• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مستونگ میں بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے امیدوار نوابزادہ سراج رئیسانی کے قافلے میں بم دھماکے سے سراج رئیسانی سمیت 130افراد کی شہادت اور 200سے زائد افراد کا زخمی ہو نا اور بنوں میں جے یو آئی (ف) کے رہنما اور متحدہ مجلس عمل کے انتخابی امیدوار اکرم خان درانی کی جلسہ گاہ کے نزدیک بم دھماکے کے نتیجے میں 2بچوں سمیت5افراد کی شہادت کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ انتخابات کے دوران سیاسی جلسوں پر ہونے والے یہ حملے ان خدشات کو تقویت دے رہے ہیں جن کا اظہار پہلے سے ہی کیا جارہا تھا۔ دونوں حملے انتخابی ریلیوں پر ہوئے۔ سراج رئیسانی خطاب کیلئے اسٹیج پر آئے تو خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اکرم درانی انتخابی جلسے میں شرکت کے بعد قافلے کی صورت میں جارہے تھے کہ سڑک کنارے کھڑی موٹر سائیکل پر نصب بم پھٹ گیا۔ اس سے قبل پشاور میں اے این پی کے انتخابی امیدوار ہارون بلور کو نشانہ بنایا گیا۔ جس میں ان کے ساتھ 22افراد شہیدہوگئے۔ یوں حالات 2013کے انتخابات جیسے ہوتے جارے ہیں جب سیاسی جماعتوں کو ہی نشانہ بنایا گیا اور حالات اتنےخطرناک ہوگئے تھے کہ بعض سیاسی جماعتوں کے لئے جلسے جلوس تو کجا کارنر میٹنگز تک کرنا مشکل ہوگئی تھیں۔ حالات اب بھی اس نہج پر گامزن ہیں۔ دراصل کسی ذاتی یا سیاسی مقصد کے حصول کیلئے تشدد کا استعمال چند افراد یا کسی چھوٹے گروہ کی جانب سے ہو تو اسے عرف عام میں دہشت گردی کہتے ہے۔ چھوٹے گروپ کے لوگ بڑے گروپ کے لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ دہشت گردی کا اولین مقصد لوگوں کا خود پر اعتماد متزلزل کرنا اور انہیں عدم تحفظ سے دوچار کرنا ہوتا ہے۔ قصہ مختصر ہر وہ کارروائی دہشت گردی کے زمرے میں آئے گی جو دانستہ ہو، انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی ہو اور قانونی اعتبار سے مجرمانہ ہو۔ پاکستان عرصہ دراز سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور اس میں جتنا مالی و جانی نقصان اس کا ہوا ہے کسی دوسرے ملک کا نہیں ہوا۔ اگرچہ اس دہشت گردی میں مقامی راہ گم کردہ گروہ بھی شامل رہے تاہم اس کے ڈانڈے بیرونی قوتوں سے زیادہ ملتے ہیں۔ خاص طور پر صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں نے اپنا ہدف بنائے رکھا اور ملی وحدت توڑنے کیلئے لسانی اور فروعی حوالے سے بے شمار کارروائیاں کیں۔ ان دہشت گردوں کو دندان شکن جواب دینے اور ان کے خاتمے کے لئے ہماری مسلح افواج نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا اور شجاعت کی ایسی داستانیں رقم کیں جو دنیا کیلئے مثالی ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد آپریشن ردالفساد جاری ہے، جس کا مقصد ان سماج اور وطن دشمن عناصر کی گو شمالی ہے جو ہماری صفوں میں ہی موجود ہیں۔ انتخابات سے قبل یہ باتیں بھی گردش میں تھیں کہ بعض بیرونی قوتیں پاکستان میں الیکشن کے التوا کی سازش میں مصروف ہیں، وہ نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں کوئی مستحکم حکومت آئے اور سی پیک ایسے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچائے اس تناظر میں دیکھا جائے تو انتخابات کے دوران امیدواروں کو نشانہ بنانے کے عمل کے مقاصد کو سمجھنا چنداں دشوار نہ ہوگا۔ مستونگ میں ہونے والی ہلاکتیں اس لئے بھی زیادہ المناک ہیں کہ زخمیوں کو بروقت طبی سہولیات میسر نہ آئیں کہ متاثرہ مقام پر طبی امداد بہم پہچانے کی سہولیات موجود نہ تھیں۔ دہشت گردوں نے سیاستدانوںپر حملہ آور ہونے کا سلسلہ شروع کر کے گویا یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ جن کے اشاروں پر ناچتے ہیں ان کا مطمح نظرپاکستان میںالیکشن ملتوی کروا کے سیاسی انتشار پھیلانا اور ملک کو غیر مستحکم کرنا ہے، اس میں بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ بھی شریک کار دکھائی دیتی ہے کہ خطے میں اس کے مفادات بھی موجود ہیں۔ ان حالات میں ہمیں من حیث القوم دانش مندی، ملی جذبے اور حب الوطنی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ملکی سلامتی کے ادارے دشمن کے ارادوں سے بے خبر نہیں اور ہر محاذ پر دشمن کے دانت کھٹے کررہے ہیں، سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کو بھی اس وقت ایک دوسرے اور اداروں پر طعن و تشنیع کے نشتر آزمانےکے بجائے ملک کے مفاد میں افہام و تفہیم کی راہ پر چلتے ہوئے انتخابات کے پرامن انعقاد کو یقینی بنانا ہوگا۔ ملکی سلامتی کے اداروں کی ذمہ داری البتہ بڑھ گئی ہے کہ انتخابی سرگرمیاں جاری ہیں اوران میں کسی کو نشانہ بنانا دہشت گردوں کیلئے آسان ہوتا ہے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین