• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پانی ملے گا؟

طوبیٰ خضرحیات

پانی کو ذخیرہ کرنے، سیلابی صورتحال، نظام آب پاشی اور معقول ٹیرف سے متعلق منصوبہ بندی کی جائے گی،پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ایک جامع پلان بنایا جائے گا جس سے ہائیڈرو پاور بھی جنریٹ کی جا سکے گی،مضبوط ادارہ جاتی فریم ورک کے تحت واٹر شیڈز کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا،خراب پانی کے صنعتی استعمال کے لئے ایک واٹر مینجمنٹ قائم کی جائے گی

پاکستان مسلم لیگ(ن)

پاکستان پیپلزپارٹی آب پاشی کے باکفایت استعمال کو رواج دے گی، بشمول ڈرپ اور فوارے کے ذریعے پانی لگانے کی ٹیکنالوجیز۔ اس طرح آب پاشی کے لئے بارش کا پانی جمع کرنے، ذخیرہ اور استعمال کرنے کے نظام بنائے جائیں گے،ہمیں ٹیکنالوجیز میں سرمایہ لگانے کی ضرورت ہے جو نہ صرف زرعی شعبے بلکہ گھریلو صارفین کو بھی فائدہ پہنچائیں

پاکستان پیپلز پارٹی

پاکستان تحریک انصاف پانی کے انتظام کو بہتر بنانے اور پانی کا ضیاع روکنے کے لئے فوری طور پر ڈیم تعمیر کرے گی اور پانی کے بحران کے حل کے لئے اقدامات اٹھائے گی۔ ہم مطلوبہ ڈھانچے کی تعمیر کا عمل تیز کریں گے اور تمام صوبوں کے لئے اپنے منصوبہ آب اور قومی واٹر پالیسی کا نفاذ یقینی بنائے گی

پاکستان تحریک انصاف

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہےجوکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔ ہمارا ملک پاکستان ترقی پذیر ہونے کے باوجود بہت سے مسائل میں گھرا پڑا ہے مثلاً بے روزگاری، مہنگائی، پانی کی قلت، بجلی کی لوڈشیڈنگ، دہشت گردی، کرپشن، گیس کی لوڈشیڈنگ ،تعلیم،صحت وغیرہ اور دن بدن ان مسائل کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے،لیکن پاکستان کو درپیش مسائل میں سب سے اہم مسئلہ قلت آب کاہے۔پاکستان میں نئے آبی ذخائر نہ ہونے سےہر سال کھربوں روپے مالیت کا پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ پاکستان اس وقت شدید آبی بحران کا شکار ہے ۔پانی کی سخت قلت کا سامنا کرنے والے ممالک کی عالمی فہرست میں پاکستان کا نمبر تیسرا ہے۔71برسوں کے طویل عرصے بعد بھی پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو پانی کے شدید مسائل کا شکار ہیں۔ ایک اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں پانی کی سطح1951ء میں 5260کیوبک میٹرز سالانہ سے کم ہو کر2016ء میں صرف1000 کیوبک میٹرز فی کس سالانہ ہو گئی ہے اگر اس معاملے کو یونہی نظرانداز کیا جاتا رہا تو مستقبل میں پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی اور آبی ذخائر کے لیے پاکستانی کونسل برائے تحقیق (پی سی آر ڈبلیو آر) نے خبردار کیا ہے کہ سن دو ہزار پچیس تک یہ جنوب ایشیائی ملک پانی کے شدید بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کے ہیومنیٹیرین کوآرڈینٹر نیل بوہنے کے مطابق پانی کے اس بحران کی وجہ سے پاکستان کا کوئی علاقہ بھی نہیں بچ سکے گا۔ ماہرین نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران دہشت گردی سے زیادہ بڑا خطرہ ہے۔ماہرین کے مطابق پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور شہری علاقوں میں وسعت پانی کے بحران کی بنیادی وجوہات ہیں۔ اس کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں، پانی کی ناقص منیجمنٹ اور سیاسی عزم کی کمی نے اس معاملے کو زیادہ شدید کر دیا ہے۔ پاکستان تیزی سے ایک ایسی صورتِ حال کی طرف بڑھ رہا ہے، جہاں آنے والے وقتوں میں اسے شدید پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کچھ ماہرین کے خیال میں پاکستان آنے والے سات برسوں میں پانی کی شدید قلت کا شکار ہو جائے گا۔تین بڑے آبی ذخائر یعنی منگلا، تربیلا اور چشمہ، ہمالیائی و قراقرم سلسلے کے11لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے بڑے بڑے گلیشیئرز کے باوجود جن میں ایک تخمینے کے مطابق2066مکعب فٹ برف موجود ہے، اس کے باوجود بھی ماہرین کا انتباہ ہے کہ2025ء تک پاکستان میں قلت آب کا مسئلہ سنگین تر ہو جائے گا، مستقبل کی ایک ہولناک تصویر پیش کرتا ہے۔ ان71برسوں میں ہم آبی وسائل کو استعمال میں لانے اور آبی مسائل کو حل کرنے میں بالکل ناکام رہے ہیں تو یہ بات کہنا غلط نہیں ہو گی، پانی کا مسئلہ زندگی و موت کا مسئلہ ہے۔ عالمی معیار کے مطابق روزانہ فی فرد پانی کی ضرورت کا پیمانہ125لیٹر ہے۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ایک صدی سے پانی کے خرچ میں چھ گنا زیادہ اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستان کے تین بڑے آبی ذخائر میں مجموعی طور پر15.75ملین ایکڑ فٹ پانی کی گنجائش ہے جو بتدریج کم ہوتے ہوتے13.10ملین ایکڑ فٹ پر آ گئی ہے۔ ان تینوں ذخائر میں30دن کے استعمال کا پانی جمع ہو سکتا ہے حالانکہ عالمی معیار کے مطابق یہ گنجائش150دنوں کے لئے ہونی چاہئے جب کہ چند ترقی یافتہ ملکوں میں پانی محفوظ کرنے کی مدت ایک سے دو سال بھی ہے۔ پاکستان میں آخری ڈیم1966ء میں تعمیر کیا گیا تھا جوکہ بہت افسوسناک بات ہے۔ ملک میں بڑھتے ہوئے آبی بحران کو دیکھتے ہوئے پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیمز کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان دنیا کے ان180ممالک کی فہرست میں36ویں نمبر پر ہے جہاں پانی کی کمی کی وجہ سے حکومت، معیشت اور عوام شدید دبائو میں ہیں۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر صوبوں میں عدم اتفاق رائے کی وجہ سے نہ ہو سکی لیکن سندھ اور بلوچستان میں چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنانے میں کیا حرج ہے؟ پاکستان زرعی ملک ہے مگر اس کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کا مناسب انتظام نہیں۔ہر سال بے تحاشا بارش ہوتی ہے اور پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ 2010ء سے تقریباً ہر سال انتہائی کثیر تعداد میں پانی دریاوٴں میں آتا ہے اور سیلاب کی صورت ملکی معیشت کو گھن لگا کر چلا جاتا ہے مگر کوشش کے باوجود اس پر بند نہیں باندھا جا سکتا۔پاکستان واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ آبی ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے 22 ملین ایکٹر زمین زرخیز ہونے کے باوجود بنجر پڑی ہے۔ ملک میں پچھلی کئی دہائیوں سے کوئی ڈیم یا نئے آبی ذخائر تعمیر ہی نہیں ہوئے۔ پاکستان کو پچھلے عشرے میں نو ملین ایکٹ فٹ کے حساب سے پانی کی کمی کا سامنا تھا جو ایک سال بعد بڑھ کر کہیں سے کہیں جاپہنچا ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر اور غریب ملک کے لئے پانی انمول ہے۔ اس کی قومی پیداوار کا 25فیصد زراعت پر منحصر ہے۔ اسے پینے اور استعمال کے لئے پانی کی اشد ضرورت رہتی ہے۔ لیکن، اس کے باوجود اوسطاً 35.2ملین ایکڑ فٹ پانی مناسب آبی ذخائر نہ بناسکنے کے سبب ضائع ہو جاتا ہے۔ ایسے میں دیامیر بھاشاڈیم یا دیگر ڈیموں کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ لہذا، یہ کہنا کہ دیامیر بھاشا ڈیم پاکستان کے لئے بہترین انتخاب ہے، درست معلوم ہوتا ہے۔ان حالات میںچیف جسٹس ثاقب نثار نے دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے فنڈ قائم کر کے اس قوم پر وہ احسان کیا ہے‘ جسے آنے والی نسلیں بھی سنہرے الفاظ میں یاد رکھیں گی۔ انہوںنے پہلے کالاباغ ڈیم کے لئے کوشش کی‘ لیکن اس پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے بغیر وقت ضائع کئے دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے فنڈ قائم کر دیا ہےساتھ ہی ساتھ پاکستان میں ان دنوں عام انتخابات کی تیاریاں زوروں پر ہیں،د وسری جمہوری حکومت نے اپنی5سالہ آئینی مدت پوری کر لی ہےاور عام انتخابات کے انعقاد میں چند روز ہی باقی رہ گئے ہیں انتخابات کی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے۔ تمام سیاست دان انتخابات کے دوران اپنی عوامی رابطہ مہم میں عوام سےایسے گھل مل گئے ہیں ہیں کہ عوام کے خادم بنے دکھائی دےرہے ہیں ،حسب روایت سیاسی جماعتیں عوام سے مختلف وعدے بھی کرتی نظر آ رہی ہیں۔پاکستان کی تینوں بڑی جماعتیں زور و شور سے انتخابی میدان میں اتری ہوئی ہیں اور اپنے اپنے منشور کا اعلان بھی کر چکی ہیں۔اگر منشور میں کئے گئے وعدوں اور بلند بانگ دعوؤں کو دیکھا جائے تو جو بھی جماعت منتخب ہو گی وہ عوام کے وارے نیارے کرا دے گی۔پانی کے بحران سے بچنے کے لئے بھی پاکستان کی تینوں بڑی جماعتوں نے اپنے پارٹی منشور میں قلت آب کے مسائل سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کی ہے۔ 

پانی ملے گا؟

حا ل ہی میں چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے ڈیمز کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے ڈیموں کی تعمیر سے متعلق مختصر فیصلہ سنا یا تھا۔ عدالت کی جانب سے کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کے لیے ریفرنڈم کرانے کی درخواست خارج کر دی گئی ہے۔سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کوحکم دیا کہ فوری طور پردیا میر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم تعمیر شروع کی جائے اور حکومت 3 ہفتوں میں ڈیموں کی تعمیر شروع کرنے سے متعلق رپورٹ پیش کرے۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ چیئرمین واپڈا کی سربراہی میں ایک کمیٹی ہوگی جو تعمیرات کو مانیٹر کرے گی، کمیٹی کے سربراہ ممبران کا تقرر کرکے عدالت کو آگاہ کریں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام پر ایک پبلک اکائونٹ کھولا جائے گا۔اپنی طرف سے اس فنڈ میں 10 لاکھ روپے دینے کا اعلان کرتے ہوئے،چیف جسٹس پاکستان نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ ڈیم کی تعمیر کے لئے اپنا حصہ ڈالیں۔اُنھوں نے کہا کہ ’’اکائونٹ میں جمع ہونے والا فنڈ کسی اور جگہ استعمال نہیں ہوگا۔ اندرون و بیرون ملک شہری دل کھول کر فنڈز جمع کرائیں۔ امید ہے عوام جنگ 1965؁ والے جذبے کا مظاہرہ کریں گے۔ ڈیمز کے لئے دیئے جانے والے فنڈ پر کوئی انکم ٹیکس یا ادارہ سوال نہیں کرے گا۔‘‘

اس سے قبل دوران سماعت سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ دنیا بھر میں 46 ہزار سے زائد ڈیمز بنے۔ امریکہ نے ساڑھے سات ہزار، بھارت نے ساڑھے 4 ہزار ڈیمز اور چین نے 22 ڈیمز بنائے جب کہ ورلڈ بینک اور کینیڈا مدد نہ کرتے تو پاکستان میں ایک ڈیم بھی نہ ہوتا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈیموں کی شدید قلت ہے۔ ڈیموں کی تعمیر پر فوری کام شروع ہونا چاہئے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ پاکستان کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ پانی کے بغیر ملک کی بقاء مشکل ہوجائے گی۔ جنگی بنیادوں پر پانی کا مسئلہ حل نہ ہوا تو بحران شدید ہوجائے گا۔ لہذا، فوری طور پر دیا میر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر شروع کی جائے، جب کہ کالاباغ ڈیم پر بہت لوگوں کے اختلاف ہیں۔ سب کا اتفاق ہو تو کالا باغ ڈیم بھی بن سکتا ہے۔پانی و بجلی کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ 2001 سے پانی کی دستیابی میں بتدریج کمی آرہی ہے، رواں سال پانی کی دستیابی گزشتہ سالوں کی نسبت انتہائی کم ہے، تربیلا کے بعد ہمیں ہر 10 سال بعد ایک نیا ڈیم بنانا چاہئے تھا، ہمارے پاس 13.7 ملین ایکڑ پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد ہے، بھاشا اور مہمند ڈیم سے ہمارے اسٹوریج میں اضافہ ہوگا۔

چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثارنے کہنا تھاکہ پاکستان کو ڈیمز کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی ضرورت کے تحت جتنے ڈیمز بنائے جائیں کم ہیں۔ زیر زمین پانی ریاست کی ملکیت ہوتی ہے اور ہم نے کھربوں روپے کا پانی مفت میں دے دیا جب کہ ڈیمز تو بننے ہیں۔ یہ ملکی بقاء کے لئے بہت ضروری ہیں۔ ہمیں ملک متحد کرنا ہے تقسیم نہیں، اس لئے فی الحال کالا باغ ڈیم کی بات نہیں کر رہے۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں سندھ کالا باغ ڈیم بنانے کا مطالبہ کرے، فی الحال ان ذخائر پر فوکس کررہے ہیں جن پر کوئی تنازعہ نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ڈیمز کی تعمیر کے لیے فنڈ تو قائم کر دیا۔ لیکن یہ بات قابل زکر ہے کہ دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا اعلان کئی سال قبل سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں کیا گیا تھا۔ لیکن بعد میں آنے والی حکومتیں فنڈز کی کمی اور دیگر مشکلات کا کہہ کر اس منصوبہ کو مکمل نہ کرسکیں۔ اس منصوبہ کے لیےزمین خریداری کے لیے حکومت اب تک سو ارب روپے خرچ کرچکی ہے۔

پانی کے بحران سے بچنے کے لئے پاکستان کی تینوں بڑی جماعتیں عوام سےاپنے پارٹی منشور میں کیا وعدے کررہی ہیں آئیے اس پر نظر ڈالتے ہیں:

پاکستان مسلم لیگ ن

پانی سے متعلق حکمت عملی اور منصوبہ بندی

پانی کو ذخیرہ کرنے، سیلابی صورتحال، نظام آب پاشی اور معقول ٹیرف سے متعلق منصوبہ بندی کی جائے گی۔

پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ایک جامع پلان بنایا جائے گا جس سے ہائیڈرو پاور بھی جنریٹ کی جا سکے گی۔

مضبوط ادارہ جاتی فریم ورک کے تحت واٹر شیڈز کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔

خراب پانی کے صنعتی استعمال کے لئے ایک واٹر مینجمنٹ قائم کی جائے گی۔

موثر زونز اور موسمیاتی پیش گوئیوں کے نظام کو بہتر بنا کر سیلاب سے تحفظ کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔

پانی کے ذخیرے میں اضافہ

دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے پانی کے ذخیرے کی صلاحیت6.4ملین ایکڑ فٹ ہو جائے گی۔

پرانے ڈیمز میں پانی کے ذخیرے کو وسعت دینے کے لئے ریسرچ کروائی جائے گی۔

ابتدائی سطح پر نئے ڈیمز کی تعمیر کے لئے مقامات کا جائزہ لینے کے لئے فزیبلٹی تیار کی جائیں گی۔

کارکردگی میں بہتری کے لئے واٹر ٹیکنالوجی کا استعمال

دریائوں کے بہائو کی بروقت مانیٹرنگ کو یقینی بنایا جائے گا، سمندری پانی کو جی آئی ایس ٹیکنالوجیز کی مدد سے استعمال میں لایا جائے گا۔

اسپرنکلز، ٹنل فارمنگ اور ڈرپ ایری گیش کی مدد سے سیلابی پانی کو روکا جائے گا۔

پانی کے تحفظ کا طریقہ کار

لائن واٹر کینال سے پانی کا ضیاع پچاس فیصد تک کم ہوتا ہے۔ باقاعدہ نظام وضع کر کے پانی کی کم ہوتی سطح کی شرح میں کمی لائی جائے گی۔

امپلائے ٹیکنالوجی کی مدد سے صنعتوں کے استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل کیا جائے گا۔

بارانی کاشت کاری میں سرمایہ کاری کی جائے گی اور نکاسی آب کے پانی کو فصلوں، باغات اور جنگلات میں آب پاشی کے لئے استعمال کیا جائے گا۔

ایک قطرے پر کئی فصلوں کی پالیسی کو فروغ دیا جائے گا اور فصلوں کی ایسی ورائٹی متعارف کرائی جائے گی جن میں کم سے کم پانی استعمال ہو۔

پینے کے صاف پانی کی فراہمی

پانی کی مستحکم تقسیم کو یقینی بنانے کے لئے ٹیرف کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا، پانی کے ضیاع اور چوری کے امکانات کو کم سے کم کیا جائے گا۔

پینے کے لئے اعلیٰ معیار کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔

پنجاب میں پینے کے پانی کی فراہمی کے بنیادی ڈھانچے کی تکمیل کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) اس کامیابی کو ملک بھر میں وسعت دے گی تاکہ عام شہریوں کا معیار زندگی بلند کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں صحت مند اور توانائی سے بھرپور زندگی گزارنے کا موقع مل سکے۔

پاکستان پیپلز پارٹی

The Sindh Resilience Projectجس کا مقصد قدرتی آفات اور آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت بڑھانا ہے۔

آبی ذخائر کم پڑ رہے ہیں اور پانی کی قلت کا خطرہ ہمارے سر پر منڈلا رہا ہے، پاکستان پیپلزپارٹی اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک رکھتی ہے اور استعداد و تحفظ، نئی ٹیکنالوجیز، پانی کے معیار کی مینجمنٹ اور سیم و تھور کے حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم متعدد پہلوئوں سے ایک جامع انداز میں اس مسئلے سے نمٹیں گے۔

استعداد اور تحفظ

نئی ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کے ذریعے سپلائی بڑھانا۔

پانی کی کوالٹی مینجمنٹ کو بہتر بنانا۔

سیم و تھور سے نمٹنا۔

ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہمیں کئی شعبوں (بالخصوص زراعت) میں نئے نظام ترتیب دینے اور نئی ٹیکنالوجیز متعارف کروانے کی ضرورت ہے تاکہ پانی کا تحفظ اور مستعد انداز میں استعمال یقینی بنایا جائے۔ یہ کام موثر اور معتبر آب پاشی کے نظاموں کے ذریعے کیا جا سکتا ہے جو سیم اور تھور کے مسائل سے بھی نمٹنے کے قابل بنائے گا اسی لئے انفرا اسٹرکچر کو ترقی دینا ہماری توجہ کے کلیدی شعبوں میں سے ایک ہوگا۔

گندے پانی (سیوریج) کی ٹریٹمنٹ کے پلانٹ نہروں کو پختہ کرنا

ماضی میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے متعدد ایسے پروجیکٹ شروع کئے جن کے تحت نہروں کو پختہ کرنے پر توجہ دی گئی اور اس کے نتیجے میں پانی ضائع ہونے کی مقدار اور سیم و تھور میں کمی آئی۔ سندھ واحد ایسا صوبہ ہے جہاں مرکزی نہریں پختہ ہیں۔ سندھ واٹر سیکٹر امپروومنٹ پروجیکٹ اور روہڑی و جامشورو نہروں اور100راجباہوں کو پختہ کرنا اس علاقے میں اہم ترین مثالیں ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی اپنے وعدے پورے کرتے ہوئے مزید نہروں کو پختہ بنانے پر بھی سرمایہ کاری کرے گی۔

آبی ذخائر میں اضافہ کے لئے نئی تعمیرات

سندھ بیراجز امپروومنٹ پروجیکٹ کے تحت ہم نے گڈو سکھر بیراج کی تجدید و بحالی کی ہے۔ ہم دریائی کناروں پر رہنے والوں کے حقوق اور ڈیلٹا ماحولی نظام (ایکو سسٹم) کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید ڈیم تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لئے وفاق کے تمام یونٹس میں پیشگی اتفاق رائے قائم کیا جائے گا۔ بھاشا ڈیم پاکستان کے لئے زبردست معاشی وقعت رکھتا ہے لہٰذا ہم اس اہم پروجیکٹ کے لئے فنڈز جمع کرنے پر توجہ مرکوز کریں گے۔

آب پاشی کے مستعد نظام

پاکستان پیپلزپارٹی آب پاشی کے باکفایت استعمال کو رواج دے گی، بشمول ڈرپ اور فوارے کے ذریعے پانی لگانے کی ٹیکنالوجیز۔ اس طرح آب پاشی کے لئے بارش کا پانی جمع کرنے، ذخیرہ اور استعمال کرنے کے نظام بنائے جائیں گے۔

عوامی آگہی کی مہم

ہم انفرادی سطح کے علاوہ بڑے پیمانے پر پانی کے باکفایت استعمال کی حوصلہ افزائی کے لئے عوامی آگہی کے لئے مہم شروع کریں گے مثلاً کسانوں کے لئے پانی کے باکفایت استعمال والے آب پاشی کے طریقے۔

ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب

کراچی میں ایک سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا جا رہا ہے جو شہر کے چالیس فیصد گندے پانی (سیوریج) کو ٹریٹ کرے گا۔ اس وقت شہر میں کوئی موثر سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ موجود نہیں اور صرف5 فیصد پانی کو ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ ہم میونسپل اور صنعتی پانی کو موزوں ٹریٹمنٹ کے بعد دوبارہ استعمال کرنے کے لئے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے پر بھاری سرمایہ کاری کریں گے۔

نئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے سپلائی بڑھانا

ہمیں ٹیکنالوجیز میں سرمایہ لگانے کی ضرورت ہے جو نہ صرف زرعی شعبے بلکہ گھریلو صارفین کو بھی فائدہ پہنچائیں۔

ہم نئی ٹیکنالوجیز سے کام لینے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کریں گے تاکہ سپلائی میں کمی کو پورا کیا جا سکے۔پانی کا معیار اور مینجمنٹ ہم پانی کی ٹریٹمنٹ کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ بہترین طور طریقے اختیار کریں گے تاکہ میٹھے پانی کی طلب گھٹائی جا سکے اور میٹھے پانی کا استعمال ہماری صنعتوں اور زراعت میں بھی استعمال ہو سکے۔ ڈسپوزل کے حوالے سے معیاری قواعد و ضوابط بنائیں گے۔ ہم پانی کے معیار کی نگرانی کے لئے جامع اور موثر نظام بھی وضع کریں گے۔

سیم اور تھور

گزشتہ دس سال کے دوران ہماری حکومت نے3027ٹیوب ویل لگائے اور دوبارہ کارآمد بنائے جن میں201شمسی توانائی سے چلتے ہیں۔ اس طرح سیم اور تھور میں کمی کر کے450000ایکڑ اراضی کو سیراب کیا گیا۔ ہم نے ملیر ندی پر ایک بند بھی تعمیر کیا ہے تاکہ کراچی کے نواح میں زیر زمین پانی کی سطح کو گرنے سے روکا جائے۔

ہم پانی کی مینجمنٹ کے بہترین طریقے ضلعی سطح پر بھی رائج کرنا یقینی بنائیں گے اور بارش کے پانی سے کاشت کاری کی بہتر تکنیک میں سرمایہ کاری کریں گے جو زمین سے نمکیات بہا کر لے جاتی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف

پاکستان میں قلت آب کا حل اور ڈیموں کی تعمیر

پاکستان تحریک انصاف پانی کے انتظام کو بہتر بنانے اور پانی کا ضیاع روکنے کے لئے فوری طور پر ڈیم تعمیر کرے گی اور پانی کے بحران کے حل کے لئے اقدامات اٹھائے گی۔ ہم مطلوبہ ڈھانچے کی تعمیر کا عمل تیز کریں گے اور تمام صوبوں کے لئے اپنے منصوبہ آب اور قومی واٹر پالیسی کا نفاذ یقینی بنائے گی۔

پاکستان کے بارے میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ2025ء تک اس کا شمار پانی کی شدید ترین قلت کے ممالک میں ہو گا۔ یہ روز بروز بڑھتا ہوا بحران پانی کا بچائو کی ناکافی کوششوں اور خراب انتظام کا شاخسانہ ہے۔ پاکستانی معیشت میں پانی پر انحصار دنیابھر کے ممالک میں سب سے زیادہ ہے اور علاقائی تنازعات اور موسمی تغیر و تبدل کے خطرات کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی، شہروں کی آبادکاری اور پانی کے زراعت میں ضیاع کی وجہ سے صورتحال بگڑتی جائے گی لہٰذا پانی کے بحران کا حل بلاشبہ ہماری اولین ترجیح ہے۔

ہم وزارت پانی کو مضبوط بنائیں گے اور دیگر اداروں کے ساتھ ایسا پلیٹ فارم مہیا کریں گے جہاں تمام

اسٹیک ہولڈرز کی شرکت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

ہم ہر صوبے کے لئے پانی کے بڑے منصوبے اور قومی واٹر پالیسی کے نفاذ کو بہتر اور یقینی بنائیں گے۔

ہم عوامی آگہی کے لئے پانی کے بچائو کی ضرورت اور پانی کے غلط استعمال جیسی مہم کا آغاز کریں گے۔

ہم عوامی نجی شراکت داریوں کے لئے مواقع پیدا کریں گے تاکہ قومی واٹر پالیسی کے نفاذ کے عمل میں تیزی لائی جا سکے۔

ہم تمام فورمز پر پانی سے متعلقہ معاہدوں کے مسائل کا نہ صرف پیچھا کریں گے بلکہ حل بھی نکالیں گے۔

ہم نہ صرف دیامیر بھاشا ڈیم تعمیر کریں گے بلکہ دیگر ڈیموں کی تعمیر کے لئے فزیبلیٹی اسٹڈیز پر کام تیز کریں گے۔

ہم پانی کی مقامی ضرورت اور بچائو کے لئے پورے پاکستان میں چھوٹے ڈیمز تعمیر کریں گے۔

ہم ایسے تمام اقدامات خصوصاً آئی سی ٹی کی فعال مداخلت کے ذریعے دیہی اور شہری علاقوں میں پانی کے انتظام میں بہتری لائیں گے۔

ہم غیرمنافع بخش پانی کی پیداوار کم کریں گے اور پانی کی چوری کے خلاف کارروائی کریں گے اور پانی کے ذخائر کی ری چارجنگ کے لئے ا قدامات کریں گے۔

ہم زراعت کے بہترین اور جدید طریقوں کے ذریعے پانی کا ضیاع روکیں گے اور جدید طریقوں کے ذریعے کاشت کاری کی نگرانی کریں گے۔

ہم دیہاتوں اور شہروں میں اپنے بارشی پانی کو محفوظ کرنے کی صلاحیت میں تیزی سے اضافہ کریں گے۔

پینے کا صاف پانی

پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت آبادیوں اور شہر کی کچی آبادیوں میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگا کر پینے کے صاف پانی کی رسد بڑھائی جائے گی۔

پاکستان کی صرف36فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پانی میں پائے جانے والے جراثیم کے باعث اسہال کی بیماری پھیلتی ہے اور ہر سال کم پانچ سال سے کم عمر39بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

پانی اور صحت و صفائی کے نظام پر تحریک انصاف قومی سطح پر اخراجات میں اضافہ کرے گی۔

فوری طور پر کراچی میں صاف پانی کے لئے مہم کا آغاز کیا جائے گا جس کے تحت گھرانوں کے لئے مختلف جگہوں پر پانی کو صاف کرنے کے پلانٹس نصب کئے جائیں گے۔ طویل المدتی اقدامات کے تحت کراچی واٹر اینڈ سینی ٹیشن بورڈ کے ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنے، پانی کی فروخت کے فریم ورک کو بہتر کرنے اور پائپ لائنز سے پانی کی چوری کے خاتمے کے لئے جامع اصلاحات کی جائیں گی۔

اقتدار ملنے کے ایک سال کے اندر کراچی کی طرح ملک کے دیگر بڑے اور اہم شہروں لاہور، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ میں ایسے ہی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ ماڈل کے تحت بلدیاتی حکومتوں کو فلٹریشن پلانٹس لگانے کے لئے تعاون اور وسائل دونوں دیئے جائیں گے۔

اسی طرح پینے کے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے اور طلب کو پورا کرنے کے حوالے سے عوامی شعور کی مہم کا آغاز کریں گے۔

تازہ ترین