• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آلائشوں سے پاک شفاف انتخابی عمل ایک ایسا پیمانہ ہوتا ہے جس میں کسی مملکت کے عوام کے رجحانات اور اس اختیار کا تعین ہوتا ہے جو وہ اپنے نمائندوں کو تفویض کرنا چاہتے ہیں۔ ووٹ کے لغوی معنی دو میں سے ایک کو چننے کے ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا آف پولیٹیکل سائنس کے مطابق ووٹ سے مراد مجموعی فیصلوں کیلئے مجموعی طور پر انفرادی ترجیح ہے۔ ماہر سیاسیات ہرنگٹسن کے مطابق ووٹ ان لوگوں کا حق ہے جو قانون کی اطاعت گزاری کے ساتھ ساتھ ٹیکس ادا کرتے ہوں اور بوقت ضرورت وہ حکومت کو بنانے اور ہٹانے کا حق استعمال کر سکیں۔ اس تعریف میں یہ بات واضح ہے کہ حکومت بنانے اور ہٹانے کا اختیار صرف عوام کو حاصل ہے۔ تاہم عملی طور پر ہم اپنے ملک میں دیکھ چکے ہیں کہ حکومت کے ہٹانے کے اختیار کو متعدد بار بلکہ اکثر وہ استعمال کرتے رہے ہیں جنہیں عوام نے یہ اختیار نہیں دیا ہوا ہوتاہے۔
دوسرا المیہ یہ ہے کہ عوام نے جن افراد یا جماعتوں کو اختیار دیا ہوا ہوتا ہے اس سے زیادہ وہ لوگ یا جماعتیں ملکی امور میں اپنا اختیار طلب کرتی ہیں جنہیں عوام نے یہ اختیار نہیں سونپا ہوتا ہے، جن میں مذہبی جماعتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں، جو تمام امور پر تو اپنی دسترس اور غلبہ چاہتی ہیں لیکن قیام پاکستان سے 2008 کے انتخابات تک اس طرح کا کوئی اختیار انہیں عوام کی طرف سے تفویض نہیں ہو سکا ہے۔ نہ جانے یہ جماعتیں کس کسوٹی یا پیمانے کی بنیاد پر اس ملک پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے دعوے میں خود کو حق بجانب سمجھتی ہیں!! انتخابات میں بار بار مسترد کئے جانے کے باوجود ان کا نعرہ یہ ہے کہ صرف وہی عوام کی ترجمانی کی اصل حقدار ہیں۔بانیٴ پاکستان تھیوکریسی پر مبنی نظام کے خواہاں تھے، وہ خلافت کے داعی تھے یا جدید فلاحی جمہوری نظام کا خاکہ ان کے روبرو تھا۔ اس بحث سے قطع نظر یہ حقیقت ظاہر و باہر ہے کہ یہ ملک مسلمانوں کا ہے اور یہ حق بھی ان ہی کو حاصل ہے کہ وہ جس طرح چاہیں اپنی زندگی گزارنے اور مملکت کو سنوارنے کیلئے بہتر سے بہترین نظام حکومت کا انتخاب کرے۔ اب جب ہم اس حوالے سے حقائق پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ اس مملکت کی غالب اکثریت اپنا حق حکمرانی ایسی جماعتوں کے حوالے کرتے رہے ہیں جو مسلمانوں کی جماعتیں تو ضرور ہیں لیکن مذہبی نہیں۔ مسلم لیگ (ن) آج کے دور کی مقبول ترین جماعت ہے۔ گوکہ اس کا نام نامی ”مسلم“ سے مزین ہے، لیکن اس میں فیصلوں کا اختیار کلین شیو کے حامل ان رہنماؤں کو حاصل ہے جو جدید جمہوری نظام پر یقین رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس جماعت میں مولوی صاحبان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ ہاں خود کو نظر بد سے بچانے کی خاطر بسا اوقات کہیں سے ”مستعار“ لے لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ کی کسی بھی قسم میں یعنی ج، ف، ق، ن الغرض ”الف تا ے“ کسی بھی نوع کی مسلم لیگ میں یہ ناپید ہیں۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی تو خیر اعلانیہ لبرل جماعتیں ہیں اور مسلم لیگ سمیت یہی وہ جماعتیں ہیں جن کے اردگرد انتخابی نتائج ڈیرہ ڈالتے رہتے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ اس ملک کے شہری مسلمان ہوتے ہوئے خدانخواستہ اسلام بیزار ہیں۔ یہ اسلام کے زریں اصولوں و تعلیمات پر کاربند اور اس کیلئے تن من دھن کی قربانی ہمہ وقت دینے کیلئے تیار ہیں، لیکن ان کا میلان مائل بہ غیر مذہبی جماعتیں ہیں۔ انہیں میدان میں موجود مذہبی جماعتوں کے نعروں پر یقین نہیں، اس لئے وہ انہیں بار بار مسترد کر دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مذہبی جماعتیں باہم خود بھی ایک نہیں ہوتیں، لہٰذا وہ مملکت کے باشندوں کو کس طرح متحد اور اپنے ایجنڈے کے تابع بنا سکتی ہیں۔
یہ جماعتیں قول و فعل کے تضادات کا شکار ہیں۔ یہ نام تو اسلامی نظام اور خلافت کا لیتی ہیں اور شریک ایسے انتخابی عمل میں ہوتی ہیں جسے کُلی طور پر اسلامی نہیں کہا جا سکتا۔ صرف ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے ووٹر کا سمجھ دار، متقی اور پرہیز گار ہونا ضروری ہے، لیکن یہ مذہبی جماعتیں انتخابات میں بلا تخصیص ووٹ مانگتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ اعلان کرتی رہتی ہیں کہ ماسوائے متقی کے کوئی اور ہمیں ووٹ نہ دے، ووٹر کی تو بات ہی کیا ہے۔ اب تو انتخابات میں بعض مذہبی جماعتیں ایسے امیدواروں کو بھی میدان میں لے آتی ہیں جو ووٹر کے شرائط پر بھی پورے نہیں اترتے، بلکہ مختلف حوالوں سے نا پسندیدہ افراد بھی ان کے امیدوار بن جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ سینیٹ میں پیسوں کے بل بوتے پر ایسے بے اعتبار لوگوں کو بھی نواز دیا جاتا ہے، جو پلک جھپکتے جماعتیں بدلنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور پھر جب یہ جماعتیں انتخابات یا انتخابات کے بعد حکومت سازی کے عمل میں شریک ہوتی ہیں تو ان جماعتوں سے اتحاد کرتی ہیں جو سر تاپا لبرل ہوتی ہیں اور یہ لبرل جماعتیں اسلام کو انسان کی نجی زندگی کا معاملہ سمجھتی ہیں۔ 1952 میں الازہر یونیورسٹی مصر کے علما نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ عورت کو ووٹ دینے اور مقننہ میں بیٹھنے کا حق نہیں۔ ہماری مذہبی جماعتیں نہ صرف خواتین سے ووٹ لیتی ہیں، انہیں امیدوار بناتی ہیں بلکہ ان کی سربراہی میں کام کرتے ہوئے انہیں خوشی اور فخر محسوس ہوتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ مذہبی جماعتیں ان دینی تنظیموں اور شخصیات کی طرح جو اصلاح امت کا فریضہ انجام دے رہی ہیں، اپنا کام کرتیں اور مسلمانوں کی تربیت کرتیں۔ اگر 60 سال میں وہ سب کچھ جو مذہبی جماعتوں نے کیا، نہ کرتیں اور دو چار وزارتوں کے چکر میں رہنے کی بجائے اپنے اصل مقصد کیلئے بروئے کار آ جاتیں، تو شاید آج ایسی قوم تیار ہو چکی ہوتی، جو ان سے بیزاری کے اظہار کی بجائے ان پر اعتماد کر لیتی اور ممکن ہے کہ اس صورت میں وہ انتہا پسند تنظیمیں بھی وجود میں نہ آتیں جو آج سیاسی جماعتوں کی طرح مذہبی جماعتوں سے بھی نالاں اور ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔
آئیے ایک نظر مذہبی جماعتوں کی انتخابی کارکردگی پر ڈالتے ہیں۔ پاکستان میں پہلے عام انتخابات 1970 میں ہوئے۔ قومی اسمبلی کی 313 نشستیں تھیں جن میں 13 خواتین کیلئے مخصوص تھیں۔ عام نشستوں میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے 160، پیپلز پارٹی نے 81، دیگر غیر مذہبی جماعتوں نے 41 جبکہ مذہبی جماعتوں نے صرف 18 نشستیں حاصل کیں۔ ان میں جے یو آئی ہزاروی گروپ کی 7، جے یو پی کی 7 اور جماعت اسلامی کی 4نشستیں شامل ہیں۔
1977 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو 200 میں سے 155 نشستوں پر کامیابی ملی جبکہ قومی اتحاد نے 36 نشستیں حاصل کیں۔ یہ 36 نشستیں صرف مذہبی جماعتوں کی نہیں تھیں، اس میں سیکولر اور غیر مذہبی جماعتیں حصہ دار تھیں۔ بہرکیف یہ انتخابات دھاندلی کے الزام کے باعث تسلیم نہیں کئے گئے، لیکن مبصرین کے مطابق بھٹو صاحب اگر دھاندلی نہ بھی کرتے تو بھی پیپلز پارٹی اکثریت حاصل کر لیتی۔ طویل آمریت کے بعد جب 1988 میں انتخابات ہوئے تو عوام نے ایک مرتبہ پھر مذہبی جماعتوں کو مسترد کر دیا۔ 207 عام مسلم نشستوں میں 94 نشستیں پیپلز پارٹی نے حاصل کر لیں جبکہ جے یو آئی فضل الرحمن گروپ 7 اور درخواستی گروپ صرف ایک نشست حاصل کر سکا۔ جماعت اسلامی، آئی جے آئی کا حصہ تھی۔ آئی جے آئی کو 54 نشستیں ملیں، جن میں ماسوائے چند نشستوں کے تمام پر مسلم لیگ نواز شریف اور دیگر غیر مذہبی جماعتوں کا قبضہ تھا۔ متحدہ قومی موومنٹ جیسی لبرل جماعت اس انتخابات میں بڑی قوت بن کر ابھری اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے بعد اس نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آئی جے آئی جس میں جماعت اسلامی شامل تھی، سندھ سے ایک بھی صوبائی نشست حاصل نہ کر سکی جبکہ دیگر مذہبی جماعتیں بھی یہاں شکست فاش سے دوچار ہوئیں اور ان کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ سندھ بالخصوص کراچی، حیدرآباد مذہبی جماعتوں کے شہر کے حوالے سے معروف تھے۔ ان شہروں میں ایم کیو ایم کے آنے کے بعد مذہبی جماعتوں کا سیاسی نان و نفقہ بند ہوا اور وہ اب انتخابی عمل میں محض تماشائی کے کردار تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ ملک کے مشکوک ترین 1990 کے انتخابات میں بھی مذہبی جماعتیں مات کھا گئیں۔ جے یو آئی 6 اور جے یو پی کوئی نشست حاصل نہ کر سکی۔ 1993 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 86، مسلم لیگ (ن) نے 72 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی۔ ان انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے کُل 195 امیدواروں نے حصہ لیا لیکن ان میں صرف 9 امیدوار کامیاب ہو سکے اور یہ کامیابی بھی دیگرجماعتوں سے انتخابی ایڈجسٹمنٹ کا نتیجہ تھی۔ پورے ملک سے مذہبی جماعتوں نے صرف 10 لاکھ 91 ہزار ووٹ حاصل کئے حالانکہ مسلم لیگ (جونیجو) جیسی چھوٹی جماعت نے 9 لاکھ 72 ہزار ووٹ حاصل کر لئے تھے۔ ان انتخابات میں تمام مذہبی جماعتوں کو مجموعی طور پر صرف تین فیصد ووٹ ملے۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں بھی عوام نے مذہبی جماعتوں کو مسترد کر دیا اور مذہبی اتحادوں کے مجموعی طور پر 402 میں سے صرف 15 امیدوار کامیاب ہوئے۔ 1996 کے انتخابات بھی مذہبی جماعتوں کیلئے کوئی نوید لے کر نہیں آئے۔ 2008 کے انتخابات میں بھی مذہبی جماعتوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ یہاں تک کہ جماعت اسلامی نے انتخابات سے راہ فرار ہی میں غنیمت سمجھی۔ پاکستانی سیاسی تاریخ شاہد ہے کہ عوام کو جب بھی آزادانہ انتخاب کا موقع ملا، انہوں نے مذہبی جماعتوں کو مسترد کر دیا۔ پاکستانی مذہبی جماعتیں جو پوری دنیا پر اپنا اپنا پرچم گاڑھنا چاہتی ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اس حقیقت پر غور فرمالیں کہ جب انہیں اپنے ملک کے عوام حق حکمرانی کیلئے اہل نہیں سمجھتے، تو دنیا بھر کے عوام آخر انہیں ان کی کس ادا پر اپنے اپنے ممالک کا اختیار پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دینگے!!
تازہ ترین