• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں ایم کیو ایم کے بانی وقائد الطاف حسین کی اس جدوجہد کا معترف ہوں جو انہوں نے تقسیم ہند کے نتیجے میں اس دھرتی پر آنے والے مسلمانوں اور ان کی اولادوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے اور ان کے حقوق کی آواز بلند کرنے کے لئے کی۔ اس ملک کی اپنے خون سے آبیاری کرنے والے یہ اصل میں بانیان پاکستان کہلانے کے مستحق ہیں ، آج یہ آواز اس قدر توانا ہے کہ کسی بھی ایوان میں اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں اور اب ان کی تنظیم صرف پورے ملک کے مظلوموں کے حق میں آواز اٹھا رہی ہے۔ یہ تنظیم ملک کے ہر مسئلے پر نہ صرف بات کر رہی ہے بلکہ مسائل کا حل بھی تجویز کر رہی ہے جس کی جدوجہد کی ہمیں دل سے قدر کرنی چاہئے۔
ہم ان لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کو کیسے بھول سکتے ہیں جنہوں نے دو قومی نظرئیے کے لئے اپنی جانیں‘ مال قربان کئے اور یہ جاننے کے باوجود کہ جہاں وہ رہتے ہیں وہ علاقے پاکستان کا حصہ نہیں بن سکیں گے مگر انہوں نے قیام پاکستان کے لئے تحریک چلائی اور اپنا سب کچھ وار کر پاکستان آئے۔ میں خود بھی اس وقت آگ اور خون کا دریا عبور کر کے پاکستان پہنچا تھا۔
وہ نظریہ جس کی اساس پر مملکت خداداد پاکستان کا قیام عمل میں آیا اسے سادہ لفظوں میں ہم بیان کر سکتے ہیں کہ مسلمان‘ ہندوؤں سے ایک جداگانہ قوم ہیں۔
قائد اعظم نے فرمایا تھا ”جب ہندوستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا، وہ جداگانہ قوم کا فرد ہوگیا۔ ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی“۔
یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ اسلام اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا طرز معاشرت مختلف ہے۔ زبان و ادب‘ فنون لطیفہ‘ فن تعمیر رسم و رواج گویا ہر معاملے میں اسلام کا اپنا نقطہ نظر ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ قدیم آریاؤں کے بعد جو قوم سر زمین ہند میں وارد ہوئی وہ کچھ ہی عرصہ کے بعد اپنی انفرادیت کھو بیٹھی۔ یہ صرف مسلمان ہی تھے جنہوں نے ہر دور میں اپنا تشخص برقرار رکھا۔ اگرچہ مسلمانوں کے تشخص کو ختم کرنے کے لئے سازشیں بھی ہوتی رہیں جن کی ایک مثال اکبر اعظم کے دورکا ”دین الٰہی“ روشناس کرانا بھی تھا لیکن مسلمانوں میں دین اسلام کی تجدید و احیاء کیلئے حضرت مجدد الف ثانی جیسے مشاہیر اٹھتے اور مسلمانوں کا تشخص مٹانے کی سازشوں پر پانی پھیرتے رہے ہیں۔
1930ء میں اسی مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے الہٰ آباد میں علامہ سر اقبال نے اپنے خطاب میں کہا تھا ”اب تک ہم نے باہمی تعاون و اشتراک کی جس قدر کوششیں کی وہ سب ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ اگر فرقہ وارانہ امور کے ایک مستقل اور پائیدار تصفیے کے اس بنیادی اصول کو تسلیم کر لیا جائے کہ مسلمانان ہند کو اپنی روایات و تمدن کے تحت اس ملک میں آزادانہ نشو و نما کا حق حاصل ہے تو وہ اپنے وطن کی آزادی کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے“۔
اپنے اس خطبے میں علامہ اقبال نے دو قومی نظریئے کی بنیاد پر ہندوستان کے اندر ایک اسلامی ہندوستان قائم کرنے کی تجویز پیش کی جسے بعد میں چوہدری رحمت علی نے لفظ پاکستان سے تعبیر کیا۔ دو قومی نظریئے کی بنیاد پر ہی 14/اگست1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا اور پاکستان کے قیام کا اعلان 14/اگست اور 15/اگست کی درمیانی شب کیا گیا۔ جس کے فوراً بعد حد بندی کی گئی۔ قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں کو اس کی بڑی قیمت ادا کرنا پڑی۔ ہندو انتہا پسندوں اور سکھوں نے بھی اپنے اپنے علاقوں میں مسلمانوں کو بے دریغ شہید کیا اور مسلم اکثریتی علاقوں سے مسلمانوں کو نکالنے اور انہیں اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازشیں بھی ہندو لیڈروں نے بنائیں تاکہ تمام مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کا حصہ نہ بن سکیں۔ حیدرآباد دکن دیگر ریاستوں پر بھارت نے طاقت کے زور سے قبضہ جمالیا۔
پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی قرارداد مقاصد میں کہا گیا کہ پاکستان کی حکومت اسلامی ہوگی اور اس کے آئین و قوانین قرآن و سنت کے مطابق ہوں گے۔ اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت کے طور پر وجود میں آیا۔ پاکستان ایک مسلم ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا ہے اسے ہم آج کیسے (غیر مذہبی ) سیکولر کہہ سکتے ہیں کیا اس طرح ہم قیام پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریئے سے منحرف نہیں ہوں گے۔ کیا اس طرح ہم وطن عزیز کے قیام کے بنیادی مقصد اور حقیقت سے خود کو الگ نہیں کرلیں گے۔ جہاں تک طالبان کے اسلام کی بات ہے تو لفظ طالبان کے معنیٰ طلب کرنے والے کے ہیں پہلے یہ لفظ طالب علم کے لئے استعمال ہوتا تھا لیکن اب یہ لفظ بھتہ طلب کرنے والوں کیلئے بھی استعمال ہو رہا ہے۔ جن کا تعلق دینی مدارس سے نہیں بلکہ یہ امریکیوں اور نیٹو کے پروردہ ہیں جو پاکستان میں امن و امان نہیں دیکھنا چاہتے۔ ان کی پشت پناہی بھارت اور اسرائیل کر رہے ہیں۔ پاکستان میں نام نہاد گروہوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام کسی نام نہاد گروہ کا نہیں اللہ تعالیٰ کا نافذ کردہ دین اولین و آخرین ہے۔ جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور اس کی تکمیل نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے کی گئی اور اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے۔ اس لئے کوئی مسلمان جس نے کلمہ توحید پڑھا ہو وہ کیسے (غیر مذہبی) یعنی سیکولر ہوسکتا ہے۔ اس کا تعلق دین اسلام سے ہے اور رہے گا۔ اللہ ہماری‘ اپنے اس دین اسلام کی اور اس کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والے ہمارے وطن عزیز کی اور اس کی بنیاد دو قومی نظرئیے کی حفاظت فرمائے اور ہمیں سچا مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
تازہ ترین