• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اچھا ہو یا برا: قومی مفاد کا تعین حکومت نے کرنا ہے

آرمی چیف جنرل کیانی کے ایک تیکھے بیان نے سیاست دانوں اور میڈیا کو اپنی جگہ پر اُسی طرح ساکت کردیا ہے جس طرح ایک محاورے کے مطابق” سب کو سانپ سونگھ گیا ہو“۔ اگرچہ اپنے بیان میں کیانی صاحب نے کسی کا نام تو نہیں لیا مگر اُن کا اشارہ سپریم کورٹ اور میڈیاکی طرف ہی ہے کہ وہ …”اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے دفاعی اداروں کی ساکھ، دائرہ ِ کار اور مورال کو نقصان پہنچا رہے ہیں“۔ سپریم کورٹ کے حوالے سے کیانی صاحب کے بیان کو اس پیرائے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عدالت ِ عظمیٰ نے سابقہ آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور سابقہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اسد درانی کے بارے میں کہا ہے کہ وہ 1990ء کے انتخابات پر اثر انداز ہو کر اپنی آئینی ذمہ داریوں سے تجاوز کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں چنانچہ عدالت نے حکومت کو ان افسران کا مواخذہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ سپریم کورٹ نے دفاعی اداروں کو اور بھی کئی حوالوں سے ناراض کر دیا ہے اور یہ ایک غیر معمولی پیشرفت ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان اور فاٹا میں دفاعی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالی کا سخت نوٹس لیا ہے اور ایک سے زیادہ مواقع پر ایف سی، آئی ایس آئی اور ایم آئی کو چیف جسٹس صاحب کی طرف سے سخت وعید سننا پڑی ہے۔
دوسری طرف دفاعی اداروں کا دوٹوک موقف یہ ہے کہ وہ بلوچستان اور فاٹا میں بالترتیب علیحدگی پسندوں، طالبان اور القاعدہ کے سخت جان جنگجوؤں، جن کو غیر ملکی مدد بھی حاصل ہے، کے خلاف نہایت مشکل حالات میں برسر ِ پیکار ہیں مگر اُن کی کوشش اور قربانیوں کا معترف ہونے کی بجائے نہ صرف اُن پر تنقید کی جاتی ہے بلکہ اُن کے راستے میں رکاوٹ بھی ڈالی جاتی ہے۔ فوجی افسران یقینا اس تنقید کے عادی نہیں ہیں اور وہ نہ ہی اسے پسند کرتے ہیں چنانچہ وہ اپنے چیف صاحب کو بتاتے ہوں گے کہ وہ اس صورت حال میں کیا محسوس کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ اور میڈیا دونوں نے سابقہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل جاوید ارشد قاضی اور دو اور ریٹائرڈ جنرلوں کی مشرف دور میں کی گئی کچھ منفی سرگرمیوں کو منظرعام پر لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے… اس کا تعلق پاکستان ریلوے کی زمین کو لاہور کے ایک لگژری کلب کو دیئے جانے سے ہے۔ اس متنازع نج کاری، جس پر عوامی سطح پر شدید تنقید بھی کی گئی، کی نیب تفتیش کر رہا ہے کہ یہ سودا کیسے ہوا اور کہیں اس میں کمیشن یا کک بیکس تو وصول نہیں کی گئیں۔ یقینا وہ فوجی افسران غصے سے پیچ و تاب کھا رہے ہوں گے۔ میڈیا بھی دفاعی اداروں کی ناراضی مول لے رہا ہے۔ میڈیا نے ہی وہ معاملہ طشت ازبام کیا تھا جس میں تین ریٹائرڈ جنرلوں، جو این ایل سی کے انچارج تھے، نے مبینہ طور پر عوام کے پیسے سے چار ارب روپے نکال کر اسٹاک ایکسچینج میں لگائے اور وہ رقم ضائع ہو گئی۔ میڈیا میں گاہے بگاہے موجودہ آرمی چیف پر مدت ِ ملازمت میں توسیع لینے کے حوالے سے بھی تنقید کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا کے بعض دھڑوں میں کچھ سرگوشیاں بھی سنائی دی ہیں کہ آرمی چیف کے دو بھائیوں کو مبینہ طور پر حکومت کے بہت ہی پرکشش منصوبوں کے ٹھیکے دیئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ اور معاملات نے بھی جنرل صاحب کو دفاعی قدموں پر لا کھڑا کیا ہے… جیسا کہ ریمنڈ ڈیوس کیس اور دو مئی کو بن لادن کی تلاش میں امریکی کمانڈوز کی ایبٹ آباد تک رسائی۔ ان معاملات میں ہونے والی تنقید کا جواب دینے کے لئے میمو گیٹ اسکینڈل کو ہوا دی گئی مگر اس کا دفاعی اداروں کو الٹا نقصان ہوا کیونکہ اس معاملے کا اہم گواہ قابل ِ اعتماد شخص نہ تھا۔ اسی طرح فوج کی طرف سے سلالہ چوکی پر حملے کے بعد نیٹو سپلائی روکنے اور ملک میں ڈرون حملوں کے خلاف امریکہ مخالف جذبات ابھارنے کا فیصلہ بھی مہنگا پڑا کیونکہ امریکہ کے ساتھ تعلقات بحال کرنے ، جو کہ ہماری معاشی مجبوری ہے، کے لئے سپلائی کھولنا پڑی جبکہ ڈرون حملے اُسی طرح جاری ہیں۔
پچھلے سال جب بن لادن کے ٹھکانے پر حملے کی وجہ سے دفاعی ادارے تنقید کی زد میں تھے تو ایک حلقے نے الزام لگایا تھا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے ذریعے بلواسطہ طور پر میڈیا کی زبان بندی کرانا چاہی مگر سپریم کورٹ نے اب جا کر کہیں اُس کیس کو نمٹایا ہے جبکہ اس دوران میڈیا پوری توانائی کے ساتھ اپنا کام کرتا رہا۔ اب یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے کہ نو اعلیٰ فوجی افسران، بشمول دو سابق آرمی چیف اور دو سابق ڈی جی آئی ایس آئی،عدالت کے کٹہرے میں کھڑے نظر آئیں۔ اس کی وجہ سے جنرل کیانی پر اپنے ادارے کی طرف سے دباؤ ہو گا کہ وہ فوج کے خلاف ہونے والی اس طرح کی کارروائیوں کا تدارک کریں اور اس کی کارگزاری کو سویلین اداروں اور احتساب کی زد میں آنے سے روکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے بیان کو ایک ”وارننگ شاٹ“ کے طور پر دیکھا جارہا ہے تاہم کیانی صاحب نے اپنے بیان میں اصول پسندی کی جھلک نمایاں کرنے کے لئے یہ تمہید بیان کی ہے” ہاں فوج سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں…اور قومی مفاد کا تعین کرنا اس کی اجارہ داری نہیں ہے“ تاہم اس بات کا ابھی تک کوئی اشارہ نہیں ملا ہے کہ کیا اب دفاعی ادارے سول ملٹری تعلقات کو ایک نئی اور حقیقت پسندانہ جہت دینے اور قومی سلامتی پر اپنی اجارہ داری ختم کرتے ہوئے اس پر بات کرنے کی اجازت دینے کے لئے تیار ہیں؟
مسئلہ یہ ہے کہ اب پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سول سوسائٹی، حکومت، اپوزیشن، میڈیا ، عدلیہ اور بیوروکریسی میں یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ اس ملک پر صرف دفاعی اداروں کا ہی حکم نہیں چلنا ہے، اس کی بجائے قوم لئے اچھا ہو یا برا، فیصلہ سول حکومت کو ہی کرنا ہے یعنی قومی مفاد کا تعین کرنا اب سول حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ معاشرے میں ایک سوچ واضح طور پر پیدا ہو رہی ہے کہ اس نازک دور میں، جس سے پاکستان اب گزر رہا ہے، فوج کو سیاست سے دور رہنا چاہئے اور سب ادارے اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں چنانچہ اب عدلیہ ، میڈیا اور فوج کو اپنے اپنے کردار کر جائزہ لینا ہے تاکہ وہ مل کر قومی مفاد میں کام کرسکیں۔
تازہ ترین