منصفانہ انتخابات سے متعلق کئی سوال اپنی جگہ موجود ہیں۔تقریباً تمام جماعتیں یک زباں ہو کر یہ الزام لگا رہی ہیں کہ ایک سیاسی جماعت کو اقتدار میں لانے کیلئے دھونس و دھاندلی ہی نہیں تمام ریاستی وسائل اور ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔
اس صورتحال میں پاکستان کے عوام کے شعور کا امتحان ہے کہ کیا وہ ایک بار پھر انہی لوگوں کو ووٹ دینگے جن کو ماضی میں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا کر پھر وہ پانچ سال تک مطعون بھی کرتے ہیں۔ عمران خان نے گلے سڑے نظام کی تبدیلی کی بات ہی نہیں بلکہ جدوجہد بھی کی۔بھٹو کے بعد وہ دوسرے لیڈر ہیں جن کو عوام نے بڑے پیمانے پر پذیرائی بخشی۔
دل دہلا دینے والی یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ جن لوگوں کو وہ گند قرار دے رہے تھے آج ان لوگوں کی اکثریت خان صاحب کی جماعت میں صف اول میں موجود ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اڑھائی فی صد سے زائد قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدواران نے پارٹیاں تبدیل کیں۔ہمارے معاشرے کا اصل روگ یہی لوگ ہیں جو بھانپ لیتے ہیں کہ کونسی جماعت اقتدار میں آرہی،کچھ جگہوں سے انہیںاشارے بھی مل جاتے ہیں۔پھر انتخابات کابگل بجتے ہی یہ آشیانے بدل لیتے ہیں۔اس بار سب سے زیادہ لوگوں نے مسلم لیگ(ن)کو چھوڑا جبکہ دیگر جماعتوں سے آنے والے سب سے زیادہ امیدواران کی پناہ گاہ تحریک انصاف بنی۔عوام کو چاہیے کہ ایسے ضمیر فروش جس جماعت میں بھی شامل ہوئے ہوں انہیںکسی صورت ووٹ نہ دیں۔
خان صاحب کل تک جن پر تنقید کرتے تھے آج ان کوElectableیعنی جو سیاسی حرکیات کو سمجھتے ہیں اور انتخاب جیت سکتے ہیں،کا جواز عام آدمی کو پیش کرکے مطمئن کرنے کی کوشش فرمارہے ہیں مگر وہ یہ حقیقت کیوں بھلا رہے ہیں کہ اس طبقے کی’’ اسی مہارت ‘‘کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلم لیگ و پیپلز پارٹی بھی اپنے ہاں خوش آمدید کہتی رہیں۔
عمران صاحب نے1996ء میں تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اور عوامی پذیرائی کے باوجود وزیر اعظم نہ بن سکے۔طیب اردوان نے2001ء میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی بنائی اور Electable کے روگ میں مبتلا ہوئے بغیر اگلے ہی سال2002ء میں اقتدار میں آگئے۔عالمی سازشوں کے باوجود مسلسل پانچواں انتخاب جیت چکے ہیں۔
اسلئے ہم جناب خان سے معذرت کیساتھ یہ کہیں گے کہ
نہ ہم بدلے،نہ تم بدلے،نہ دِل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کر لوں
ووٹ ایک بہت بڑی امانت ہے۔
’’مسلمانو !اﷲتمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو توعدل کیساتھ کرو،اﷲ تم کونہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناََاﷲسب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے‘‘۔(سورہِ نسا،آیت 58)
ووٹ امانت بھی،شہادت بھی اور سفارش بھی ہے۔ایک ووٹر جب کسی امیدوار کے حق میں ووٹ دیتا ہے تو گویا اپنے عمل سے وہ اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اس نے باصلاحیت و صالح فرد کے حق میں اپنی رائے دے کر اﷲکا حکم مانا ہے۔
جس امیدوار میں درج بالاصفات نہیں اسے جان بوجھ کر ووٹ دیا تو یہ جھوٹی شہادت (گواہی )دینے کے مترادف ہے۔
ایک بار نبی مہربانﷺفجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد کھڑے ہو گئے اور تین مرتبہ فرمایا’’جھوٹی گواہی شرک کے برابر ہے‘‘(سنن ابی دائود)
یہ تو ہمیں یقیناََمعلوم ہے کہ اﷲ شرک کو معاف نہیں فرماتے۔
سورۃنسا ہی میں آیت 85میںاﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ’’جو بھلائی کی سفارش کرے گاوہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گاوہ اس میں سے حصہ پائے گا اوراﷲ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے۔‘‘
1971ء کے حادثے کے بعد ایک بار پھر ہم اندرونی و بیرونی بڑے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔مشرقی ہی نہیں اب تو ہمیں مغربی سرحدوں پر بھی بڑے خطرات درپیش ہیں۔مغرب سے آنے والوں کی مکروہ کارروائیوں کے نتیجے میں ہم ہارون بلور اور سراج رئیسانی جیسے محب وطن رہنمائوںاور سینکڑوں شہریوں کے جانی نقصان کا شکار ہو گئے۔
بیرونی خطرات سے نبردآزما ہونے کے لئے وقت کا تقاضاتو یہ تھا کہ ہم سیسہ پلائی دیوار کی مانند دشمن کا مقابلہ کرتے مگر وائے ناکامی متاع کارواں کہ ہم ان خطرات کا ادراک ہونے کے باوجوداندرونی محاذپر مصروف عمل ہیں۔ایک شخص کو اقتدار سے باہر اور دوسرے کو داخل کرنے اور اسکی سہرہ بندی پر ساری توجہ مبذول ہے۔پاکستان کے اہم اداروں میں ایسی کھلم کھلا جنگ بپا ہے جس کی مثال ماضی میں ڈھونڈنا مشکل ہے۔
انتخابات میں اﷲاور جناب رسالت ماب ؐکے فرامین کو سامنے رکھ کر ہی عوام اور ادارے اس ملک کی بھنور میں پھنسی کشتی کو کنارے لگا سکتے ہیں۔
یہ کہنا کہ اہل اور دیانت دار لوگ ہمارے ہاں ناپید ہیں بالکل غلط ہے۔تحریک پاکستان کے کارکن عبدالستار افغانی جو کہ کراچی یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے تھے۔ کراچی کے دوبار مئیرمنتخب ہوئے۔کراچی میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا دیا۔مئیر سے فارغ ہوئے توبھی لیاری کے دو مرلے کے گھر ہی میں رہے۔ مئیر بننے سے پہلے بھی ماموں کی جوتوں کی دکان پر سیلز مین تھے اور اربوں روپے کے ترقیاتی کام کروانے کے بعد بھی اسی جوتوں کی دکان پر جا کر دوبارہ سیلز مین بن گئے۔پیرانہ سالی کے باوجود نعمت اللہ خان کراچی کے مئیر بنتے ہیں تو رات دیکھتے نہ دن ہمہ وقت مصروف رہ کر اہالیان کراچی کی خدمت کرتے ہیں ۔ خان صاحب نے کراچی کی تعمیر و ترقی میں تاریخی کردار ادا کیا۔ان کے نظریاتی مخالف گورنر سندھ عشرت العباد نے انکو جو خراج پیش کیا وہ الگ سے ایک کالم کا متقاضی ہے مگر تنگیِ کالم کے پیش نظر ہم ایک ہی جملے پر بس کرتے ہیں کہ’’ میں سترہ سال گورنر رہا میرے ساتھ کراچی میں مختلف لوگوں نے کام کیا مگر میں نے نعمت اﷲجیسا ان تھک،ویژنری اور ایماندار رہنما نہیں دیکھا۔‘‘
ان کی کارکردگی وقت کے آمر پرویز مشرف کی نگاہ میں بھی تھی،دوسری بار کراچی کے مئیر کا مرحلہ آیا تو انکو بلا کر کہا کہ نعمت اﷲخان صاحب میں اب بھی آپ کو کراچی کا میئر دیکھنا چاہتا ہوں مگر آپ میں خرابی یہ ہے کہ آپ کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔عاقبت نااندیش آمرکو نعمت اﷲخان نے بتایا کہ جسے آپ خرابی سمجھ رہے ہو وہی جماعت اسلامی ہی تو میری خوبی ہے پھر خوبیوں کے حامل نعمت اﷲکو’’تھانیداروں ‘‘کی مداخلت سے دوسری بار مئیر نہ بننے دیا گیا۔
کراچی جماعت کے جوان امیر حافظ نعیم نے شہری مسائل بالخصوص کے الیکٹرک کے خلاف جو آواز اٹھائی کوئی دوسرا نہ اٹھا سکا۔
تبدیلی کے دعویٰ کرنے والوں کی ذاتی زندگیوں میں مال و دولت کی فراوانی سے بڑی تبدیلی آئی مگر سچ یہ کہ خیبر پختونخواصوبے میں دو مرتبہ سراج الحق سینئر وزیر و وزیر خزانہ رہے انکی جماعت ہی کے جوان و باصلاحیت وزیر عنایت اﷲنے اکرم درانی کیساتھ وزیر صحت اور پرویز خٹک کیساتھ وزیر بلدیات کے طور پر کام کیا،انکی شاندار کارکردگی پر عالمی اداروں کی رپورٹس میں تحسین کی گئی۔
جماعت اسلامی کا دشمن بھی ان رہنمائوں پربددیانتی کا الزام نہ لگا سکا۔دیانتدار و باصلاحیت امیدواران جماعت اسلامی کے علاوہ بھی آپ کو مل جائیں گے۔
اﷲ جل شانہ کی صفت بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال ؒنے کہا تھا کہ
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
یاد رکھیں ہم نے صحیح فیصلے نہ کئے تواﷲکے انتقام سے بچ نہ پائیں گے۔
مختار مسعود مرحوم نے سچ لکھا کہ ’’قدرت بعض معاملات میں بڑی بے لحاظ ہوتی ہے موقع ملے تو افراد ہی نہیں بلکہ قوموں اور ملکوں کے کپڑے بھی اتروا لیتی ہے،اگرحافظہ اور حوصلہ ساتھ دیں تو 16 دسمبر 1971ء کویاد کرلیں"۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)