پاکستانی معیشت ایک مرتبہ پھر سنگین بحران کا شکار ہے۔ اس بحران کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ وفاق اور چاروں صوبوں کی جانب سے طاقتور طبقوں کو ٹیکسوں میں بے جا چھوٹ و مراعات دی جاتی ہیں اور ٹیکسوں میں بڑے پیمانے پر چوری ہونے دی جاتی ہے جبکہ اس نقصان کے ایک حصے کو پورا کرنے کے لئے بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کرتے چلے جانے کے ساتھ صارفین سے اونچی شرح سے جنرل سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ٹیکسوں کی مد میں استعداد سے تقریباً 4500 ؍ارب روپے سالانہ کم وصولی ہوتی ہے۔ یہی نہیں ہر حکومت خواہ سول ہو یا فوجی ٹیکس چوری کرنے والوں، قومی دولت لوٹنے والوں اور دوسرے ناجائز طریقوں سے دولت اکٹھی کرنے والوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئے ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کا اجرا کرنے کو اپنا فرض منصبی سمجھتی ہے۔ دنیا بھر میں کسی بھی ملک نے اتنی کم شرح ٹیکس پر اتنی زیادہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کا اجرا نہیں کیا جتنا پاکستان میں کیا گیا ہے۔ وطن عزیز میں 8 اپریل 2018ء سے 2 سے 5 فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کا اجرا کیا گیا ہے۔ بھارت میں ٹیکس ایمنسٹی کے عوض 45 فیصد ٹیکس کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ پاکستان میں جاری ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کے ضمن میں چند حقائق نذر قارئین ہیں:
1۔ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کبھی بھی ٹیکسوں میں بنیادی اسٹرکچرل اصلاحات کا متبادل نہیں ہوتی۔
2۔ اگر کسی ملک میں حکومتی قوانین و پالیسیوں کے تحت ٹیکسوں کی چوری ہونا، کالے دھن کا پیدا ہونا، کالے دھن کا سفید ہونا اور سرمائے کا فرار ہونا روز کا معمول ہو وہاں ٹیکس ایمنسٹی کا اجرا حتمی نتائج کے اعتبار سے تباہی کا نسخہ ہوتا ہے چنانچہ ایمنسٹی کے اجرا سے پہلے ان خرابیوں کو دور کرنے اور معیشت کو دستاویزی بنانے کے لئے متعلقہ قوانین اور قواعد و ضوابط میں تبدیلیاں کرنا جزوی تصور کیا جاتا ہے۔
3۔ وطن عزیز میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کے شروع کرنے کے باوجود ابھی تک قوانین وغیرہ میں موثر تبدیلیاں نہیں کی گئیں چنانچہ ان اسکیموں کی توسیع شدہ مدت گزرنے کے بعد بھی ٹیکسوں کی چوری ہوتی رہے گی۔ کالا دھن نہ صرف پیدا اور سفید ہوتا رہے گا بلکہ سرمائے کے فرار کا عمل بھی جاری رہے گا۔
4۔ پارلیمنٹ کی منظوری کے تحت ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کو 30 جون 2018ء تک جاری رہنا تھا۔ نگراں حکومت کی سفارش پر صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ان اسکیموں میں نہ صرف 31 جولائی 2018ء تک توسیع کردی گئی ہے بلکہ شرائط میں بھی تبدیلی کردی گئی ہے جو کہ متنازع رہے گی۔ پارلیمنٹ کے ٖفیصلے کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نگراں حکومت کے دور میں تبدیل کیا جانا چاہیے تھا۔
وزارت خزانہ نے 11 جولائی 2018ء کو کہا کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت 1769؍ارب روپے کے ملکی و بیرونی ناجائز اثاثے ظاہر کئے گئے۔ ان اثاثوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے عوض حکومت کو صرف 97 ؍ارب روپے کے ٹیکس وصول ہوئے جبکہ صرف 40 ملین ڈالر کی ملک سے باہر رکھی ہوئی ناجائز رقوم پاکستان منتقل ہوئیں۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل مزید حقائق یقیناََ چشم کشا ہیں:
1۔ صرف گزشتہ دو برسوں میں ایف بی آر کے ٹیکسوں کی مجموعی وصولی ہدف سے 523؍ارب روپے کم رہی۔
2۔ گزشتہ دو برسوں میں مجموعی بجٹ خسارے کا حجم 4260؍ارب روپے رہا جبکہ اسی مدت میں چاروں صوبوں نے قومی تعلیمی پالیسی اور صحت کی مد میں اپنے وعدوں کے مقابلے میں تقریباً 5200؍ارب روپے کم مختص کئے۔
3۔ جون 2016ء سے مارچ 2018ء تک ملک کے مجموعی قرضوں و ذمہ داریوں کے حجم میں 5720؍ ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ مارچ 2017ء سے مارچ 2018 کی مدت میں پاکستان کے بیرونی قرضوں و ذمہ داریوں کے حجم میں 13.8 ؍ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔
4۔ اکتوبر 2016ء سے 6 جولائی 2018ء تک اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 9.4 ؍ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔
5 ۔ وفاق اور چاروں صوبوں کی ناقص معاشی پالیسیوں اور وفاق کی جانب سے بجلی، گیس و پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھاتے چلے جانے کے نتیجے میں صرف 2017-18ء میں پاکستانی برآمدات ہدف سے 12؍ارب ڈالر کم رہیں۔ اگر یہ کمی نہ ہوتی تو بیرونی شعبے کا موجودہ بحران پیدا ہی نہ ہوتا۔
مندرجہ بالا چیختے چنگھاڑتے اعداد و شمار اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ ٹیکسوں کے شعبے میں بنیادی اصلاحات کا ہے نہ ٹیکس ایمنسٹی کے اجرا کا۔ موجودہ مالی سال میں ہی یہ واضح ہو جائے گا کہ حتمی نتائج کے اعتبار سے ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں میں توسیع کے باوجود ہمارے مالی مسائل کم نہیں ہوں گے اور اسی مالی سال میں پاکستان کو نجاتی پیکیج کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز کرنا پڑے گا۔ یہ قرضہ بہرحال امریکا کی سفارش کے بغیر نہیں ملے گا۔ موجودہ معاشی پالیسیوں کے تناظر میں چین کے قرضے آئی ایم ایف کے قرضے کا متبادل نہیں۔ پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لئے امریکا کی دہشت گردی کی جنگ میں ’’مزید اور کرو‘‘ کا مطالبہ تسلیم کرنا ہوگا جس کے نتیجے میں پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات بڑھیں گے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے نتیجے میں موجودہ مالی سال میں معیشت کی شرح نمو سست ہوگی، مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور عوام میں مایوسی و بددلی مزید پھیلے گی۔
نگراں حکومت کی یہ ذمہ داری تھی کہ 12 جون 2018ء کو خاموشی اختیار کرنے کے بجائے وہ مندرجہ بالا حقائق سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرتی اور یہ استدعا کرتی کہ عدالت عظمیٰ یہ حکم جاری کرے کہ اگلی حکومت ٹیکسوں کی چوری اور سرمائے کے فراڈ کو روکنے کے لئے موثر قانون سازی کرے۔ اس کے بعد اگر وہ چاہے تو ناجائز بیرونی اثاثوں کو پاکستان واپس لانے کے لئے نئی شرائط پر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجرا کرے۔ ملک میں رہائش پذیر پاکستانیوں کو 5 فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر خطیر رقوم کے کھاتے بیرونی ملکوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ رقوم ٹیکس حکام سے خفیہ رکھی گئی تھیں جو کہ منی لانڈرنگ ہے۔ نگراں حکومت کے دور میں ہی ایف بی آر کے چیئرمین نے کہا تھا کہ ناجائز ملکی اثاثوں پر مروجہ قوانین کے تحت 70 فیصد تک ٹیکس وصول کیاجاسکتا ہے۔ قوم نگراں حکومت سے ـخصوصی طور پر یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں توسیع کرنے کے بجائے یہ قانونی راستے کیوں نہیں اختیار کئے گئے۔ اگر ایسا کیا جاتا تو حکومت کے پاس اتنی رقوم آجاتیں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ نگراں حکومت نے یہ موقع ضائع کردیا ہے جسے قومی المیہ ہی کہا جاسکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)