• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جادوئی پانی

شیخ محمد اسماعیل

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ، کسی جنگل میں ایک لکڑہارا اور اس کی بیوی ہنسی خوشی رہتے تھے۔ دونوں بہت بوڑھے اور غریب تھے۔ لکڑہارا دن بھر سخت محنت مشقت کرتا، لکڑیاں کاٹتا اور پھر شام کو شہر جاکر انہیں بچ دیتا۔ لکڑیاں بیچ کر جو رقم اسے ملتی، اس سے ان کا گزر بسر ہوتا تھا۔ لکڑہارے کی بیوی بھی اس کا ہاتھ بٹاتنے کے لیے لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرتی تھی۔

ایک روز لکڑہارا معمول کے مطابق جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہا تھا کہ، اسے بہت پیاس محسوس ہوئی۔ پانی کی تلاش میں وہ ادھر اُدھر دیکھنے لگا کہ، کوئی کنواں یا تالاب مل جائے تو پانی پی لوں مگر کوئی کنواں یا تالاب نظر نہ آیا۔ اس نے سوچا کہ ’’کچھ دور جا کر پانی تلاش کرتا ہوں، شاید پانی مل جائے‘‘۔ یہ سوچ کر اس نے کلہاڑی ایک جانب رکھی اور پانی کی تلاش میں نکل گیا۔وہ پانی کی تلاش میں کچھ دور نکل گیا۔

تھوڑی دیر پانی تلاش کرتے کرتے اُسے ایک تالاب نظر آیا۔ جسے جنگل میں اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ تالاب صاف اور ٹھنڈے پانی سے بھرا ہوا تھا۔ پانی کو دیکھ کر بوڑھے لکڑہارے کی جان میں جان آئی۔ اس نے تالاب کے کنارے بیٹھ کر دو تین چلو پانی کے پئے۔

خدا کی قدرت! پانی پیتے ہی بوڑھے لکڑہارے کے بدن کی ساری جھریاں جاتی رہیں۔ سر کے سفیدبال سیاہ ہوگئے۔ پہلے منہ میں ایک بھی دانت نہ تھا۔ اب تمام دانت آگئے۔ اور بوڑھا لکڑہارا آن کی آن میں جوان ہٹاکٹا آدمی بن گیا۔

لکڑہارا بہت حیران ہوا کہ ایکاایک یہ کیا ہوگیا۔ اُس نے جھک کر تالاب کے صاف پانی میں اپنا عکس دیکھا تو اس کی خوشی کاٹھکانہ رہا، وہ پہلے کی طرح جوان ہوگیا تھا۔ خوشی کی انتہا اتنی تھی کہ لکڑیاں وہیں جنگل میں چھوڑ کر ، خوشی سے اچھلتا کودتا گھر آگیا۔ لکڑہارے کی بیوی نے اپنے بوڑھے شوہر کے بجائے جوان آدمی کو گھر پر دیکھ کر گھبرا گئی۔ مگر جب لکڑہارے نے تفصیل بتائی کہ، میں جادو کا پانی پی کر جوان ہوگیا ہوں تو وہ بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی کہ، مجھے بھی جلد سے اس تالاب کا پتا بتاؤ، میں ابھی وہاں جاتی ہوں اور جوان ہو کر واپس آتی ہوں۔ پھر ہم دونوں بڑے مزے سے سکون کی زندگی بسر کریں گے۔

لکڑہارے نے اسے پتا بتاتے ہوئے کہا کہ، ٹھہرو میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں ، مگر اس کی بیوی نے ایک نہ سنی اور کہا کہ، نہیں تم تھک گئے ہوگے اس لیے گھر آرام کرو، میں خود جا کر پانی پی آؤں گی۔

اتنا کہہ کر وہ اسی وقت جنگل کی طرف چلی گئی اور تھوڑی دیر میں تالاب کے پاس پہنچ گئی۔

تالاب کا پانی اسی طرح صاف و شفاف تھا۔ وہ خوشی خوشی اس کے کنارے بیٹھ گئی۔ اس نے سوچا میں جتنا زیادہ پانی پیوں گی۔ اُتنی ہی زیادہ جوان ہوجاؤں گی۔ یہ سوچتے ہی اس نے جلد جلد پانی پینا شروع کیا اور پیٹ بھر کر پانی پیالیا۔

ادھر لکڑہارا گھر پر اپنی بیوی کا انتظار کرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ، بہت دیر ہوگئیاس کی بیوی اب تک گھر نہیں پہنچی، کہیں وہ کسی مشکل میں نہ پڑگئی ہو۔ یہ سوچ کر لکڑہارا پریشانی کی حالت میں اسے ڈھونڈنے نکلا، پر اس کی بیوی اسے کہیں نہ ملی، تو وہ تالاب کی طرف کے آس پاس اسے تلاش کرنے لگا۔ اس کے پاس ایک درخت کے نیچے اُسے اپنی بیوی کے کپڑے پڑے ہوئے نظر آئے تو وہ دوڑ کروہاں گیا۔

دیکھتا کیا ہے کہ ،ایک چھوٹی سی بچی جو کوئی دوڈھائی برس کی معلوم ہوتی تھی۔ کپڑوں میں لپٹی ہوئی پڑی ہے۔ قصہ یہ ہوا کہ ،لکڑہارے کی بوڑھی بیوی نے حرص میں آکر جادو کا پانی ضرورت سے زیادہ پی لیا کہ وہ جوانی کی عمر سے گزرکر بچپن کے زمانے میں پہنچ گئی ۔ وہ جوان ہونے کی بجائے چھوٹی سی بچی بن گئی۔ اگر وہ پیٹ بھر کر پانی پینے کے بجائے دو تین گھونٹ پی کر گھر چلی آتی تو جوان بن جاتی۔ مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ چھوٹی بچی نے بہت رنج کے ساتھ لکڑہارے کی طرف دیکھا اور بلک بلک کر رونے لگی۔ لکڑہارا اس کی صورت دیکھتے ہی بات کو سمجھ گیا۔ اس نے بچی کو گود میں اُٹھایا اور غمگین گھر کی طرف چلادیا۔

تازہ ترین