کے مطابق ایسے تمام سیاستدانوں، سیاسی کارکنوں اور بیوروکرات کو معافی دی گئی ہے جو 1 جنوری 1986 اور 12 اکتوبر 1999 میں لگنے والے دو مارشل لا کے درمیانی دو ر میں فساد، بدبختی، منی لانڈرنگ، قتل اور دہشت گردی کے الزام میں ملوث ہیں۔
پاکستان کی عدلیہ اور حکومت میں قومی مصالحت آرڈیننس المعروف ’این آر او‘ کا تنازعہ 16 دسمبر2009 سے شروع ہوا جب سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو کو حکم دیا کہ صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے خلاف سوئزرلینڈ میں منی لانڈرنگ کا مقدمہ دوبارہ چلایا جائے۔
این آر او کے مطابق وفاقی یا صوبائی حکومت کسی بھی شخص( جو جعلی طور پر ملوث ہونے ، سیاسی وجوہات یا سیاسی قربانی یا کسی بھی قسم کے مقدمے کی سماعت سے قبل) پر بننے والے کسی بھی قسم کے کیس کو واپس لے سکتی ہے۔
یہ بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اقدام سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو ( سیاسی طور پر بدعنوانی کے کی چھان بین اور قانونی نتائج کے بغیر )پاکستان واپس آنے کی اجازت دینے کا ایک انداز تھا۔
دوسری جانب پرویزمشرف نے کہا تھا کہ سیاسی میدان میں اس طرح کے سیاسی حوصلہ افزائی کے معاملات کو ہٹانے کے لئے یہ ایک لازمی موضوع بنانا ضروری ہے۔
پرویزمشرف نے ایک انٹرویو میں کہا تھاکہ مقدمات ایک دہائی سے عدالتوں میں بغیر کسی فیصلے کے موجود تھے جو کہ تمام سیاسی جماعتوں کی آپس میں سیاسی پیشرفت کو آگے بڑھانے میں رکاوٹ تھے۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق، پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ بدعنوان ممالک میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔