• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹریفک حادثات

مختار احمد کھٹی،ٹنڈو غلام علی

وادی مہران کے زیریں حصے لاڑہ کے ضلع بدین کی تحصیل ماتلی کے کلیدی شہر جوکہ35 ہزار نفوس آبادی پر محیط ہونے کے ساتھ سیاسی ، سماجی، مذہبی اور تجارتی لحاظ سے بھی خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔اس شہر کے دیگر مسائل میں ٹریفک قوانین کی آزادانہ طور سے بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں نے عام شہریوں کی زندگی کواجیرن بنادیا ہے۔ کم عمر لڑکوں کی ون وہیلنگ ڈرائیونگ اور گاڑیوں کی تیزرفتاری کے باعث حادثات روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں، جن میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ اس سے زیادہ ہ افراد معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 

ان میں سے زیادہ تر نوجوان جو غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، آسان اقساط یا لیزنگ پر موٹرسائیکلیں حاصل کرکے اپنی زندگی کو لاحق خطرات سے بے پرواہ ہوکرٹریفک کے اژدہام میںخطرناک انداز میں ڈرائیونگ کرنا ان کا محبوب ترین مشغلہ بن گیا ہے۔ اندرون سندھ حیدر آباد تا مٹھی براستہ ماتلی، ٹنڈو غلام علی، ڈگری کی شاہراہ کوعلاقے کی اہم ترین اور مصروف شاہراہ کا درجہ حاصل ہے۔ اس شاہراہ پر6 اضلاع جن میں حیدر آباد، ٹنڈو محمد خان، بدین، ٹنڈو الہ یار،میرپور خاص اور مٹھی واقع ہیں۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں شہری نہ صرف سفر ی بلکہ بار برداری کی سہولتیں بھی اسی شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے حاصل کرتے ہیں۔ اس اہم ترین شاہراہ پر بھی قانون کی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے اورتیز رفتار مسافر کوچز ،وین ،اور بسوں میں اوور لوڈنگ اور تیز رفتاری کے باعث رونما ہونےوالے حادثات کے نتیجے میں درجنوں قیمتی جانوں کا زیاں ہوتا ہے۔ دوسری جانب زخمی ہونے والے افراد کی اکثریت اپنے جسمانی اعضاءسے عمر بھر کے لیے محروم ہوکر ساری زندگی معذوری کی سزا بھگتنے پر مجبوہوجاتی ہے۔

ٹریفک حادثات

ان میں ایسے افراد بھی شامل ہوتے ہیں جواپنے کنبہ کے واحد کفیل ہوتے ہیں۔مشاہدے میں آیا ہے کہ زیادہ تر بسوں، ویگنوں اور کوچز کی تیکنیکی طور پر چیکنگ کیے بغیر انہیں فٹنس سرٹیفکٹ دیئے جاتے ہیں۔اکثر گاڑیوںکے بریک کام نہیں کرتے، جب کہ دائیں بائیں مڑنے کا اشارہ دینے کے لیے انڈیکیٹر اور پیچھےآنے والی گاڑیوں کو دیکھنے کے لیے بیک مرر نہیں ہوتےجب کہ ہیڈ لائٹس اور بیک لائٹ جو رات کے سفر کے لیے انتہائی ضروری ہیں وہ بھی ٹھیک حالت میں نہیں ہوتیں۔ اس پر مستزادیہ کہ اس شاہر اہ پردیہی علاقوں کے باشندے گدھا گاڑی اور اونٹ گاڑیوں پر بھی سفر کرتے ہیں جن میں سے اکثر گاڑیوں پر چمک پٹی تک آویزاں نہیں ہوتی۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر ڈرائیور رات کو سفر کے دوران انجن میں خرابی کی وجہ سے اپنی گاڑیاں بغیر ایمرجنسی لائٹ روشن کیے ، سڑک کے درمیان کھڑی کردیتے ہیں، جو جان لیوا حادثات کا سبب بنتی ہیں۔

ٹریفک کے قوانین پر عمل درآمد کرانا پولیس کی ذمہ داری ہے اور غیر قانونی طریقے سے پارک کی ہوئی گاڑیوں کو سڑک سے ہٹانا بھی اسی کے فرائض میںشامل ہے لیکن ہمارے ٹریفک اہل کار و افسران شاید اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے ناواقف ہیں۔

ہر ٹریفک حادثے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان کے بعدشہری انتظامیہ اسے محض اتفاقی حادثہ قرار دے کراس کے اسباب کی چھان کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتی۔ ضرورت اس امر کی ہے پولیس، انتظامیہ اور ٹریفک حکام ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں اور قوانین پر عمل در آمد کو یقینی بناکر قانون کو بے بس تصور کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کریں۔

ٹریفک حادثات

جنگ کی جانب سے کیے جانے والے سروے کے مطابق 6 اضلاع کو ایک دوسرے سے ملانے والی حیدرآباد تا مٹھی شاہراہ کے سنگم پر صرف ایک سرکاری اسپتال ہے، جہاں ٹریفک حادثات کے زخمیوں کو لایا جاتا ہےلیکن افسوس ناک امر یہ ہے اسپتال میں ضروری طبی آلات اور ادویات دستیاب نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے زخمی ہونے والے افراد زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ دیتے ہیں۔یہ اسپتال جوچند سال قبل تک بنیادی صحت مرکز تھا، رورل ہیلتھ سینٹرکی حیثیت سے اپ گریڈ ہونے کے باوجودطبی سہولتوں سے محروم ہے اور ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے میڈیکل اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے پاس کوئی سہولتیں موجود نہیںہیںہے۔عوامی حلقوں نے حکومت کے ارباب و اختیار سمیت ٹریفک حکام اور صحت حکام سے ٹنڈو غلام علی کو مندجہ بالا سنگین مسئلے کے فوری حل کا مطالبہ کیا ہے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین