ارشاد ِباری تعالیٰ ہے: اللہ اپنے بندوں پر بڑا لطف و کرم فرمانے والا ہے، جسے چاہتا ہے، رِزق و عطا سے نوازتا ہے اور وہ بڑی قوت والا بڑی عزت والا ہے …(سورۃ الشوریٰ،آیت ۱۹)
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بندوںپر اپنے لطف و کرم اور اپنی عنایت ومہربانی کو ذکر فرمایا ہے۔وہ اس طور پر کہ وہ انہیں بلا کسی تفریق اور امتیاز کے رزق عطافرماتا ہے۔تفسیر احکام القرآن میںامام قرطبی ؒنے حضرت مُقاتِل ؒ کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنےسب ہی بندوں پر مہربان ہے۔ یہاں تک کہ کافر اور فاسق وفاجر پر بھی دنیا میں اس کی نعمتیں برستی ہیں اور وہ اپنے کفر اور فسق وفجور کی وجہ سے بھوکے نہیں مرتے۔یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے ساتھ مہربانی ہی ہے جس کی وجہ سے وہ ان کی فوری گرفت بھی نہیں فرماتا،بلکہ انہیں مہلت دیتا ہے۔بہرحال اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے، رزق عطا فرماتا ہے،لیکن بعض دفعہ انسان کی اپنی بداعمالیاں اورکوتاہیاں،اس کے رزق میں بے برکتی،کمی یامحروی کا سبب بنتی ہیں۔
آج کم و بیش ہر آدمی رزق میں بے برکتی کی شکایت کر رہاہے،معاش میں تنگی کا رونا رو رہا ہے،لیکن ان اعمال کو اختیار نہیں کررہا جو رزق میں کشادگی و فراوانی کا باعث بنتے ہیں۔بہرحال رزق میں کشادگی کا سبب بننے والے اعمال میں سے ایک عمل گناہوں کو چھوڑنا ہے۔ سنن نسائی اورسنن ابن ماجہ میںحضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا جاتاہے‘‘۔اسی طرح گناہوں کی معافی چاہنا اور توبہ و استغفار کرتے رہنے سے بھی رزق کی تنگی دور ہو جاتی ہے۔
سنن ابو داؤد میںحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص بکثرت استغفار کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اسے ہر غم سے چھٹکارا اور ہر تنگی سے کشادگی عنایت فرمادیتا ہے اور اسے ایسے راستوں سے رزق عطا فرماتا ہے، جس کا اس کے وہم وگمان میں گزر تک نہیں ہوتا‘‘۔اسی طرح رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا بھی رزق اور عمر میں برکت کا باعث بنتاہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم نے فرمایا ’’جسے رزق میں وسعت اورر درازی عمر کی خواہش ہو تواسے رشتے داروں کے ساتھ اچھابرتاؤ کرنا چاہیے‘‘۔