• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کو ووٹ دو

پرویز بشیر

’’پاکستان کو ووٹ دو کا نعرہ کیوں ضروری ہے اس لئے کہ یہ نعرہ یا فلسفہ جمہوریت کا اصل ہے اگر ہم سب بحیثیت مجموعی پاکستان کے مفاد، سالمیت، استحکام کو سامنے رکھیں گے تو پھر ہی ہم درست سیاسی جماعت یا سیاسی شخصیت کے بارے میں فیصلہ کر سکیں گے۔جمہوریت کیا ہے؟اس کے فوائد کیا ہیں؟اس میں عوام کی کیا اہمیت اور حیثیت ہے؟ اس بارے میں شعور کو مزید اجاگر کرنے اور تعلیم کی ضرورت ہے بار بار کی مداخلت نے جمہوریت پر سے ہمارا اعتماد دھندلا دیا ہے، ملک میں بار بار جمہوریت کا تسلسل ٹوٹنے سے ہماری سوچ اور فکر میں جمہوری عمل کا فقدان پایا جاتا ہے ہم شخصیت پرستی یا شخصیت پسندی کے گرداب میں مبتلا ہیں جمہوریت پسند ممالک میں دو یا تین جماعتی نظام بتدریج قائم ہو گیا ہے ہم بجائے آگے جانے کے اس معاملے میں اور پیچھے چلے گئے ہیں،قومی جماعتیں کم ہو گئی ہیں قوم پرست یا علاقائی،صوبائی سطح کی جماعتوں کی تعداد بڑھ گئی ہے جہاں تعلیم کم ہے جاگیردارانہ یا وڈیرہ شاہی موجود ہے وہاں سیاسی جماعتوں کے نظریے منشور کو کوئی کوئی ہی جانتا ہے بس شخصیت کے سحر میں غریب اور کم تعلیم یافتہ گرفتار ہے‘‘

25جولائی 2018ءکے عام انتخابات ملک کو استحکام بخشیں گے کہ انتشار اور افراتفری کا باعث بنیں گے؟جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے اندیشے اور خدشات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اللہ کرے کہ اندیشے غلط ثابت ہوں اور یہ انتخابات ملک کی خوشحالی اور تعمیروترقی امن کا ذریعہ بنیںلیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ جو حالات اور واقعات ہیں وہ خدشات اور خطرات کی طرف جاتے نظر آ رہے ہیں قوم بری طرح سے مختلف نظریات میں تقسیم ہو گئی ہے دن بدن شدت پسندی میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے ہم بحیثیت مجموعی اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں لیکن ہماری تربیت اور شعور اس سطح کو نہیں پہنچتا کہ ووٹ ڈالتے ہوئے ملک عوام کے مفاد کو اولیت دیں ایک نعرہ سوچ یا فلسفہ یہ بھی ہو کہ پاکستان کو ووٹ دو۔

ملک میں بار بار جمہوریت کا تسلسل ٹوٹنے سے ہماری سوچ اور فکر میں جمہوری عمل کا فقدان پایا جاتا ہے ہم شخصیت پرستی یا شخصیت پسندی کے گرداب میں مبتلا ہیں جمہوریت پسند ممالک میں دو یا تین جماعتی نظام بتدریج قائم ہو گیا ہے ہم بجائے آگے جانے کے اس معاملے میں اور پیچھے چلے گئے ہیں قومی جماعتیں کم ہو گئی ہیں قوم پرست یا علاقائی،صوبائی سطح کی جماعتوں کی تعداد بڑھ گئی ہے جہاں تعلیم کم ہے جاگیردارانہ یا وڈیرہ شاہی موجود ہے وہاں سیاسی جماعتوں کے نظریے منشور کو کوئی کوئی ہی جانتا ہے بس شخصیت کے سحر میں غریب اور کم تعلیم یافتہ گرفتار ہے۔

پاکستان کو ووٹ دو کا نعرہ کیوں ضروری ہے اس لئے کہ یہ نعرہ یا فلسفہ جمہوریت کا اصل ہے اگر ہم سب بحیثیت مجموعی پاکستان کے مفاد، سالمیت، استحکام کو سامنے رکھیں گے تو پھر ہی ہم درست سیاسی جماعت یا سیاسی شخصیت کے بارے میں فیصلہ کر سکیں گے۔جمہوریت کیا ہے؟اس کے فوائد کیا ہیں؟اس میں عوام کی کیا اہمیت اور حیثیت ہے؟ اس بارے میں شعور کو مزید اجاگر کرنے اور تعلیم کی ضرورت ہے بار بار کی مداخلت نے جمہوریت پر سے ہمارا اعتماد دھندلا دیا ہے افسوس صد افسوس 2018کے عام انتخابات کے بارے میں بھی ہم شکوک وشبہات کا شکار ہیں کہ یہ انتخابات منصفانہ غیر جانبدارانہ طور پر منعقد ہو رہے ہیں ملک کی بڑی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اس حوالے سے بار بار اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہے وہ سمجھتی ہے کہ ہر ایک کے لئے ایک جیسی گرائونڈ کھیلنے کے لئے نہیں ہے اگر اس کے یہ خدشات برقرار رہے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ اگر 2018کے عام انتخابات منصفانہ اور شفاف نہ ہوئے تو 25جولائی کی رات کو ہی ایک اور منصفانہ شفاف انتخابات DUEہو جائیں گے یہ پھر کب ہونگے کون کس طرح کرائے گا یہ وقت بتائے گا ۔

پاکستان کو ووٹ دو کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت کو ووٹ دو بڑے ڈیمز بجلی کے منصوبوں ، سی پیک کو ووٹ دو، دہشت گردی کے خاتمے کو ووٹ دو کراچی بلوچستان کے امن کو ووٹ دو، غیر جمہوری قوتوں کے خلاف ووٹ دو، یہ ووٹ اس طرح پڑنا چاہئے کہ ووٹ کی عزت حرمت میں اضافہ ہو نہ کہ آپ ووٹرز کا مینڈیٹ کوئی اور چرالے جائے سویلین حکومت کو آئین اور قانون کے تحت جو اختیارات حاصل ہیں ان اختیارات پر عمل کرنے کا ان کو کلی اختیار حاصل ہے ماضی میں ان اختیارات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کو ہمیشہ تحفظات رہے ہیں اس وقت مسلم لیگ (ن) تو اس ہی بنیاد پر انتخابات میں جا رہی ہے اس کا کہنا ہے کہ اس کا مقابلہ ’’خلائی مخلوق‘‘ سے ہے اس میں کس حد تک صداقت ہے اس کا تو علم نہیں لیکن جو مشکلات اور رکاوٹیں مسلم لیگ (ن) کو درپیش ہیں وہ واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں اس وقت تحریک انصاف کیلئے آسودگی اور آرام دہ وقت ہے نگران حکومت کے بعض ارکان بھی اس کے لئے تقویت کا باعث بنے ہوئے ہیں الیکٹ ایبل کی قطار در قطار اس پارٹی میں شمولیت حالات وواقعات کا پتہ دیتی ہے تحریک انصاف کے لئے منزل اور راستوں کی جو آسانیاں ہیں وہ قابل رشک ہیں اس پر بہت بات ہو سکتی ہے۔

موجودہ ہونے والے عام انتخابات کو ہمیں ہرگز متنازع انتشار اور ملک کے لئے مشکل کا باعث نہیں بنانے چاہئے ۔

انتخابات اس ماحول میں ہونے چاہئیں کہ کسی ادارے کی حرمت و تقدس پر حرف نہیں آنا چاہئے ابھی ماحول میں پراگندگی ہے۔ مسلم لیگ (ن) آئے دن انتخابی عمل پر غیر شفافیت اور جانبدارانہ رویوں کی دہائی دے رہی ہے ہم بطور قوم انتخابات کے شفاف و منصفانہ انعقاد کے دعویٰ دار نہیں بن پائے نہ معلوم کون سی وجوہات ہیں کہ ہم انتخابی اصلاحات سے گریزاں رہے الیکشن کمیشن کو مضبوط و توانا نہ بنا سکے نگران حکومت کا تصور ترقی یافتہ اور مضبوط جمہوری ملکوں میں حیرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے نگران حکومت کا قیام ہماری بے بسی بے اعتباری کا مظہر ہیں ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے الٹا پھر یہ کہ نگران حکومتوں پر بھی شکوک و شبہات رہتے ہیں کہ یہ غیر جانبدارانہ نہیں ہیں کم از کم یہ بندوبست تو ضرور ہونا چاہئے کہ ان نگران حکومتوں کے ارکان غیر جانبدار اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوں۔ کیا ہمارا سسٹم چند درجن ایسے افراد سامنے لانے سے قاصر ہے یا جان بوجھ کر ایسے افراد کو منتخب کر لیا جاتا ہے۔

پاکستان کو ووٹ دو

افسوس اور پریشانی کا مقام ہے کہ ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کچھ اس سے زیادہ متاثر کن نہیں بلکہ ہر انتخاب اپنے ساتھ کچھ پریشانیاں اور مشکلات ہی لے کر آیا۔ 1970 کے انتخاب کے بارے میں عام طور پر یہ ہی کہا جاتا ہے کہ یہ ملکی تاریخ کے سب سے شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخاب تھے جنرل یحییٰ خاں کی زیر سرکردگی میں ہونے والے انتخاب سب سے بڑی خرابی لے کر آئے اس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا۔ جماعت اسلامی اور اس وقت کی مسلم لیگ انتخابات کی شفافیت پر شور کرتی رہی پھر 1977کا انتخاب آ گیا یہ انتخاب اس وقت کی حکومت پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کی زیر نگرانی منعقد ہوا اور ملک کے لئے ایک عذاب بن گیا ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی اس وقت کامیابی کی پوزیشن میں ہو لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی بھاری کامیابی کی خواہش نے انہیں اور ملک کو مصیبت میں ڈال دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسے لیڈر کو پھانسی ہو گئی ملک میں دس سال کے لئے مارشل لا کا عذاب نازل ہو گیا ضیاء الحق کی حکومت نے ملک کو جس ڈگر پر ڈال دیا اس کو آج تک ملک فوج اور معاشرہ بھگت رہا ہے۔ 1985میں غیر جماعتی انتخاب نے ملک کا جمہوری سیٹ اپ اور اقدار کا بیڑا غرق کر دیا۔ 1988کے عام انتخابات میں میں بے نظیر کی قیادت میں پیپلز پارٹی پھر برسراقتدار آئی کہا جاتا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے صورتحال اور زمینی حقائق کے تحت اسٹیبلشمنٹ سے کچھ سمجھوتے کئے لیکن 1988کا یہ انتخابات بھی ملکی جمہوریت کو آگے بڑھانے میں ناکام رہا عوام کی خوشحالی ملکی سالمیت تعمیر و ترقی کے منصوبے امن و امان کی صورتحال کسی کے نزدیک مقدم نہ ٹھہری اقتدار کی کشمکش میں ملک مسائل کا شکار ہوتا رہا ایجنسیاں ادارے اپنا اپنا کھیل کھیلتے رہے اسی دوران نئے انتخابات کے لئے اسلامی جمہوری اتحاد ’’بنایا یا بنوایا‘‘ گیا اس کی بازگشت آج اصغر خاں کیس کے حوالے سے سنی جا سکتی ہے اس معاملہ میں پھر ایجنسیاں ادارے ملوث نظر آتے ہیں کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ رپورٹ تھی کہ بے نظیر بھٹو امریکہ سے یہ معاہدہ کر کے آئی تھی کہ وہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام منجمد کرا دے گی ان کو اس کام سے روکنے کے لئے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا گیا اور سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کی گئی۔ جب معاملہ ’’اتنی حب الوطنی‘‘ کا ہو تو کوئی سیاست دان پیسے نہ لے کرکسی غیر حب الوطنی کا مظاہرہ کس طرح کر سکتا تھا یہ تو اس کا فرض بنتا تھا کہ وہ بے نظیر بھٹو کو اس کام سے روکے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس اطلاع یا مفروضے میں کتنی صداقت تھی یاد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ایٹمی پروگرام کے معمار تھے بے نظیر بھٹو وہ تھی جنہوں نے پاکستان کے میزائل سسٹم کو آگے بڑھایا۔

1990میں پھر انتخابات کرانے پڑ گئے اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کا کردار کوئی ڈھکا چھپا نہیں اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی خواہش تھی کہ سندھ کے غلام مصطفیٰ جتوئی کو وزیراعظم بنایا جائے اس وقت بھی اسی طرح سوچا جاتا تھا کہ آئندہ کس کو وزیراعظم بنایا جائے گا بقول پروفیسر غفور کے کہ مصطفیٰ جتوئی کو ایک دو بار جنرل اسلم بیگ کی گاڑی میں دیکھا گیا لیکن قسمت نواز شریف پر مہربان تھی وہ 1990میں وزیراعظم بن گئے۔ اس وقت صدر کے پاس 58-2Bکا اختیار ہوتا تھا کہا جاتا ہے کہ اصل میں صدر کا اسمبلیاں تحلیل کرنے اور حکومت برخاست کرنے کا اختیار بھی کسی اور کے پاس ہی ہوتا تھا۔ دو ڈھائی سال کی حکومتوں کا یہ سلسلہ اسی 58-2Bکی آئینی شق کا ثمر تھا کسی کوملک قوم پر رحم نہیں آیا، اقتدار کا کھیل کسی اور کے ہاتھوں میں کھیلا جاتا رہا۔ 1993میں پھر انتخابات کرانے پڑے۔ اس میں جنرل عبدالوحید کاکڑ کا کردار ایک کھلی داستان ہے جمہوری ادوار میں جرنیلوں کے نام آناکوئی انہونی بات نہیں۔ ایک نام جنرل آصف نواز کا بھی ہے۔ صدر غلام اسحقٰ کو کسی کے معاہدے اور کسی کے کہنے پر جانا پڑا سب کو معلوم ہے 58-2Bحکمرانوں کو قابو رکھنے اور بےدست و پا کرنے کا ایک ہتھیار بن گیا تھا۔ اس وقت کے صدر فاروق لغاری جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا اپنی ہی وزیر اعظم بینظیر بھٹو سے لڑ پڑے اور بینظیر بھٹو پر کرپشن کی چارٹ شیٹ سامنے آگئ۔ کرپشن اور غیر حب الوطنی آج بھی حکمرانوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر سامنے لائی جاتی ہے۔ بات1996میں بینظیر بھٹو اور فاروق لغاری تنازع کی ہورہی تھی اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کا کردار بھی کچھ کہی اور ان کہی باتوں میں آتا ہے۔

1997میں پھر عام انتخابات کا ڈول ڈالا گیا ۔ نواز شریف کو بھاری اکثریت ملی۔ 1999تک نواز شریف کی حکومت ملی ، افسوس کہ پھر ایک آرمی چیف کا نام آتا ہے۔ پرویز مشرف نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا ، یہ سارا تنازع کارگل ایڈونچر کا نکلا یعنی نواز شریف کی اس وقت بھی یہ شکایت تھی کہ جمہوری حکومت کے مینڈیٹ میں مداخلت کی جاتی ہے۔ آج عوامی مینڈیٹ کا یہ تنازع طول پکڑ گیا ہے۔ بینظیر بھٹو آصف زرداری اور عمران خان نے تو ا سٹیبلشمنٹ پر کئی بار انتخابات میں شکست کی ذمہ داری ان پر ڈالی لیکن نواز شریف جب بھی انتخابات ہارے یا برطرف کیا گیا تو وہ کھل کر فوج پر ذمہ داری ڈالنےسے گریزاں رہے۔ جمہوری حکومتوں کو بہت مواقع ملے کہ وہ آئین میں ترامیم کرکے جمہوریت اور اداروں کو مضبوط بنائیں لیکن بوجوہ وہ ایسا نہ کرسکے۔بہرحال اٹھارویں آئینی ترمیم اور 58-2B کا خاتمہ سیاستدانوں پر ایک جزوی کامیابی تھی۔

ہمارے سیاستدانوں کی یہ بیماری یا مجبوری ہمیشہ آڑے آتی رہی کہ وہ عوام کے بجائے کامیابی کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کے منتظر رہتے ہیں لیکن یہ حقیقت بھی ہے کہ اس آشیرباد سے بگڑے کام سنور جاتے ہیں، راستے کے کانٹے ختم ہوجاتے ہیں، دشواریاں پریشانیاں مخالفین کا مقدر بن جاتی ہیں۔ آج پاکستان کو ووٹ دو کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہر ادارہ ہر شخص آئین اور قانون کے دائرے میں رہے۔ پارلیمنٹ کی تشکیل کا کام عوام ہی کریں کسی جانب سے کوئی بےجااور غیر جمہوری مداخلت نہ ہو کسی بھی جانب سے کوئی جانبداری کا شائبہ تک نہ ہونے پائے چاہے وہ اسٹیبلشمنٹ ہو چاہے عدلیہ ہو یا نیب ہو اس طرح نگران حکومتیں انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کو بھی غیر جانبدار نظر آنا ہوگا۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اگر کسی پر کرپشن کا الزام ہے تو اس پر کڑی گرفت ہو اور کسی کو رعایت اور ڈھیل ملتی نظر آرہی ہو۔

متذکرہ بالا سطور میں ماضی کے جن انتخابات کا ذکر کیا گیا ہے اس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ان انتخابات میں کس طرف سے کیسی کیسی مداخلت ہوتی رہی ہے۔ اصغر خاں کیس میں بھی سیاستدانوں کو ہی زیادہ زیر الزام لایا گیا ہے اور انہیں ہی معطون کیا گیا ہے۔ دوسرے فریق پر ہاتھ ہلکا رکھا جاتا ہے، اگر ایک فریق لائق ملامت ہے تو دوسرے کو ایسا کیوں سمجھا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ اس کا حق ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ قوم کو اسی کشمکش سے آزاد ہوجانا چاہئے تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ بعض سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما اس بات کا ایڈوانٹیج لے رہے ہیں کہ ہمیں بالا دست قوتوں کی آشیر باد حاصل ہے جبکہ دوسری جانب بعض جماعتیں جن میں مسلم لیگ (ن) سرفہرست ہے ز یر عتاب ہونے کا واویلا کررہی ہے اس لئے انتخابات کے بعد کا منظر بھی کوئی بہت خوش کن نظر نہیں آرہا۔ ہر روز اس آس اور امید میں گزرتا ہے کہ ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک شروع ہونے کو ہے ۔ اس وقت مسلم لیگ(ن) کے بےشمار ایسے امیدوار جو کہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں کو، مشکل اور مسائل کا سامنا ہے۔ نیب میں آئے دن ان کے کیس کھل رہے ہیں۔ نواز شریف تو خیر طویل عرصے سے احتساب عدالت میں پیشیاں بھگت رہے ہیںلیکن مسلم لیگیوں کی فہرست میں ہر روز نیا اضافہ سامنے آ رہا ہے شہباز شریف شاہد خاقان عباسی مریم نواز کیپٹن صفدر ،حمزہ شہباز ، خواجہ سعد رفیق ، سلمان رفیق ، خواجہ احسان، میاں نعمان، ملک ریاض افضل کھوکھر، سیف الملوک ، امیر مقام ، مہر اشتیاق مفتاح اسماعیل بڑے بڑے نام ہیں زیادہ تر کا تعلق لاہور سے ہے مسلم لیگ (ن) نے لاہور سے 2013 میں بڑی کامیابی حاصل کی تھی نیب میں پیشی ہونے سے ان امیدواروں کی ساکھ ضرور متاثر ہوتی ہے بعد میں چاہے وہ بری الذمہ ہی قرار پائیں۔

مطلب کہنے کا یہ ہے کہ کچھ جماعتوں کی بڑے حالات میں اور کچھ کی انتہائی آسودہ اور خوشگوار ماحول میں انتخابات میں جانے کا موقع مل رہا ہے۔

یہ ہمارے سسٹم کی کمزوری ہی نہیں صریحاً بدقسمتی ہے کہ اس وقت قوم دو نظریوں میں تقسیم نظر آ رہی ہے ایک نواز شریف کا بیانیہ ہے دوسرا باقی فریقین کا ہے آصف زرداری نے پہلے اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی تھی لیکن انہوں نے بھی ’’مفاہمت اور آسودگی‘‘ میں پناہ لینا مناسب سمجھا عمران خان تو 2014 سے ہی آرام اور آسائش میں ہیں بقول مسلم لیگیوں کے تمام مراعات سہولتیں اور الیکٹ ایبلزان کو دستیاب ہیں ۔

پاکستان کو ووٹ دو کا مطلب یہ بھی ہے کہ سیاسی اور جمہوری عمل میں کس طرح کی مداخلت نہ ہو اس لئے انتخابی عمل اور انتخابی میدان شفاف اور غیر جانبدارانہ ہونا چاہئے ورنہ انتخابات کے بعد تنازعے اور غیر یقینی صورتحال برقرار رہنے کا خدشہ ہے ملک جس صورتحال سے گزر رہا ہے اس میں انتشار اور غیر یقینی پن ملکی معیشت اور تعمیر و ترقی کے لئے زہر قاتل ہے۔ بطور قوم ہمیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے ان میں معیشت کو استحکام دینا شامل ہے ہم پہلے ہی لڑائی جھگڑوں میں بہت سا وقت گنوا بیٹھیں ہیں 1990کی دھائی حکومتوں کے آنے جانے میں گزاردی یہ ملک کو ترقی دینے کا اہم ترین وقت تھا روس ٹوٹ گیا تھا سرد جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔

نئی صف بندیاں ہو رہی تھی تجارت سرمایہ داری کے نئے دروازے کھل رہے تھے ہم نے وہ بہترین موقع گنوا دیا بھارت بنگلہ دیش اور دیگر قریبی ممالک نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور خوب خوب ترقی کی ہم پیچھے رہ گئے اس طرح ایک موقع 1977میں بھی ضائع کیا تھا جب مشرق وسطیٰ کے ممالک نے ترقی کی اور وہاں تیل وافر اور پھر مہنگا ہونے سے روزگار کے مواقع نکلیں لیکن ہم پھر بین الاقوامی سازشوں کی زد میں آ گئے۔

جمہوریت کا تسلسل کسی بھی ملک کی قسمت بدل سکتا ہے جمہوری اقدار سالہا سال کے جمہور ی عمل سے ہی وجود میں آتی ہیں مصنوعی احتساب مصنوعی جمہوریت کے ماضی کے تجربات ناکام ہو چکے ہیں آئندہ بھی ناکام رہیں گے۔

2011میں تحریک انصاف جن اخلاقی اقدار پر کھڑی تھی آج اس میں بے حد ملاوٹ شامل ہو گئی ہے اس طرح ایک اچھی خاصی جماعت خراب کر دی گئی اب اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ سیاسی جمہوری عمل میں کشیدگی نفرتوں اور شدت پسندی کا زہر نکال دیا جائے یہ کام مل بیٹھ کر ہو جائے تو بہتر ہے بصورت دیگر بقول شہباز شریف نرم انقلاب نہ آیا تو خونی انقلاب آ جائے گا۔ہم سب کو الیکٹ ایبلز کی سیاست بلکہ بلیک میلنگ سے نجات حاصل کرنا ہو گی یہ جمہوری عمل کے لئے ہمیشہ سے سوہان روح بنے ہوئے ہیں ان کی جگہ پارلیمنٹ میں کسانوں مزدوروں دانشوروں وکلا کو آگے لانا ہو گا پارلیمنٹ میں تمام طبقات کی نمائندگی جمہوریت کو مضبوط اور توانا کرے گی سیاسی عمل میں مداخلت اور جانبداری وڈیروں داداگیروں اور بالا دست طبقوں کو تقویت پہنچاتی ہے اور جمہوریت کمزور اور عوام کمزور تر ہوتے ہیں۔

دعا اور خواہش ہے کہ جو بھی حکومت آئے وہ بغیر کسی تنازعہ کے آئے پانچ سال کے لئے آئے قوم اور ملک کے لئے منشور اور ایجنڈا لیکر آئے کسی اور کے ایجنڈے پر ہرگز نہ آئے نہ اس کو کسی کا سہارا حاصل ہو اگر معاملات الجھن اور گڑبڑ کا شکار ہیں تو انتخاب سے پہلے پہلے ان کو نمٹااور سلجھا لیا جائے۔ مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف غلط فہمیاں دور کرنے میں ضرور کوئی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں آئندہ چند ہفتے بہت اہم ہیں یہ نہیں ہونا چاہئے کہ جو عمران خاں ،آصف زرداری کو جو پہلے قبول نہ تھا اب وہ قبول ہو جو پہلے ناقابل قبول تھا ان انتخابات میں بھی وہ ناقابل قبول ہونے چاہئے پاکستان کو ووٹ دو کا مطلب بھی یہ ہی ہے۔


تازہ ترین