• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حملے، کملے، یملے، دیوانے
ہم اپنی زندگی میں کچھ حسین حماقتیں بھی کرتے ہیں کیونکہ طبعاً حسن پرست واقع ہوئے ہیں، بس اتنا سا قصور ہے جو ہمیں طرح طرح کے مصائب و آفات سے دوچار کر دیتا ہے، اس کے علاوہ ایک اور شوق اوکھلی میں سَر دینے کا بھی ہے جس کے بعد کہتے پھرتے ہیں؎
پھس گئی جان شکنجے اندر جیوں ویلن وچ گنا
رُو آکھے اَج رہو محمدؔ اج رہویں تے مناں
میاں محمد بخش کا یہ شعر آل سیزن ہے اس لئے ہمیں بار بار کوٹ کرنا پڑتا ہے دہشتگرد حملوں کا باعث بھی ہمارا کملا پن، یملا پن اور دیوانہ پن ہے، تھوڑا سا مڑ کر دیکھیں سب کچھ صاف نظر آ جائے گا، کیونکہ میڈیا نے تاریخ پاکستان حاضر وقت تک از بر کرا دی ہے، اب ہمارے کچھ کہنے لکھنے کی ضرورت نہیں، آج جو کچھ اردگرد یعنی ملکی ماحول میں دیکھ رہے ہیں، نیک اتنے ہیں کہ اپنے لئے سورئہ فاتحہ پڑھنے کے مستقل مواقع پیدا کر دیئے ہیں، افسوس، آنسو، سوگ کیا یہی کچھ ہو گا؟ یا کسی کو ’’بولو رام‘‘ کا موقع بھی فراہم کریں گے، حملوں کا موجب بھی ہمارے ماضی کے فیصلے ہیں، ہم نے امریکہ کو موقع دیا کہ وہ یہاں ’’مجاہدین‘‘ مستقبل کے دہشت گردوں کے لئے ٹھکانے بنائے، پھر ہمیں ہی دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام دے ’’کملے‘‘ اس لئے کہ ہمارے حکمران اکثر و بیشتر نہایت ’’عقلمند‘‘ رہے ہیں ، یملے اس وجہ سے کہ مانتے پوچھتے ایک غلط کام کرتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا تو دماغ ہی کام نہیں کرتا اور دیوانے ہونے کے اسباب ہماری شخصیت پرستی ہے، پیار پرستش انسان کو دیوانہ بنا دیتی ہے، اور اس دیوانگی کا فائدہ نام نہاد سیاسی قائدین اٹھاتے ہیں، ہماری سیاست میں مستقبل کی فکر سے زیادہ بریانی کا بھی رول ہے، کھیل تماشے نعرہ زنی اور رش پرستی نے ہمیں موت کے کنویں کا کھیل کھیلنے کی طرف راغب کیا۔
٭٭٭٭
نگران مہربان قدر دان
کون کہتا ہے کہ نگران حکومت صوبائی ہو یا وفاقی وہ نگرانی کا ہنر نہیں جانتے یہ الگ بات کہ ہم ان میں سے کسی کو نہیں جانتے، بس انہیں مانتے ہیں کہ ان کے باعث جملے میں خالی جگہ پُر ہو گئی، یہ تمام ہستیاں جو کیئر ٹیکرز کے روپ میں نگرانی کے فرائض انجام دے رہی ہیں نہایت معصوم اور کندہ نا تراش ہیں، رموز خسروی سے واقف نہیں، لیکن ان کی نیت نیک ہے اس لئے امور مملکت چل رہے ہیں، افسوس کہ ہم اپنا اعتبار کھو چکے ہیں ورنہ کب کسی مہذب ملک میں انتخابات کے لئے کیئر ٹیکر حکومت لائی جاتی ہے۔ 13 جولائی کا دن بخیر و خوبی گزر گیا، یہ الگ بات کہ پے در پے دھماکے ہوئے بیسیوں شہادت پا گئے، لا تعداد یتیم ہو گئے، درجنوں بیوہ ہو گئیں، سوگواری تو ایک کیفیت ہے چلی جاتی ہے مگر اس کے آفٹر شاکس ہولناک ہوتے ہیں، روتے تو ہم 1947سے لے کر آج تک رہے ہیں مگر پُر امن ماحول تو تھا، اب رونا بھی ہے اور آس پاس خاک و خون کا کھیل بھی جاری ہے، اب تو ’’کوئی‘‘ چین سےرونے بھی نہیں دیتا؟ بہرحال نگران ہم خوگران حمد سے تھوڑی سی تعریف بھی سن لیں کہ اگرچہ انہیں حکومتی پیچیدگیوں اور رموز حکمرانی کا علم نہ تھا پھر بھی وہ ڈنگ ٹپا رہے ہیں، اور 25جولائی تک اپنا ٹانگہ لے جائیں گے، یہی کیا کم ہے، دیکھنا تو یہ ہے کہ یوم انتخابات کیا نتائج لاتا ہے، کاشتکاروں کو ہدایات جاری کر دینی چاہئیں کہ زیادہ سے زیادہ چاول کاشت کریں کیونکہ ہم بریانی سیاست پر پل کر جواں ہوتے ہیں، اگر بریانی قحط پڑ گیا تو ہماری سیاست کا پہیہ کیسے چلے گا، ہم تو داد دیتے ہیں ان کو جو قائد کی محبت میں اپنی کار کشتی میں ڈال کر دریا عبور کر کے ریلی میں پہنچ گئے، اور کشتی چلا دی اور تاریخ فتح اندلیس دہرا دی گئی، بہرحال قوم شکر گزار ہے نگران حکومت کی کہ 13جولائی کو ضرورت سے بڑھ کر انتظامات کر کے ایک اہم دن فتح کر لیا۔
٭٭٭٭
کچی بستیاں پکے پاکستانی
چیف جسٹس نے کہا ہے:کچی آبادیوں میں غیر انسانی ماحول، حکومت نے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا، کچی آبادیاں کچی لسی کی طرح ہوتی ہیں، ان پر توجہ دینے سے پکی آبادیوں میں ٹھوس کام نہیں ہو سکتے، سرجن جب آپریشن کرتا ہے تو وہ چھوٹی موٹی خراب چیزوں کو نہیں دیکھتا پہلے وہ اس عضو کا علاج کرتا ہے جس سے زندگی کی تار جڑی ہوتی ہے، ہمارے قومی وجود میں سب سے زیادہ خرابی خط غربت سے نیچے کی کچی آبادیوں میں ہے۔ سب سے پہلے سرجن کو اس عضو ضعیف کی جراحی کرنا چاہئے تھی مگر نہ جانے اسے کیا سوجھی کہ اپنے شوق کے اعضاء کو ٹھیک کرنے لگا اور پہلی ترجیح کو پس پشت ڈال دیا، کچی بستیوں میں پکے پاکستانی رہتے ہیں اس لئے ان کی بستیوں کو کچا ہی رہنے دیا گیا، فکر ان پکی بستیوں کی ہے جن میں کچے پاکستانی یعنی نازک اندام پاکستانی رہتے ہیں، اس لئے چیف جسٹس اگر کچھ بستیوں کی طرف توجہ مبذول کرائیں گے تو بھی کوئی ان پکے پاکستانیوں بارے فکر مند نہیں ہو گا، جب بارش ہوتی ہے تو ان کچی بستیوں کے مکین اتنے پکے ہوتے ہیں کہ ان کے کچے کوٹھے مر جاتے ہیں یہ پھر بھی زندہ رہتے ہیں، یہ بھی ایک وجہ ہے ان کے لئے کوئی ٹھوس کام نہ کرنے کی الغرض، بارش ہو آندھی ہو کہ طوفان فولاد ہے مومن، اگر اورنج ٹرین، بائی پاسوں، انڈر پاسوں، میٹرو پر فولاد بچھانے کی جگہ پہلے ان کچی بستیوں پر پیسہ خرچ کیا جاتا تو یہ پکی ہوتیں، مگر مجبوری یہ تھی کہ زیادہ ضروری کام کچے پاکستانیوں کو پکا کرنا تھا، اسے عرف عام میں حب الوطنی کہتے ہیں، تشویش کی کوئی بات نہیں یہ کچی بستیاں ایک مستحکم پاکستان کی علامت ہیں۔
٭٭٭٭
کیا پاکستان سب جیل ہے؟
....Oنواز شریف، مریم لاہور پہنچنے پر گرفتار۔
وہ اب گرفتار ہوئے ہیں، اہل پاکستان 70برس سے سب جیل میں ہیں۔
....Oسینیٹ سیاستدانوں کی سیکورٹی پر اظہار تشویش، نگراں حکومت پر شدید تنقید۔
غیر نگران حکومت ہوتی تب یہ تنقید زیادہ شدید ہوتی، اس لئے نگراں حکومت ہی کو غنیمت جانئے۔
....O بم حملوں میں 135شہید۔
حق مغفرت کرے ہم بھی کیا آزاد قوم ہیں۔
....Oسہیل وڑائچ:ن لیگ کا نواز شریف کے استقبال کے لئے ریلی نکالنے کا فیصلہ سیاسی فائدہ کے لئے تھا۔
وڑائچ صاحب کی سیاسی آنکھ سکس بائی سکس ہے۔

تازہ ترین