• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منفرد آرکیٹیکچرل ڈیزائن کی حامل تیان جن بن ہائی لائبریری

تیان جن بن ہائی لائبریری

ادب کےنوبل انعام کے لیے نامزدگی حاصل کرنے والےنامورادیب جارج لوئس بورجیس نے 1941ء میں اپنا معروف افسانہ ’’دی لائبریری آف بابل‘‘ تحریر کیا تھا، جس میں انہوں نے ایک ہی جگہ ،ایک ہی چھت تلے واقع کتابوں کی وسیع کائنات کا ذکر کیا۔ اگر بورجیس کی اس تخیلاتی دنیا کا مادی روپ دیکھنا ہو تو بلاشبہ وہ شمال مشرق چین کے شہر تیان جن میں واقع تِیان جِن بِن ہائی لائبریری Tianjin Binhai Library) ) ہے، جسے حال ہی میں تعمیرکیا گیا اور وہ اپنے منفرد آرکیٹیکچرل ڈیزائن کی وجہ سےپوری دنیامیں کتاب دوستوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنائے ہوئے ہے۔

بیجنگ کےقریب واقع اس حیران کن خوبصورت لائبریری کا ڈیزائن ڈچ فرمMVRDV نے بنایا ہے۔اپنی غیر روایتی ساخت اور بناوٹ کے باعث اس لائبریری کو مستقبل کی تعمیرات کا اہم ماڈل مانا جا رہا ہے، اس عمارت کےٹیرس کو ماڈیولر ہاؤسنگ کےتصور پر تعمیر کیا گیا ہے۔ نچلی منزل سے اوپری منزل تک خم دار لہروں کے اندازمیںٹیرس کی قطاریںاس طرح بنائی گئی ہیں کہ مکمل اسٹرکچر انسانی آنکھ کا سابن جاتا ہے۔ آنکھ کا یہ ڈیزائن آپ کولائبریری کی پوری عمارت میں نمایاں دکھائی دے گا۔اگر اسے لائبریریوں کے لیے انقلابی ڈیزائن تسلیم نہ بھی کیا جائے تو آپ شکل و شباہت کے معاملے میںاسے نفیس اورنرم ضرور پائیں گے۔کیتھیڈرل معیار کے بنائے گئے وسیع و کشادہ سفید خمدارٹیرس کی قطار میں کتابیں اس طرح سجی ہوئی ہیں کہ آپ جس طرف سے بھی جائیںبہت سہولت سے اپنی پسندیدہ کتاب تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔کتابوں کے لہردار شیلف ایسا سماں باندھتے ہیں جیسے کتابیں سمندر کی لہروں پر تیر رہی ہوں۔ روایتی لائبریری شیلفس کے برعکس انہیں عمارت کے مرکز میں سجایا گیا ہے، جس کا مکمل اندرونی ڈیزائن سفید گول گنبد کی طرح ہے، جو دیکھنے والوں پر اس طرح سحر طاری کرتا ہے جیسے وہ کسی خلائی مخلوق کے طیارے کی سیر کر رہے ہوں۔

عمارت کے درمیان موجود یہ کتابیںبیضوی و کروی (Oval and Spherical angle)زاویہ پیش کرتے ہوئے کسی بھی طرح روایتی تاثر پیش نہیں کرتیں۔ لائبریری میں قدم رکھتےہی اس کی انفرادیت آپ کو حیرت زدہ کردیتی ہے۔اس لائبریری کو مستقبل کی پہلی لائبریری قرار دیا جا رہا ہے، جہاں آپ چلتے پھرتے اپنی من پسند کتاب کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔عمارت کے درمیان میں کروی زاویے کے ساتھ گول سیڑھیاں نیچے سے شروع ہوکر اوپری منزل تک چلی جاتی ہیں۔اس لائبریری کا قیام ان کوششوں کا تسلسل ہے جس کے تحت تِیان جِن شہرکو ثقافتی مرکز کے طور پر اجاگر کیا جا رہا ہے، جہاں لوگ آکر نہ صرف مطالعہ کریں بلکہ سماجی روابط بھی استوار کرتے ہوئے ثقافتی ہم آہنگی کو پروان چڑھائیں۔یہاں صرف کتابیں ہی نہیں بلکہ عمارت کے ساتھ منسلک ایک پارک بھی ہے جہاں کھلی فضا میں فطرت سے ہم آغوش ہوکر مطالعے کے کیف و سرور اور تعلقاتِ عامہ اور دوستی کے رشتے کو مضبوط کیا جاسکتاہے۔یہ بات تو طے ہے کہ ایسی منفرد لائبریری دنیا میں کہیں نہیں، لیکن اس کی تعمیر پر کیا لاگت آئی ہے اس بارے میں ابھی نہیں بتایا گیا، تاہم پاکستانیوں کے لیے یہ سرشاری و خوشی کا مقام ہے کہ ان کے دوست ملک میں ایسی شاندار لائبریری موجودہے، جو چین کی علم دوستی کا جیتا جاگتا شاہکار ہے۔اس کاوش کو دیکھتے ہوئے بلاشبہ یہ امید کی جاسکتی ہے کہ چین ہمیں بھی ایسی شاندار لائبریری کا تحفہ دے گا اور توقع ہے کہ سی پیک کے شاندار منصوبے میں علمِ شہر پر مبنی ایسی لائبریری ضرور بنے گی۔لائبریری کی عمارت میں داخل ہوتے ہی آپ کو آنکھ کی شبیہ پر مبنی تھری ڈی ٹیرس نظر آئیںگے، جن کی رو سے اسے آئی لائبریری بھی کہا جاتا ہےاور اسے آپ لندن آئی کا متبادل بھی قرار دے سکتے ہیں۔یہ لائبریری بِن ہائی کلچرل سینٹر کا حصہ ہے۔پانچ منزلہ لائبریری کاکل رقبہ33,700 مربع میٹر ہے۔یہاں کتابوں کی تعداد12لاکھ ہے اور110 افراد کی گنجائش والا ایک آڈیٹوریم بھی ہے۔ پہلی اور دوسری منزلیں لاؤنج اور ریڈنگ رومز پر مبنی ہیں۔ان منزلوں کے اوپر کمپیوٹر رومز،میٹنگ رومز اور دفاتر ہیں۔ اس تعمیراتی عجوبہ کو دیکھنے کے لیے روزانہ دس ہزار لوگ قطار بناکر کھڑے ہوتے ہیں۔

تازہ ترین