• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہاں کیا کہنا جہاں دشمن پاکستان سے محبت کرنے والوں کو چن چن کر مار رہا ہواور قوم اس میں گم ہو کہ ریلی نے نواز شریف کیلئے ائیر پورٹ جانا تھا یا بھارت سے دو دو ہاتھ کرنے واہگہ بارڈر، وہاں کیا لکھنا جہاں لمحہ بھر میں اسٹاک ایکسچینج 600پوائنٹ نیچے، ڈالر 7روپے مہنگا ہو جائے، کچھ لئے دیئے بنا ملک 6سوا رب کا مزید مقروض ہو جائے اور قوم اڈیالہ جیل کے غسل خانوں سے ہی نہ نکل رہی ہو، وہاں کیا بتانا جہاں رہنماؤں کی سیاست گالم گلوچ میں ڈھل چکی ہو اور قوم ہر گالی پر دیوانہ واردادیں دے رہی ہو، وہاں کیا سمجھانا جہاں 80فیصد آبادی بنیادی سہولتوں سے محروم ہو اور قوم اسی میں پھنسی ہوئی کہ فلاںکا جوتا کتنے کا، فلاں کی گھڑی کتنے کی، کون کس کے جہاز میں کہاں گیا، وہاں کیا یاد دلانا کہ جہاں دنیا 46ہزار سے زائد ڈیم بنا چکی، چین نے 22ہزار، حتی کہ بھار ت 4ہزار ڈیم بنالے اور اپنی قیادت ملکوں ملکوں سرے محل، ایون فیلڈ ہاؤسز بنار ہی جبکہ چیف جسٹس ڈیموں کیلئے چندہ مانگ رہا، وہاں کیا سر کھپانا کہ جہاں مردہ پرستی ایسی کہ ہارون بلور زندہ تو ذکر تک نہیں، اب باتیں ہیں کہ ختم ہی نہیں ہو رہیں، سراج رئیسانی زندہ تو تذکرہ نہیں، اب وطن پرستی سے اخبار، ٹی وی اسکرینیں بھری ہوئیں، وہاں کیا مغز ماری کرنی جہاں معاشرہ ایسا لکڑ ہضم، پتھر ہضم کہ سندھ کو قبرستان بنا کر بلاول فرمائے ’’ اقتدار میں آکر امیروں سے زمینیں لیکر غریبوں میں بانٹ دوں گا، سمندر میٹھا کرکے سب کی پیاس بجھا دوں گا‘‘ تو تالیاں اورجئے بھٹوکے نعرے اور وہاں کیا بحث کرنی کہ جہاں 3دفعہ وزارتِ عظمیٰ، 5مرتبہ وزارتِ اعلیٰ بھگتا نے والے شریف برادران کے اسپتالوں، اسکولوں، صاف پانی کو تو چھوڑیں دو درجن جیلوں کی حالت ایسی کر دی کہ آج شہباز شریف کو خط لکھنا پڑے’’ میرے بھائی کا کمرہ ٹھیک نہیں، بستر ٹھیک نہیں، باتھ روم ٹھیک نہیں، طبی سہولتیں ٹھیک نہیں، ائیرکنڈیشنر نہیں، وہ دل، شوگر کے مریض، کھانا، دوائیاں پہنچانے، ذاتی معالج کی اجازت دی جائے‘‘، بندہ پوچھے 3دفعہ تو آپ وزیراعلیٰ رہے، جیلوں کے کمرے، باتھ روم بھی ٹھیک نہ کرواسکے، گرم، سرد ماحول اور طبی سہولتیں مہیا نہ کی جاسکیں، کچھ کر لیتے توآج نہ صرف نواز شریف کوکوئی پریشانی نہ ہو تی بلکہ ہر قیدی دعائیں دے رہا ہوتا، چھوٹے میاں صاحب سے پوچھنا یہ بھی کہ کیا اڈیالہ جیل میں میاں صاحب سے پہلے انسان تھے یا جانور، اگر انسان تھے توکیا ان سے بھی کبھی پوچھا کہ تمہارا بستر ٹھیک، تمہیں کھانا ٹھیک مل رہا، کیا اپنی 37سالہ سیاست میں کسی اور قیدی کیلئے بھی خط لکھا، کیا ووٹ کی عزت صرف نواز شریف صاحب کی عزت، باقی جائیں بھاڑ میں۔
لیکن وہاں کیا شکوہ شکایت جہاں 11سالہ قید کے دوران آئے روز جیلوں، حوالاتوں کی شکایتیں کرنے والے زرداری صاحب ایوانِ صدر پہنچ کر سب کچھ بھول جائیں، جہاں اسیری کے دنوں سب کو جیل کی سختیوں کے قصے سنانے والے گیلانی صاحب وزیراعظم بنیں تو مڑکر خبر نہ لیں اور تو اور جہاں مشرف مارشل لا میں پہلی بار سپریم کورٹ لائے گئے نواز شریف صاحب جیل، حوالات میں اپنی مشکلات کا ایسا نقشہ کھینچیں کہ ہر آنکھ بھیگ جائے مگر جب اللہ پھر موقع دے تو 4سالہ دورِ اقتدار میں جیلوں، قیدیوں کا حال تک نہ پوچھیں، مگر اپنی اس ’’زندہ جاوید کارکردگی ‘‘ کے باوجود زرداری صاحب پھر سے میدان میں، گیلانی صاحب بھی انتخاب لڑ رہے، میاں صاحب جیل سے ’’ووٹ کو عزت‘‘ دینے کا مشن جاری رکھے ہوئے اور تو اور شہباز شریف مائیک گراکر آج بھی بڑے دھڑلے سے ملک کو ترکی، ملائیشیا بنانے کی بات کررہے، 5سال میںپاکستان کو بھارت سے آگے لے جانے، کراچی کو نیویارک بنانے کے دعوے فرمارہے اور جانثار تالیوں اور نعروں سے زمین آسمان ایک کررہے، حالانکہ کس کو بھول کہ زرداری صاحب نے کیا کیا، گیلانی صاحب بیوی بچوں سمیت کیا کر چکے، بڑے میاں صاحب نے کتنی ووٹ کو عزت دی یا دینی اور کس کو یہ یاد نہیں کہ یہ وہی شہباز شریف جو زرداری صاحب کو لاہو ر،لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹ چکے، علی بابا چالیس چوروں کے پیٹ چیر چکے، لاہو رکو پیرس بنا چکے، جن کے دور میں ایک دھیلے کی کرپشن نہ ہوئی اور اپنے بھائی کی ایک رات کی جیل کے بعد انسانی حقوق کی دہائیاں دیتے یہ وہی شہباز شریف جو ماڈل ٹاؤن میں ہوئی قتل وغارت سے سارا دن لاعلم رہے، جن کے دور میں قصور کی سڑکوں پرزینب کیلئے نکلے لوگوں کو سیدھی گولیاں ماری گئیں اور مال روڈ پر ڈاکٹروں، نرسوں اور نابیناؤں کو پھینٹیاں لگیں، لیکن شاید وہ سب نہ انسان تھے اور نہ انکے کوئی حقوق۔
کہنے کو تو بہت کچھ اور بھی مگر جب بحران در بحران، بھنور در بھنور میںپھنسے ملک کی کسی کو پروا ہی نہ ہواور جب سب کا محبوب مشغلہ ہو تماشے دیکھنا، چسکے لینا تو پھر کیا کہا جائے، کس کو یہ پتا نہیں کہ مشرف نے اپنے دور ِحکومت میں قرضہ لیا 3ہزار 2سوارب، زرداری حکومت نے قرضہ لیا 8ہزار2 سو ارب جبکہ ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے والی ن لیگ نے قرضہ لیا 15 ہزار ارب، مطلب مشرف، زرداری حکومتوں کا قرضہ ملا کر بھی نواز لیگ کے قرضے سے کم، کس کو علم نہیں کہ کرنسی کو مستحکم رکھنے کے 3طریقے، امپورٹ کم، ایکسپورٹ بڑھائی جائیں، زیادہ سے زیادہ پاکستانی بیرون ملک ملازمت کیلئے بھیجے جائیں، خرچے کم یا قرضے لو، ایکسپورٹ کا حال یہ کہ تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی، ہم نے پاکستانیوں کو باہر کیا بھیجنا، گزشتہ 10سالوں میں 50فیصد پاکستانی واپس آگئے، مزے کی بات یہ کہ نواز شریف، شہباز شریف اورزرداری صاحب کی جن ممالک کے سربراہوں سے ذاتی دوستیاں، ان ملکوں سے بھی پاکستانی لیبر کو نکال دیا گیا، یہاں اپنی قیادت اور دنیا کی لیڈر شپ کی سوچ میں فرق ملاحظہ کریں کہ شاہد خاقان عباسی قطر سے مہنگی ترین ایل این جی ڈیل کر کے اپنی معیشت کی جڑیں ہلا دیں جبکہ مودی 2022فٹبال ورلڈ کپ کیلئے قطر سے بھارتی ہنر مندوں اور مزدوروں کا معاہدہ کرکے لاکھوں ہندوستانیوں کی زندگیاں بدلنے کی بنیاد رکھ دیں، جہاں تک قرضوں کی بات تو اتنے قرضے لئے جا چکے کہ مزید مل نہیں رہے جبکہ ہم قرضوں کا سود اتارنے کے قابل بھی نہیں، باقی ڈالر مہنگا کیوں نہ ہو کہ جب روزانہ منی لانڈرنگ ہورہی ہو، روزانہ ایک مافیا مارکیٹ سے ڈالر خرید کر باہر بھجوائے اور باہر سے واپس منگوا کر منافع کمائے، ڈالر مہنگا کیوں نہ ہو جب حکمران اتنے سخی کہ ڈیلیں ڈالروں میں، اپنی کمیشن سمیت سب ادائیگیاں ڈالروں میں، ڈالر کیوں مہنگا نہ ہو جب اپنے مگرمچھوں کے 2سو ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوں اورجب 10ارب ڈالر کی دبئی میں جائیدادو ں کے علاوہ صرف گرے دو سالوں 4ہزار دو سو 48ارب کی متحدہ عرب امارات میں پاکستانی مزید سرمایہ کاری کر لیں۔
اب تویہ حال ہو چکا کہ حکمران جائیدادیں بنا رہے، عوام بھنگڑے ڈال رہے، ملک تباہ ہو رہا، اب تو صورتحال یہ کہ 5فیصد طبقہ ٔ اشرافیہ کے اللے تللے، مس مینجمنٹ ختم ہونے کو ہی نہیں آرہی، جبکہ 95فیصد کو ناکوں، فاقوں، دھماکوں سے ہی فرصت نہیں مل رہی، 5فیصد کی روز عیدیں، شبراتیں، 95فیصد مخلوق مسکرانا بھول گئی، 5فیصد سوئس بینکوں، سرے محلوں اور ایون فیلڈ ہاؤسز کی مالک، 95فیصد بھوکے ننگے چھت کو ترس ترس قبروں میں اتررہے اور بظاہر ایک دوسرے کے مخالف 5فیصد اندر سے یوں سیانے کہ ذرا سا کٹھن لمحہ، تھوڑا سا مشکل وقت آئے یا بات اولادوں، جائیدادوں کی طرف جانے لگے تو جمہوریت، سویلین بالادستی کی بکل مار کر سب ایک ہوجائیں جبکہ 95 فیصد جہالت ایسی منقسم کہ بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا،
باپ بیٹے کا نہیں اوربیٹا باپ کو نہ پہچانے، یہ 5فیصد کی خوش بختی کہ انہیں مفتو مفتی 95فیصد کمی کمین، مزارع ملے ہوئے، اوپر سے پاکستان جیسی چراگاہ، شکار گاہ، موجیں، مکھن ملائیاں، ہٹو بچو، دیکھو دیکھو کون آیا کے مزے، بھلا انہیں ایسا ملک کہاں ملے گا کہ جہاں ہر دس نمبری، چوری، ڈاکے کے بعد بھی دستاربندیاں، جہاں ہرجھو ٹ، فراڈ کے بعد بھی عزت سادات موجود اور جہاں بندے مارکر، ملک لوٹ کر بھی معصومیت، سرداری قائم دائم، اپنے پاؤں مبارک سے باہر بھاگ بھاگ سڑکیں کراس کرنے والے، جنہیں ہلکی سی مُکی مارنے پر ہتھکڑیاں لگ جائیں، جو گاڑی غلط پارک کر نے پر بڑی تابعداری سے جرمانہ بھر یں اور جو غیر ملکی ائیر پورٹوں پر بڑی فرمانبرداری سے کوٹ، بیلٹ، جوتے اتار دیں، انہیں بھلا پاکستان جیسا ملک کہاں ملے گا کہ جہاں شاہی مور کے مرنے پر یہ پولیس اہلکار معطل کردیں، شاہی مور کو مارنے والے بلے کو پکڑنے والے پولیس اہلکارکی پروموشن کردیں اور انہیں ایسا ملک کہاں ملے گا کہ جہاں بڑے بڑے ارسطو، افلاطون اپنی مرضی سے اپنے بچوں سے بھی چھوٹے بلاول کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے ملیں اور اپنی خوشی سے مسلم لیگیے نواز،شہباز، مریم، حمزہ کے بعد اب جنید صفدر کے گلے میں ہار ڈال کرشیر آیا، شیر آیا کے نعرے ماررہے ہوں، ہے کہیں ایسا ملک۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین