• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی روپیہ ایک طرف اپنی قدر میں حالیہ گراوٹ کے باعث بھارتی روپے اور بنگلہ دیشی ٹکے کے بعد افغانی اور نیپالی روپے بھی کمتر کارکردگی کا حامل رہ گیا ہے دوسری طرف اس کا وقار بھی بری طرح مجروح ہوا ہے۔ کرنسی کا وقار ملکی معیشت کی درست سمت، اعداد و شمار کے اعتبار اور حکومتوں کی اچھی کارکردگی سے مشروط ہوتا ہے۔ کئی عشرے قبل عالمی سطح پر بطور تجربہ تمام کرنسیوں کو ان کی طے شدہ قدر و قیمت سے آزاد کرکے منڈی میں اپنا مقام خود معین کرنے کا موقع دیا گیا جس کا نتیجہ ایک معاشی بھونچال کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جاپانی ین نے جس کی قدر بین الاقوامی تجارتی ضرورتوں کے لئے کم رکھی گئی تھی، اپنی ساکھ کی بنا پر ایک ہی دن میں بہت سی مستحکم سمجھی جانے والی کرنسیوں کو پچھاڑ کر رکھ دیا۔ چنانچہ اس تجربے کو فوری طور پر روک دیا گیا۔ یہ مثال ترقی پذیر ملکوں کے ان صاحبان اقتدار کے لئے چشم کشا ہونی چاہئے جو بعض مالیاتی اداروں کے ان تجزیوں کو من و عن تسلیم کرنے کے عادی ہیں کہ ان ترقی پذیر ملکوں کی کرنسی کی قیمت اس کی حقیقی قدر سے کم ہے۔ پاکستانی روپیہ جو مملکت خداداد کے ابتدائی برسوں میں ڈالر کے برابر قدر کی حیثیت اور متعدد ملکوں کیلئے خاص اہمیت کا حامل تھا، ایسے مقام پر نظرآرہا ہے کہ ایک افغانی روپیہ پاکستان کے ایک روپے 70پیسے میں دستیاب ہے۔ نیپالی روپے کی قیمت ایک روپے تیس پیسے پاکستانی، بھارتی روپیہ پاکستان کے ایک روپے 80پیسے، بنگلہ دیشی ٹکا پاکستان کے ایک روپے 52پیسے کے مساوی ہوچکا ہے البتہ سری لنکن روپے کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر مستحکم ہے۔ دوسری جانب روپے کے مقابلے میں ڈالر کی شرح مبادلہ میں حیران کن بلندی نے مہنگائی کا وہ در کھولا ہے جس کا پہلا اثر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں پر پڑا ہے۔ یہ صورت حال متقاضی ہے کہ ملکی معیشت کا پہیہ تیز تر کرنے کا عمل پاکستانی روپے کا کردار بڑھا کر کیا جائے۔ یہ مقصد غیرملکی قرضوں اور غریبوں پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے کے آسان مگر بدترین استحصالی طریقے سے نہیں، وسائل پر قابض اشرافیہ کو براہ راست ٹیکس نیٹ میں لانے سے حاصل ہوگا۔

تازہ ترین