• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں انتخابات کےنتائج حیران کن ہوں گےکیونکہ تقریباً30سالوں میں کسی کوبھی پولنگ سے24گھنٹےپہلےتک معلوم نہیں ہوتاکہ کون سی جماعت 21این اے اور43پی ایس کی نشستوں پراکثریت حاصل کرےگی، لیکن مقابلہ یقیناًچاراہم جماعتوں میں ہےیعنی متحدہ قومی موومنٹ ایم کیوایم (پاکستان)، پاکستان پیپلزپارٹی، متحدہ مجلس عمل، پاکستان تحریک انصاف اور پاک سرزمین پارٹی۔ لہذا 25جولائی کے نتائج سوائےایک یادو سیٹوں پراپ سیٹ کےان ہی پارٹیوں کےدرمیان ہوں گے، اس کاالیکشن کےروزووٹرزکےٹرن آوٹ پر بھی انحصارہے کیونکہ کراچی میں الیکشن مہم کی شدت کم ہے یا کم رکھی گئی ہے۔ اگرلندن سے الیکشن بائیکاٹ کی کال کااردوبولنےوالوں کےحلقوں پر کوئی اثرہوا توایم کیوایم (پاکستان) اورپاک سرزمین پارٹی پربراہِ راست اثرپڑےگا،اس کافائدہ ایم ایم اے اور پی ٹی آئی کوہوگا۔ الیکشن میں ان سب تینوں پارٹیوں کے سربراہان یعنی بلاول بھٹو، عمران خان اور شہباز شریف کیلئے کوئی آسان فتح نہیں ہوگی۔ انھیں اپنےمخالف امیدواروں کی جانب سےسخت مقابلےکاسامناہے۔ پانچ میں سے کوئی بھی پارٹی اس وقت مطمئن ہوگی جب انھیں این اے کی چھ سیٹیں ملیں گی اور اس سےزیادہ ملیں گی تو وہ بونس ہوگا۔ مقابلے میں شامل دیگر پارٹیاں حیران کرسکتی ہیں ان میں تحریک لبیک پاکستان، پاکستان مسلم لیگ(ن) اور اہلِ سنت والجماعت شامل ہیں اور وہ بھی این اے یا پی ایس کی چند سیٹیں جیتنے کیلئےپُرامید ہیں۔ اے ایس ڈبلیوجےکےرہنما اورنگزیب فاروقی کو این اے 238میں پی ایم ایل(ن)، پی ٹی آئی اور پی پی پی کے سابق رہنمامظفرعلی شجرہ کی حمایت ملنے کے بعدپوزیشن مضبوط ہے۔ لیکن یہ انتخابات ایم کیوایم (پاک)کیلئےمشکل ترین ہیں، اسے2013میں این کے 20میں سے18سیٹیں ملی تھیں۔ اس ایم کیوایم کا موازنہ 2013والی ایم کیوایم سے کرنا غلط ہوگا۔ ایم کیوایم کیلئے کئی وجوہات کے باعث پرانی پوزیشن حاصل کرنابہت مشکل ہوگا، ان میں پارٹی میں پھوٹ، لندن کاعنصر، غیرسیاسی دبائووغیرہ شامل ہیں۔ تاہم گزشتہ دو ہفتوں میں اس نے اپنی پوزیشن بہتر کی ہےاور ان تمام سیاسی ماہرین کو حیران کرنےکیلئےپُراعتماد ہےجن کےمطابق ایم کیوایم کی جانب سےتین یاچارسیٹوں سےزیادہ جیتنےکی امیدنہیں ہے۔ ایم کیوایم کےرہنما فیصل سبزواری نے مجھےبتایاکہ،’’اگرچہ ہم بہت سے مشکلات کے باوجود انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں لیکن ہم لوگوں کوحیران کردیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم کیوایم گزشتہ تین سال میں تین بات تقسیم ہونےکےبعد الیکشن میں حصہ لےرہی ہے، اس کے باعث نہ صرف پریشانی میں اضافہ ہوئی بلکہ بہت سے لوگوں کی وفاداریاں پی ایس پی اور پی ٹی آئی کی جانب ہوگئیں۔ حتیٰ کہ 2002میں متحدہ ایم کیوایم کی چھ سیٹیں متحدہ مجلس عمل کو مل گئی تھیں جو کئی دیگر جماعتوں کے علاوہ جماعت اسلامی اورجمعیت علمائے اسلام(ف) کا اتحاد ہے۔ ایم کیوایم نے انتخابات میں چند تجربہ کارامیدوار اتارےہیں۔ ان میں ڈاکٹرفاروق ستار، خالد مقبول صدیقی، کشورزہرہ اور امین الحق، رئوف صدیقی، اقبال محمد خان شامل ہیں۔ ایم کیوایم(پاک) کی اہم مخالف پی ایس پی ایم کیوایم کی 2013والی تمام نشستیں جیتنے کیلئے پُراعتماد ہے، اس کے چیئرمین مصطفیٰ کمال یہ ہی دعویٰ کرتےہیں جنھیں ایم کیوایم کےدیرینہ کارکن اور سابق ایم پی اےاسامہ قادری کی جانب سےمشکل مقابلےکاسامنا کرناپڑسکتا ہے۔ مصطفیٰ کمال ایم کیوایم کے رہنماخواجہ اظہارالحسن کے خلاف صوبائی اسمبلی کی سیٹ پربھی لڑرہےہیں۔ پی ایس پی نے ایم کیوایم کےسابقہ اراکین اسمبلی اورنئےامیدواروں جن میں پی ٹی آئی کی سابقہ رکن فوزیہ قصوری بھی شامل ہیں، ان سب کوایک ساتھ ہی میدان میں اتاراہے۔ دوسری جانب ایم ایم اےنے بھی کئی تجربہ کار امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے اور 2002والی پوزیشن حاصل کرنےکیلئےپُرامید ہے۔ ان میں محمدحسین محنتی، ڈاکٹرمیراج الہدا صدیقی، اسداللہ بھٹو، حافظ نعیم، لیئق، زاہد سعید اور سیف الدین شامل ہیں۔ ایم کیوایم اور پی ایس پی کے درمیان تقسیم شدہ ووٹوں کےنتیجےمیں ایم ایم اےتین سےچارسیٹوں پراپ سیٹ کرسکتی ہے۔

تازہ ترین