• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
پاکستان کی سیاست کا کچرا لندن کے کوچہ و بازار میں آنکلا ہے ۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ن لیگی کارکنوں پر دھاوا ہی نہیں بولا بلکہ نواز شریف کے ایوان فیلڈ فلیٹس پر بھی حملہ کردیا ان کا خیال ہے کہ اب نیب کے فیصلے کے بعد یہ پراپرٹی ان کی ملکیت بن چکی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ان فلیٹس کے سامنے احتجاج ہو رہا ہے۔ احتجاج ان کا حق ہے لیکن دونوں پارٹیوں کے کارکنوں کی آپس میں جو گالی گلوچ جاری ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم کتنے مہذب اور سیاسی طور پر کتنے تربیت یافتہ ہیں۔ یہ تمام وہی لوگ ہیں جو ملک کا نظم و نسق چلانے کے دعویدار ہیں یہ اس بات کے بھی شدت سے طلب گار ہیں کہ بیرون ممالک کے پاکستانیوں کو پاکستان میں ووٹ کا حق ملنا چاہئے۔ میں سوچتا ہوں ان کا حق ملے بغیر یہ عالم ہے۔ اگر انہیں یہاں سے ووٹ کا حق مل بھی گیا اور امیدوار بننا شروع ہوگئے تو لندن کی گلیوں کا کیا حال ہوناشروع ہو جائے گا۔ ہارنے والی پارٹی کہیں غصے میں 10ڈائوننگ سٹریٹ پر ہی حملہ اور قبضہ نہ کرلے۔ کوئی مزدوروں کی پارٹی سرمایہ دار طبقے پر دھاوا بولتی تو سمجھ میں آتی کہ یہ انقلابی عمل ہو رہا ہے ۔ یہ بے چارے کسی وژن اور ڈسپلن سے عاری کارکن اپنے لیڈروں کی اندھی تقلید میں ہوش گنوا بیٹھے ہیں۔ ان واقعات کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ یہ تمام عمل دراصل پاکستان میں قائم ہونے والی کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا حصہ ہے۔ تاہم پاکستان کے انتخابی عمل اور احتسابی عمل نے جو کہ دونوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں کئی پہلوئوں پر توجہ مرکوز کردی ہے اور تحفظات کے ساتھ ساتھ کئی سوالات بھی کھڑے کردیئے ہیں۔ پشاور میں اے این پی کی الیکشن مہم کے دوران ایک بم پھٹنے سے ہارون بلور سمیت 24 افراد جاں بحق ہوگئے۔ بم پھٹنے کے چند منٹ بعد ہی پولیس کی طرف سے بیان آگیا کہ یہ خود کش حملہ تھا جب کہ موقع پر موجود لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ بم پلانٹ یا نصب کیا گیا تھا۔ بہرحال یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے کون ہے۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ اے این پی کو 2013 اور اب 2018کے انتخابات میں کس طریقے سے روکا جارہا ہے۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ مذہبی جماعتوں کو جس طریقے سے کھلی چھٹی دی جارہی ہے یہ سب اسی کا نتیجہ ہے ۔ پہلے میں کہتا تھا کہ ہمارے اصل مقتدر حلقوں کو ان انتہا پسند مذہبی حلقوں کو کنٹرول کرنا چاہئے۔ اب سمجھ میں آرہی ہے کہ یہ مذہبی جنونی حلقے واقعی کنٹرول ہی میں ہیں اور اپنے کنٹرولروں کو ان کے مطلوبہ نتائج فراہم کرتے ہیں۔ انتخابات میں صرف 10دن رہ گئے ہیں اور پیپلزپارٹی کا احتساب بھی شروع ہوگیا ہے ۔ احتساب اور مقدمات شروع کرنے والے کہتے ہیں کہ ان کا سیاست میں کوئی تعلق نہیں ۔ ان مقدمات کو شروع کرنے کے لئے انہوں نے اس وقت کو مناسب سمجھا۔ ان محتسبوں کی بے نیازی پر صدقے جانے کو جی چاہتا ہے وگرنہ یہ کام کچھ عرصہ پہلے بھی شروع کیا جاسکتا تھا اور دو ہفتے بعد بھی، لگتا ہے ایجنڈا کچھ اور ہے اسی لئے لوگ الیکشن کے انعقاد کو مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ خفیہ والے اسے اپنی بڑی کامیابی سمجھ رہے ہوں گے۔ الیکشن وقت پرہوں یا ملتوی ہو جائے ۔ کہتے ہیں چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر کٹنا تو بہرحال خربوزے نے ہی ہے۔ نواز شریف بھی اپنی بیٹی مریم صفدر کے ہمراہ لاہور ائرپورٹ پہنچ گئے جہاں پر انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ انہیں اپنے استقبال کے لئے آنے والوں کا دیدار نصیب نہیں ہوانہ ہی دیدار کرنے والوں کو ائرپورٹ پہنچنے دیاگیا۔ پھر یہ شہر کو بند کرنے کا انتظامیہ کا فیصلہ اپنی سمجھ سے باہر ہے۔ نواز شریف کو اپنی جان بچانے اور اپنے اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف کو بڑھاوا دینے کے لئے اس وقت پیپلزپارٹی کے ساتھ کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ ہوسکتا ہے اندر خانے میں کوئی معاملہ چل بھی رہا ہو لیکن اگر نواز شریف کو واقعی ایک بڑی حمایت کی ضرورت ہے تو انہیں اپنے ماضی کی ایک ایک کرکے غلطیوں کے اعتراف کرنے چاہئیں اور قوم سے معافی مانگنی چاہئے ۔ جنرل ضیاء کے دور میں سرزد ہوئے تمام سیاسی جرائم، مارشل لاء کی حمایت 58-2Bکی حمایت ، طالبان کی حمایت اور جنرل ضیاء کے نظریہ ضرورت کی حمایت وغیرہ سب کی معافی مانگنی چاہئے اگر وہ اپنا اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا کردار بنانا اور ادا کرنا چاہ رہے ہیں تو اسی معافی سے اس کی اخلاقی بنیاد پیداہوگی، وگرنہ یہی سمجھا جائے گا کہ یہ سب کسNRO یا بارگین پیدا کرنے کے لئے کیا جارہا ہے اور پھر غلطیوں کے اعتراف سے کوئی چھوٹا نہیں ہوتا، سیاسی شفٹ میں ایسا تو کرنا پڑتا ہے۔ باقی الیکشن کے منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انعقاد پر عوام کے تحفظات اس لئے بھی ہیں کہ اے این پی کے علاوہ تین فریقین میں سے دو کو کونے میں لگانے کے واضح طور پر اقدامات نظر آرہے ہیں۔ سب کے لئے برابر کا میدان میسر نہیں جس سے یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان ان الیکشن کے بعد بھی کسی استحکام میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ البتہ وہ خفیہ ہاتھ جو خفیہ طور پر ہی اس صورتحال کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہیں یہ صورتحال اصل میں ان کے موافق تیار ہو رہی ہے جو کہ عوام کے مفاد کے متصادم ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر لیڈر شپ قابل اعتبار نہ رہے تو سیاسی کارکنوں پر بھاری ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ لیڈر شپ کی خوشامد کی بجائے خود کو بھی ایجوکیٹ کریں اور لیڈر شپ کو مزاحمت دیں اور غلط پالیسیوں پر انہیں روکیں۔ اسی عمل سے عوام بھی ایجوکیٹ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سب آئیڈیل ازم ہے جس کا پاکستان کی حقیقی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔
تازہ ترین