• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب جب انتخابات چرائے گئے...خواجہ محمد آصف…رکن قومی اسمبلی... (گزشتہ سے پیوستہ)

اجلاس کے دوران انہیں اسلام آباد میں تمام تر سہولتوں سے آراستہ رہائش مہیا کی جاتی۔ 1990ء کے ”دھاندلی والے انتخابات“ کے نگران وزیراعظم جناب غلام مصطفی جتوئی چند ماہ بعد ہی نوازشریف کے خلاف بے نظیر صاحبہ کے سیاسی اتحادی بن گئے۔ نوازشریف کے خلاف اپریل 1993ء میں ایوانِ صدر کی سازشوں کے دوران بے نظیر صاحبہ لندن سے سیدھی ایوانِ صدر آئیں اور اپنے ارکانِ اسمبلی کے استعفے صدر کے قدموں میں رکھ دیئے۔ نوازشریف حکومت کی برطرفی کے بعد جناب آصف زرداری اسی صدر غلام اسحق خاں سے وزرات کا حلف لے رہے تھے اور مزید دلچسپ بات یہ کہ یہی اصغر خاں 1993ء کے عام انتخابات میں نوازشریف کے انتخابی حلیف تھے۔ ان کے سیکرٹری جنرل خورشید محمود قصوری نے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور بعد میں اپنے اتحادیوں سمیت مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ جن انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا جارہا ہے انہی کے نتیجے میں منظور احمد وٹو پنجاب اسمبلی کے سپیکر بنے جو نوازشریف حکومت کی برطرفی کے بعد ایوانِ صدر کے ساتھ ساز باز کرکے غلام حیدر وائیں کی جگہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ سپریم کورٹ سے نوازشریف حکومت کی بحالی کے بعد یہی منظور وٹو بے نظیر بھٹو صاحبہ کے ساتھ مل کر ایوانِ صدر کی آشیر باد کے ساتھ نوازشریف حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ اس سب کچھ کے عینی شاہد کبیر واسطی کے بقول وٹو نے لانگ مارچ کے لئے زکوٰة فنڈ سے دس کروڑ روپیہ نکلوایا جبکہ خود وٹو صاحب کی اپنی خود نوشت ”جرمِ سیاست“ کے مطابق ”لانگ مارچ کے لئے فنڈز کی ضرورت تھی طے پایا کہ سینیٹر گلزار کے نام سے پنجاب بینک سے قرضہ حاصل کیا جائے لیکن بینک کے چیئرمین تجمل حسین نے سنیٹر گلزار کے ڈیفالٹر ہونے کی وجہ سے قرضہ دینے سے انکار کردیا۔ لانگ مارچ کو آرگنائز کرنے والی ہماری ساتھی تنظیموں کی طرف سے مزید وسائل مہیا کرنے پر زور دیا جارہا تھا۔ ان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے رقم اکٹھا کرنے کے لئے نامناسب اور ناواجب ذرائع استعمال کئے گئے اس پر جتنا بھی سوچتا ہوں میرے ضمیر کی خلش اور شرمندگی میں اضافہ ہوتا ہے۔“
1990ء کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے جناب کائرہ 1993ء کے انتخابات کے متعلق کیا کہیں گے جو نوازشریف کی برطرفی کے بعد ہوئے اور جن میں نوازشریف کی واپسی کا راستہ روکنے کے لئے ہر حربہ اختیار کیا گیا۔ مسلم لیگ نے یہ الیکشن تنہا لڑا۔ اس کے باوجود اس کے مجموعی ووٹ پیپلزپارٹی کے ووٹوں سے 3 لاکھ زائد تھے۔ مسلم لیگ کے ووٹ 31 لاکھ 23 ہزار 244 (39.72 فیصد) اور پیپلزپارٹی کے 28 لاکھ 19 ہزار 634 (38.24 فیصد) قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی نشستیں صرف 16 زائد تھیں جبکہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ کی 106 اور پیپلزپارٹی کی 94 نشستیں تھیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کے ساتھ یہاں مسلم لیگ کی حکومت کا راستہ روک دیا گیا، صوبہ سرحد میں پیرصابر شاہ کی مسلم لیگی حکومت جوڑ توڑ کے ذریعے ختم کردی گئی۔ یونس حبیب کے بقول اس میں اس کا پیسہ بھی کام آیا۔ 1993ء کے انتخابی نتائج کے حوالے سے ایک اور دلچسپ بات یہ کہ انتخابی نتائج آنا شروع ہوئے تو مسلم لیگ جیت رہی تھی۔ محترمہ نے رات گئے بی بی سی سے گفتگو میں دھاندلی کا الزام لگا دیا۔ صبح دم پیپلزپارٹی کی کامیابی کے اعلان کے ساتھ ایک مختلف منظر تھا۔ دور دراز کے دیہی علاقوں سے آنے والے ”انتخابی نتائج“ کو پیپلزپارٹی کی جیت کا سبب قرار دے دیا گیا اور کیا کائرہ صاحب کو 2002ء کے انتخابات کے متعلق بھی کچھ یاد دلانے کی ضرورت ہے جن میں مشرف کی پروردہ چوہدری برادران کی قاف لیگ کو جتوانے کے لئے تمام حربے اختیار کئے گئے جبکہ 2008ء کے انتخابات میں دھاندلیوں کا الزام خود چودھری برادران دیتے رہے ہیں؟ باقی رہی اسٹیبلشمنٹ سے سازباز کی بات تو اس حوالے سے بھی تاریخی حقائق واشگاف ہیں۔ ہم فیلڈمارشل ایوب اور یحییٰ خاں کے دور کی بات نہیں کرتے، ضیاء الحق کے بعد 1988ء میں قومی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کو بعض یقین دہانیوں کے ساتھ وزرات عظمیٰ کے لئے محترمہ کی نامزدگی، نوازشریف کی پہلی اور دوسری حکومت کے خلاف اسٹیبلشمنٹ سے معاملات، 12 اکتوبر 1999ء کی فوجی کارروائی کی حمایت اور مشرف کو تعاون کی پیشکش، 2006-07 میں ایک طرف میثاقِ جمہوریت اور دوسری طرف امریکی اور برطانوی آشیر باد کے ساتھ جنرل مشرف سے رابطے جن کا نتیجہ 5اکتوبر کو این آر او کی صورت میں نکلا اور اگلے روز مشرف کو انہی اسمبلیوں سے صدارت کے لئے منتخب ہونے میں اس طرح تعاون کہ حزب اختلاف کی دیگر جماعتیں اسمبلیوں سے مستعفی ہوگئی تھیں لیکن پیپلزپارٹی نے استعفوں سے انکار کردیا۔
18 فروری 2008ء کے انتخابات کے بعد ہم نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔ ہم ماضی کو کریدنا نہیں چاہتے تھے لیکن جنابِ کائرہ اور پیپلزپارٹی کے دیگر اصحاب کی پروپیگنڈہ مہم کی حقیقت واضح کرنے کے لئے کچھ تاریخی حقائق کی یاددہانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تین اہم نکات ہیں:-
جنرل اسلم بیگ اور جنرل درانی کیخلاف کارروائی۔
رقوم کی وصولی کی تحقیقات۔
ایوانِ صدر کو پارٹی بازی سے پاک رکھنے کا حکم۔
فیصلہ آئے چوتھا ہفتہ شروع ہونے کو ہے لیکن حکومت نے ان تینوں احکامات میں سے کسی ایک پر بھی ذرہ برابر پیشرفت نہیں کی۔ سارا زور شریف برادران کی کردار کشی پر ہے۔ کائرہ صاحب کی حکومت کچھ اور نہیں کر سکتی تو رقم کی وصولی کی تحقیقات ہی شروع کردے۔ جنرل درانی والی مبینہ فہرست کے بعض نیک نام لوگ تو اللہ کو پیارے ہوگئے جو زندہ ہیں ان کے خلاف ہی تحقیقات سہی، نوازشریف تو رحمن ملک کی ایف آئی اے کے ذریعے ہونے والی تحقیقات کا سامنا کرنے کو بھی تیار ہیں۔
تازہ ترین