• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کل 25جولائی ہے، تمام تر خدشات اور تحفظات کے باوجود پاکستان کے لئے تاریخی دن آن پہنچا۔ ملک میں پہلی بار مسلسل تیسری بار عام انتخابات ہورہے ہیں۔ تیسرے جمہوری دور کے آغاز کے لئے20 کروڑ عوام اپنے حق رائے دہی کا استعمال کل کریں گے۔ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، کئی اتحاد، آزاد اور درجنوں سیاسی و مذہبی سمیت کالعدم جماعتیں بھی انتخابات میں باہم مقابل ہیں۔ کئی جماعتوں نے اپنے منشور بھی پیش کئے ہیں تاہم عوام نے ماضی کی پرفارمنس کو مدنظر رکھتے ہوئے ان منشوروں میں کوئی زیادہ دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے۔ حالیہ انتخابی سیاسی جلسوں میں نامناسب زبان سمیت کچھ ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے جبکہ کے پی اور بلوچستان میں دہشت گردوں نے موقع پاکر اپنا کام بھی دکھایا لیکن سیکورٹی ادارے الرٹ اور جولائی کا مون سون ابھی صبر و تحمل میں ہے خدا کل کی خیر کرے۔ انتخابی مہم تو گزشتہ رات ختم ہوچکی تاہم سیاسی میدان بدستور گرم ہے۔ کہیں نئے پاکستان کے خواب دکھائے گئے ہیں تو کہیں پرانے پاکستان کی مرمت اور اس کو آسودہ حال بنانے کے وعدے دروازوں پرجاکر کئے جارہے ہیں، کہیں عوام کی امیدیں نئے چہروں اور نئے نظام سے وابستہ کرنے کے عہد لئے جارہے ہیں تو کہیں پرانے کرداروں کے لئے نئے اسکرپٹ سے ہمدردی لینے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ کہیں ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ سے دل مطمئن کیا جارہا ہے تو کہیں ترقی کو ووٹ دینے کے خوشنما نعرے ہیں۔
ماضی میں جھانکیں تو دلچسپ صورت حال کا سامنا ہوتا ہےکہ وطن عزیز میں جب بھی کوئی جماعت برسراقتدار آتی ہے تو اقتدار سے جانے کا خیال ہی ترک کردیتی ہے، عوام کے لئے کچھ کیا ہو یا نہیں بس انہیں ترقی کے دعوئوں کے خواب میں الجھائے رکھتی ہے۔ دراصل اقتدار کے دوران اپنا سب کچھ اچھا اور دوسروں کا اچھا بھی برا نظر آتا ہے اس کا عملی ثبوت گزشتہ پانچ برس ہیں جب سب اقتدار میں تھے، سب خود کو اچھا دوسرے کو برا کہنے میں لگے رہے اور اسی کو انتخابی مہم بھی بنایا۔ امر واقعہ ہےکہ 2002 کے کنٹرولڈ الیکشنز میں تخت پانے والے محض اقتدار کے نشے میں دھت رہنے والوں کی پہلے 2007میں چھت چھن گئی پھر2008 کے انتخابات میں راندہ درگاہ ہوگئے،2008 میں اقتدار سنبھال کر عوام کو کچھ نہ دینے والے2013 کےانتخابات میں ہوا ہوگئے جبکہ2013 کے عام انتخابات کے بعد آنے والے2018 کے انتخابات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے 2023 کے بعد بھی اقتدار کے خواب میں نااہل ہوگئے۔ وجوہات کچھ بھی ہوں اقتدار کی کرسی کسی کی نہیں، لیکن کون سمجھے؟ گزشتہ چند ماہ سے سیاسی لانڈری اور احتسابی دھلائی کا ایسا انتظام کیا گیا کہ لیڈرشپ جیل اور کارکن زندان کے باہر ملول و پریشان ہیں۔ نہالوں، دانیالوں اور طلالوں سمیت کئی ایک کو حد سے تجاوز کرنے پر اپنے کئے کی سزا بھگتنے کی راہ دکھادی گئی ہے۔ طوفان کے گزر جانے کے بعد ہر طرف شکوے اور شکایتیں ہیں، مشکلات اور ظلم کی داستانیں دہرائی جارہی ہیں تو کہیں لاڈلے کا تذکرہ ہے، کچھ اپنی خطائوں سے ای سی ایل میں اور کچھ اپنی ادائوں سے نکالنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ راقم نے چند ماہ پہلے اپنے ایک کالم میں انکشاف کیا تھا کہ سابق حکمران جماعت کے آدھے سیاسی احتسابی شکنجے کے ذریعے اندر، ادھر ادھر سے آنے والے دوسری بس یا جیپ کے ذریعے اگلی منزل کو منتقل ہوں گے اور چند وفاداروں پر اکتفا کرنا پڑے گا، میرے جملوں پر بہت تنقید بھی کی گئی، تاہم آج 2018کے انتخابات کے اختتامی مرحلے پر دو دن پہلےحنیف عباسی کی سزا و نااہلی نے اس منظر کو مزید واضح کردیا ہے۔ اس دوران بھی بہت کچھ ہوا ہے جبکہ بڑے میاں کی غیرمتوقع وطن واپسی اور جیل جانے کے فیصلے نے عوامی ردعمل دکھایا ہے۔ تاہم اب انتظار شفاف انتخابی عمل کا ہے جس میں سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا سےمتاثرہ عوام گھروں سےباہر نکل کر اپنا فیصلہ دیں گے، بیلٹ سے نکلنے والے اس فیصلے میں50 سے60 فیصد نوجوان طبقے بالخصوص 50 لاکھ سے زائد نئے ووٹرز کا کلیدی کردار ہوگا۔ نتائج کے بارے میں ابھی حتمی طور پرکچھ بھی کہنا مناسب نہیں ہوگا تاہم الیکشن مہم کے آخری دنوں میں مسٹر خان کے جلسوں سے عوام کا غائب ہونا، چھوٹے بھائی کے بھرپور جلسے اور بلاول کی پنجاب و کے پی میں دھواں دھار انٹری حیرت انگیز ہے۔ موجودہ صورت حال میں اندازے لگائے جارہے ہیں کہ آئندہ کسی ایک جماعت کو اکثریت نہ مل سکے اور ایک ہنگ پارلیمنٹ آنے کا امکان پیدا ہوجائے تاہم نتائج غیرمتوقع بھی آسکتے ہیں؟ تاہم یہ بات الگ باعث حیرت ہے کہ 2013کے انتخابی عمل کے بعد رات گیارہ بجے دو تہائی اکثریت دینے کی بات کو دھاندلی قرار دینے والے اب خود ہنگ پارلیمنٹ کو مسترد اور ابھی سے اکثریت دینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
چند دن پہلے میرے امریکہ میں قیام کےدوران ملاقاتوں میں دیارغیر میں مقیم پاکستانی بیرون ملک سےا ٓن لائن ووٹ کاحق نہ دینے پر سخت نالاں نظر آئے، ان کا موقف تھا کہ نادرا سمیت دیگر حکومتی اداروں کے گزشتہ پانچ سال میں مسلسل دعوئوں اور وعدوں کے باوجود لاکھوں تارکین وطن کو بیرون ملک سے آن لائن ووٹ کےحق سے پھر محروم کردیا گیا جو سخت ناانصافی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر شدت سے تبدیلی کے خواہاں نظر آئے جبکہ ملک میں برسہا برس سے روایتی طرز سیاست، کرپشن، جمہوری حکومتوں کے عدم استحکام اور عام آدمی کے ناگفتہ بہ حالات دیکھ کر پریشانی بھی ظاہر کی، ان کی خواہش ہے کہ اب کی بار اقتدار نئے لوگوں کے ہاتھ آئے اور موجودہ نظام میں تبدیلی لائی جائے، کرپٹ اشرافیہ اور الفاظ کی جادوگری سے نجات دلائی جائے۔ انہی میں ایسے امریکن پاکستانی بھی ہیں جو پرانے پاکستان کےحامی اور اس کی پراسیس کے ذریعے اوور ہالنگ پر یقین رکھتے ہیں ان کےخیال میں مسلسل تیسرے عام انتخابات کے انعقاد کا مطلب عوام کا سیاسی و جمہوری نظام پر اعتماد و اعتقاد ہے اور وقت کے ساتھ عوام اور قومی اداروں کی جمہوری نظام وابستگی مضبوط ہورہی ہے، پارلیمنٹ اور دیگر ادارے مضبوط ہوں گے تو ایک پاکستان اور اس کو ترقی یافتہ ملک بنانے کا خواب پورا ہوسکے گا۔ دیکھا جائے تو پاکستان کے شہروں اور دیہی علاقوں میں رہنے والا عام پاکستانی بھی اسی دورائے میں منقسم ہے لیکن فیصلہ تو بہرطور اسی فرض شناس پاکستانی نے ووٹ کے ذریعے خود کرنا ہے جی ہاں پاکستان کی سیاسی و جمہوری تاریخ کا فیصلہ، پاکستان کی تقدیر اور مستقبل کافیصلہ۔ نئےپاکستان یا پرانے پاکستان کا! اہل وطن، اس بار اصل امتحان سیاستدانوں یا کسی اور کا نہیں بلکہ آپ کا ہے، ووٹ کی پرچی کی طاقت ابھی آپ کے پاس ہے، آپ کو یقیناً پورے اعتماد اوربغیردبائو کے درست اور مخلص امیدوار کے انتخاب کی سعی کرنا ہے۔ کسی امیدوار یا جماعت نہیں پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے، آئندہ حکومت سے پہلے آپ ہی نےکچھ کرکے دکھانا ہے، خوش آئند ہے کہ انتخابی عمل بروقت ہونے کا وعدہ پورا ہونے جارہا ہے بلاشبہ قومی سیکورٹی کے ضامن ادارے اس جمہوری عمل کے شفاف اور غیرجانبدارانہ انعقاد میں کلیدی کردار ادا کرکے تاریخ رقم کرسکتے ہیں، جبکہ آزاد میڈیا کی بھرپور شمولیت سے سکہ بند شفافیت کا ماحول ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ بیلٹ پیپر کے فیصلے کی تقدیس زیادہ اہم ہے، اس عمل کو نتیجہ خیز بنانے سے پوری قوم اور عالمی سطح پر ان انتخابات کی توثیق ممکن ہوگی، تبھی منتخب عوامی نمائندے پورے اعتماد کے ساتھ ملک وقوم کے لئے کچھ کر دکھانے کا حوصلہ اور کوشش کرسکیں گے۔

تازہ ترین