• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کیا جی ڈی اے سندھ میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کارکردگی دکھائے گا؟

ملک بھر کی طرح سندھ پے درپے دہشت گردی کے واقعات میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لیے غمزدہ ہے تاہم الیکشن کے آخری راؤنڈ کی تیاریاں زور شور سے جاری ہے گرچہ الیکشن کے نئے رولز کی بدولت کراچی میں وہ انتخابی ماحول نہیں بن سکا ہے جو ماضی میں ہواکرتا تھا تاہم اس کے باوجودپی پی پی، ایم ایم اے، پی ٹی آئی، متحدہ قومی موومنٹ ، پاک سرزمین پارٹی، تحریک لبیک، ملی مسلم لیگ ریلیاں اور جلسے منعقد کررہے ہیں تحریک لبیک اور ملی مسلم لیگ مذہبی جماعتوں کے اتحاد سے باہر ہے اور انہوں نے کسی جماعت سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی نہیں کی ہے تاہم اپنا مخصوص ووٹ بنک رکھنے کے سبب دونوں جماعتیں اگر کوئی سیٹ جیت نہ بھی سکیں تو کئی حلقوں کے نتائج پر اثرانداز ہوں گی گزشتہ ہفتے متحدہ قومی موومنٹ، پاک سرزمین پارٹی، ملی مسلم لیگ نے شہر میں ریلیاں منعقد کی جبکہ ایم ایم اے نے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی بڑی کارروائیوں کے باوجود کراچی کے سب سے بڑے میدان باغ جناح میں پنڈال سجایاتحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی جماعت کراچی سے کلین سوئپ کرے گی دوسری طرف جماعۃ الدعوۃ پاکستان کے امیر پروفیسر حافظ محمدسعید نے کہاہے کہ سیاست کوکاروبار بنانے والوں نے ملک کو اندھیروں میں دھکیل دیا۔ ووٹ خرید کر جیتنے والے نمائندوں کو امریکہ خریدلیتا ہے۔ 70 سال سے جاری اس کھیل کو ختم کرنے کے لیے سیاست میں آئے ہیں۔ قوم کو ملک کی نظریاتی اساس پر جمع کرکے دشمن کے عزائم ناکام بنائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملیر کے حلقہ پی ایس 90 بھینس کالونی، کورنگی کے حلقہ پی ایس 92شمسی سوسائٹی اور وسطی کے حلقہ پی ایس 129نارتھ ناظم آباد میںانتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ حافظ محمدسعید کی آمد پر ان کا زبردست استقبال کیا گیا اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں حافظ محمدسعید نے کہاکہ ہم اس ملک کی خاطر کھڑے ہوئے ہیں آج پاکستان مشکل ترین دور سے گزررہا ہے، یہ نظریاتی اساس کو فراموش کرنے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا انتخابی منشور رسول اللہ کی سیاست کو عام کرنا ہے۔ادھر متحدہ مجلس عمل کے عوامی اجتماع میں سرا ج الحق اور ایم ایم اے کے صوبائی صدر راشدسومرو کے خطاب نے میلہ لوٹ لیا راشد سومرو نے کہاکہ 25 جولائی کو آصف زرداری کی سیاست کا جنازہ ایم ایم اے پڑھائی گی سراج الحق نے کہاکہ ووٹ کو عزت تب ملے گی جب شریعت کو عزت ملے گی اسلام کوعزت ملے گی، خواتین اور بچوں کو عزت ملے گی۔ جب کراچی میں لاشیں گررہی تھیں تو یہ لوگ کہاں تھے جو آج الیکشن لڑنے کراچی آگئے ہیں۔ جبروتشدد اور خوف ودہشت کے ماحول میں ہم ہی تھے جو کھڑے ہوئے تھے اور امن واخوت اور محبت کی بات کررہے تھے۔ انقلاب اور تبدیلی صرف کتاب ہی لاسکتی ہے۔ ہم کراچی کو ایسا شہر بنائیں گے جس کی حکومت کے ماتحت تمام ادارے ہوں اور کراچی کے مسائل حل ہو ہم پانی کے مسئلے کے حل کے لیے پانی کے تمام منصوبے مکمل کریں گے۔مولانا فضل الرحمن کاکہنا تھا کہ کراچی میں لسانیت، علاقائیت اور قومیت کے نام پر عوام کو لڑایا گیا اور لوگوں کو کا قتل عام کیا گیا۔ ملک کی سیاست کے اندر لسانیت، قومیت اور تعصبات کو ختم ہونا چاہیئے۔ اسلام ہی ان خرابیوں کو دور کرسکتا ہے اور ہرطرح کے تعصبات سے بالاتر ہوکر ملک کو آگے لے کر چل سکتا ہے۔ اسلام کی قوت اور طاقت سے مغربی، یہودی اور سیکولر لابی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ آج مجلس عمل کی صورت میں عوام کے لیے امید کی کرن ہے اور علماء کرام کی قیادت میں ملک کی کشتی کو بھنور سے اور قوم کو بحران سے نجات دلائی جاسکتی ہے ۔ ملک کے نظام کو تبدیل کرنا ہے توان قوتوں کو ہٹانا ہوگا جو بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دے رہی ہیں، علماء اگرنوجوان نسل کوبرداشت کا درس نہ دیتے تو آج پاکستان کانقشہ کچھ اور ہوتا۔متحدہ مجلس عمل کے جلسہ عام سےاویس نورانی، قاری محمدعثمان، ڈاکٹرمعراج الہدی، عبدالغفورحیدری، حافظ نعیم اور دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا جلسہ شام چھ بجے شرو ع ہوکر رات ایک بجے اختتام پذیرہوا۔ سات گھنٹے طویل جلسہ عام میں شرکاء کی استقامت قابل دید تھی جو بھوکے پیاسے ساست گھنٹے انتہائی منظم انداز میں جلسے کی کارروائی سنتے رہے ادھر گرینڈ سندھ کے چھ اضلاع میں انتخابی ہم زور شور سے شروع کررکھی ان اضلاع میں جی ڈی اے نے جلسوں کا اعلان کررکھا ہے اس سلسلےکا پہلا جلسہ پی پی پی کے چیئرمین آصف علی زرداری کے آبائی شہر نواب شاہ میں منعقد کیا گیا جہاں خطاب کرتے ہوئے گرینڈ ڈیموکریٹس الائنس کے سربراہ پیرپگارا نے کہاہے کہ منی لانڈرنگ کے ذریعے سندھ کو لوٹا گیا 25 جولائی کو شکست پی پی کا مقدر بنے گی۔ نواب شاہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیرپگارا نے کہاکہ رینجرز اور فوج کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ملک میں امن قائم کیا انہوں نے کہاکہ متفقہ طور پر ایک نشان سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں پیپلزپارٹی سے جان چھڑانے کا مشن کامیاب ہوگا سندھ میںلاکھوں روپے کے منصوبے کروڑوں میں لگائے گئے ایسا کوئی منصوبہ نہیں جس میں صوبائی حکومت نے کرپشن نہ کی ہو ، 25 جولائی کو شکست پی پی کا مقدر بنے گی۔ پیرپگارا نے کہاکہ زرداری نے کہا تھا کہ بی بی کے قاتلوں کو جانتے ہیں مگر نام نہیں بتایا، زرداری حکومت نے لوٹنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ عوام کو وڈیروں سے نجات دلانے اور زرداری کے احتساب کا کڑا وقت آگیا ہے۔ ایازلطیف پلیجو نے کہاکہ نیب کو سندھ کے حکمرانوں کی کرپشن کیوں نظر نہیں آتی سندھ کے عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے جی ڈی اے کو وٹ دیں۔ مرتضیٰ جتوئی نے کہاکہ بلاول بھٹو محترمہ شہید کا نام لیتا ہے اور تعریف کرتا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں کرتا ، بلاول اپنی والدہ اور ناناکا نام لے کر نہ سیاست کریں۔ پیرپگارا نے کہاکہ آصف زرداری نے شہیدذوالفقار بھٹو اور شہید بے نظیربھٹو کے نام پر اقتدار حاصل کیا اور نام بھی کمایا لیکن 2018کے انتخابات میں بھٹو خاندان کے کسی فرد کو ایک بھی ٹکٹ نہیں دیاگیا، حاکم علی زرداری کا خاندان الیکشن لڑرہا ہے ، سندھ میں 13 شوگرملز زرداری کی ملکیت ہیں، زرداری کے حکم پر آبادگاروں کا معاشی قتل کیا گیا۔ کالاباغ ڈیم ضیادور میں دفن ہوچکا تھا ہم بھاشا اور مہمند ڈیم کی حمایت کرتے ہیں،ناہیدخان نے کہاکہ سندھ کی عوام کو ظالم وڈیروں نے بھیڑبکری سمجھا ہوا ہے ۔ پیپلزپارٹی کے دس سالہ دور حکومت نے عوام کوتعلیم پانی اور بجلی سے محروم کیا ہوا ہے صفدرعباسی نے کہاکہ نواب شاہ اور لاڑکانہ کی سیاست پر قؓجہ کرنے والوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے 25 جولائی زرداری لیگ کے لیے یوم حساب ہے آصف علی زرداری کے مدمقابل این اے 213 سے جی ڈی اے کے امیدوار سردار شیر محمدرند نے خطاب میں کہاکہ نواب شاہ کے شہریوں کو زرداری لیگ سے آزادی دلائیں گے۔سندھ ڈیموکریٹک الائنس کے عزائم ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اس مرتبہ پی پی پی کو ٹف ٹائم دے گی ادھر سندھ ڈیموکریٹک الائنس اور متحدہ مجلس عمل کے مابین سندھ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق ہوگیا، مجلس عمل سندھ نے جی ڈی اے سے انتخابی اتحادی کی بھی منظوری دے دی، فائنل انتخابی معرکہ میں سندھ بھر سے مشترکہ امیدوار ہوں گے، سندھ اسمبلی کی 20 نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلی گئی متحدہ مجلس عمل سندھ کے صدر علامہ راشد محمودسومرو کا کہنا ہے کہ سندھ ڈیموکریٹک الائنس سے صوبائی سطح پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی مجلس عاملہ نے منظوری دے دی ہے جلد ہی ایم ایم اے اور جی ڈی اے کے رہنماؤں کا اجلاس طلب کرکے مشترکہ طور پر اتحاد کا باضابطہ اعلان کردیا جائے گا اس بات کا فیصلہ متحدہ مجلس عمل سندھ کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس میں کہاگیا کہ پیپلزپارٹی نے اپنے گزشتہ 10 سالوں میں سندھ کی تباہی اور عوام کاخون چوسنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے 25 جولائی عوام دشمن قیادت سے ووٹ کی پرچی کے ذریعے انتقام لینے کا بہترین موقع ہے۔جی ڈی اے اور ایم ایم اے کے درمیان اتحاد کے بعد پی پی پی کے لیے سندھ میں مزید مشکلات پیدا ہوگئی ہے۔گزشتہ عام انتخابات میں سندھ میں قومی اسمبلی کی 61 جنرل نشستوں میں سے پیپلزپارٹی نے جن 33 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس مرتبہ اپنے جیتے ہوئے ان حلقوں میں سے بھی پی پی پی کو تقریباً 18 حلقوں میں سخت مقابلے کاسامنا ہے جبکہ پہلی جیتی ہوئی باقی تقریباً 15 نشستوں پر پی پی پی سبقت برقرار ہے علاوہ ازیں ٹھٹھہ کے شیرازی برادران اور کراچی میں عبدالحکیم بلوچ کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کے باعث پی پی پی کی 2013 میں 2 ہاری ہوئی نشستوں پر پوزیشن مضبوط ہوگئی ہے۔ 2013 کے عام انتخابات میں ضلع کشمور اور جیکب آباد کے تینوں قومی اسمبلی کے حلقوں سے پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کی تھی نئی حلقہ بندیوں کے باعث قومی اسمبلی کی ایک نشست مذکورہ اضلاع میں کم ہوگئی ہے۔ اب مذکورہ دونوں اضلاع میں قومی اسمبلی کا ایک ایک حلقہ ہے گزشتہ عام انتخابات میں این اے 196 جیکب آباد سے پی پی پی کے اعجاز خان جھکرانی کامیاب ہوئے تھے۔ تاہم اس مرتبہ اعجازجھکرانی کو پی ٹی آئی کے امیدوار سابق چیئرمین سینیٹ محمدمیاں سومرو کے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ مذکورہ حلقے میں کانٹے کا مقابلہ نظرآرہا ہے۔ پی ایس 197 کشمور میں اس مرتبہ پیپلزپارٹی کے احسان مزاری کو متحدہ مجلس عمل کے امیدوار شمشیرمزاری کے سخت مقابلے کا سامنا ہے مذکورہ حلقے سے بھی اب پی پی پی کے لیے جتینا آسان نہیں رہا ہے۔ این اے 198 شکارپور سے 2013 میں عدالتی فیصلے کی روشنی میں پی پی پی کےآفتاب شعبان میرانی کا میاب ہوئے تھے اس مرتبہ مذکورہ حلقے سے سابق ایم پی اے عابدحسین بھیوپی پی پی کے امیدوارہیں جن کا سابق ایم این اے ڈاکٹر ابراہیم جتوئی سے سخت مقابلہ نظرآرہا ہے این اے 199 سے پی پی پی مخالف غوث بخش کامیاب ہوتے رہے ہیں اس مرتبہ پیپلزپارٹی نے مقامی سطح پر ان کے اتحادی ذوالفقار کمار یوکو ان سے توڑ کر ان کے مقابلے میں پارٹی ٹکٹ دیا ہے این اے 200لاڑکانہ سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری امیدوار ہیں جن کے مقابلے میں جے یو آئی ف کے راشد محمودسومرو امیدوار ہیں جنہیں پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کی بھی حمایت حاصل ہے۔ اس مرتبہ این اے 204میں پیپلزپارٹی خالد احمدخان لوند اور مہربرادران کے حمایت یافتہ آزادامیدوار سابق ایم این اے عبدالحق عرف میاں مٹھو کے درمیان مقابلہ ہے جبکہ دوسرے حلقے این اے 205 میں پیپلزپارٹی کے احسان سندرانی کے مقابلے میں علی محمدمہر کی سبقت نظرآرہی ہے۔ ضلع خیرپور کے حلقہ این اے 208 سے اس مرتبہ نواب وسان کی جگہ سابق وزیراعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ کی صاحبزادی سابق ایم این اے نفیسہ شاہ امیدوار جن کے مقابلے میں سابق وزیراعلیٰ سندھ سیدغوث علی شاہ جی ڈی اے کے امیدوار ہیں۔ 2013میں پیپلزپارٹی نے مذکورہ حلقے سے کامیابی حاصل کی تھی تاہم اس مرتبہ کانٹے کا مقابلہ نظرآرہا ہے۔ضلع نواب شاہ کے دونوں حلقوں این اے 213 میں آصف علی زرداری اور این اے 214 میں پی پی پی کے غلام مصطفیٰ شاہ کی سبقت نظرآرہی ہے۔ اس طرح ضلع سانگھڑ کے تین صوبائی حلقوں میں سے پی پی پی نے جس ایک حلقے این اے 215 میں کامیابی حاصل کی تھی اس مرتبہ مذکورہ حلقے میں بھی پی پی پی کے نوید ڈیرو کو خدابخش راجڑ کے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ جبکہ باقی دو حلقوں این اے 216 اور 217 جن میں فنکشنل لیگ نے کامیابی حاصل کی تھی ان حلقوں میں شازیہ مری اور روشن الدین جونیجو پی پی پی کے امیدوار ہیں۔ اس طرح مذکورہ ضلع جی ڈی اے کے امیدواروں کے لیے کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں۔ضلع حیدرآباد کے حلقہ این اے 225 میں اس مرتبہ پیپلزپارٹی کو سخت مقابلے کا سامنا ہے مذکورہ حلقے میں اصل مقابلہ پی پی پی کے سیدحسین طارق اور پی ٹی آئی کے خاوند بخش کے درمیان ہے۔ اس مرتبہ پیپلزپارٹی کو ضلع بدین کے دونوں حلقوں میں سخت ترین مقابلے کا سامنا ہے جن میں این اے 229 میں پی پی پی کے غلام علی تالپر کو جی ڈی اے کے امیدوار ڈاکٹر ذوالفقار مرزاکے بیٹے حسنین مرزا اور این اے 230میں پی پی پی کے غلام رسول چانڈیو کے مقابلے میں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا خود جی ڈی اے کی امیدوار ہیں۔اس مرتبہ این اے 234 میں پی پی پی کے فرحان علی لغاری کے مقابلے میں سابق وزیراعلیٰ سندھ پی ٹی آئی کے امیدوار لیاقت جتوئی مضبوط امیدوار تصور کئے جارہے ہیں ۔ اس طرح این اے 235 دادو میں بھی پیپلزپارٹی رفیق احمد جمالی کو پی ٹی آئی کے عبدالکریم جتوئی کے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔سندھ کے عوام اب پارٹی امیدواروں کو ان کی کارکردگی کے معیارپرجانچ رہے ہیں اگر یہی صورتحال رہی تو سندھ میں انتخابات کے حیران کن نتائج ہوسکتے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین