• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کبھی کبھار شہر کی پُرآشوب اور ہنگامہ خیز زندگی سے اکتا کر آپ کا دل چاہتا ہے کہ کسی ایسے مقام کی طرف جایا جائے جہاں سکون کے کچھ لمحات میسر آسکیں اور انسان کو اپنے بارے میں سوچنے کیلئے کچھ وقت مل سکے۔ یہی کچھ میرے ساتھ ہوا جب میں نے برازیل میں منعقدہ ”وش لیڈر کانفرنس“ کے اختتام کے بعد دنیا کے مشہور جنگل میں کچھ دن گزارنے کا فیصلہ کیا۔ ایمزون جنگل کا شمار دنیا کے سب سے بڑے اور گھنے برساتی جنگل میں ہوتا ہے جو براعظم جنوبی امریکہ کے1.7/ارب ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس کا زیادہ تر حصہ برازیل میں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ جنگل برازیل کے 40 فی صد رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ برازیل کے شہر ساؤ پالوسے 5 گھنٹے کا فضائی سفر طے کرنے کے بعد جب طیارے کے پائلٹ نے ایمزون کے شہر مناؤس (Manaus) کے ایئرپورٹ پر اترنے کا اعلان کیا تو جہاز کی کھڑکی سے حد نظر تک پھیلا ہوا گھنا جنگل اور درمیان میں بہتا ہوا دریائے ایمزون ایک دلکش منظر پیش کررہا تھا۔ دریائے ایمزون کا شمار دنیا کے بڑے اور طویل ترین دریاؤں میں ہوتا ہے جو ایمزون جنگل سے گزرتا ہے۔یہ دریا پیرو سے شروع ہوکر برازیل میں داخل ہوتا ہے اور 6,400 کلومیٹر طویل فاصلہ طے کرتے ہوئے بحراوقیانوس میں جا گرتا ہے جبکہ اس دریا میں پانی کا بہاؤ دنیا کے تمام دریاؤں کے پانی کا ایک چوتھائی شمار کیا جاتا ہے۔
برازیل آنے سے قبل مجھے اندازہ نہ تھا کہ یہ ایک ملک نہیں بلکہ ایک بڑے خطے کا نام ہے جو براعظم جنوبی امریکہ کے ایک بڑے حصے پر پھیلا ہوا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک شہر سے دوسرے شہر تک 5 گھنٹے کا طویل فضائی سفر طے کرنے کے بعد بھی ملک کی سرحدیں ختم نہیں ہوئی تھیں۔ ایئرپورٹ پر ٹور آپریٹرز کے اہلکار نے مجھے خوش آمدید کہا جس کے بعد سیاحوں سے بھری وین جس میں زیادہ تر غیر ملکی سیاح سوار تھے جنگل کے درمیان بنی سڑک سے ہوتی ہوئی دریا کے کنارے واقع جیٹی کی جانب روانہ ہوئی۔ ٹور آپریٹرز نے مجھے دو آپشنز دیئے تھے ایک یہ کہ اگر میں چاہوں تو ایمزون شہر کے ہوٹل میں قیام کروں اور وہ روزانہ مجھے ہوٹل سے ایمزون جنگل لے جایا کریں گے جبکہ دوسرا آپشن ایمزون جنگل کے درمیان بنے ہوٹل میں قیام کا تھا۔ چونکہ مجھے کچھ دن سکون کے درکار تھے اس لئے میں نے جنگل کے درمیان بنے ہوٹل میں رہنے کو ترجیح دی۔ ایک گھنٹے کے خوشگوار سفر کے بعد ہم دریائے ایمزون کی ایک جیٹی پر پہنچے جہاں سے ہمیں کشتی کے ذریعے ایمزون جنگل میں واقع ہوٹل کی جانب روانہ ہونا تھا۔ تقریباً 2 گھنٹے کے سفر کے بعد ہماری کشتی دریا کے کنارے پر رکی جہاں سے ہمیں جنگل میں درختوں کے درمیان بنائے گئے کچے راستے کے ذریعے ہوٹل لے جایا گیا۔ چاروں جانب سے درختوں اور لکڑی کی باڑوں میں گھرا یہ ہوٹل اپنی نوعیت کا ایک منفرد ہوٹل تھا جہاں درختوں کی اونچائی پر مچان نما کمرے بنائے گئے تھے۔ میں نے اتنا پرُسکون ماحول پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ شام کے اندھیرے پھیلتے ہی جنگلی جانوروں اور پرندوں کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں اور دن بھر کی مسافت کی تھکن کے باعث مجھے یاد نہیں کہ میری آنکھ کب لگ گئی۔ علی الصبح پرندوں کی چہچہاہٹ سے جب میری آنکھ کھلی تو کمرے کی کھڑکی سے جنگل ایک خوبصورت منظر پیش کررہا تھا۔ ناشتے سے فارغ ہوکر ہم ایک گھنٹے کے کشتی کے سفر کے بعد دریائے ایمزون کے دوسرے کنارے پر پہنچے جہاں آج بھی دنیا سے لاتعلق جنگلی قبائلی باشندے صدیوں سے ایمزون جنگل میں رہائش پذیر ہیں اور ان کا گزر بسر شکار پر ہے۔ میرے گائیڈ نے ان جنگلی باشندوں کو انہی کی زبان میں میرا تعارف ایک دوست کی حیثیت سے کرایا۔ میں نے بچپن میں جنگلی باشندوں کے بارے میں سنا ضرور تھا لیکن آج جب میں نے ان نیم برہنہ لوگوں کو جو جسم کا صرف نچلا حصہ ڈھانپے ہوئے تھے، دیکھا تو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ گائیڈ نے مجھے ان جنگلی باشندوں کے سردار سے بھی ملوایا جس نے مجھے اپنے ہاتھ سے بنا ایک خنجر تحفتاً پیش کیا تو اس موقع پر میں بھی اپنے سر پر پہنی سبز کیپ جس پر پاکستان تحریر تھا اتار کر سردار کو پیش کی اور سردار اور اس کی فیملی کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔ اس طرح مجھے ان قبائلی باشندوں کے رہن سہن کو قریب سے دیکھنے اور ان کے ساتھ قبائلی رقص کرنے کا موقع بھی ملا۔ ایسے میں ایک اونچے درخت سے عجیب سی سیٹی کی آواز سنائی دی، جب میں نے اپنی نگاہ اوپر دوڑائی تو مجھے کچھ ننگ دھڑنگ جنگلی بچے درخت کی ٹہنیوں پر بندروں کی طرح جھولتے نظر آئے۔ واضح ہو کہ ایمزون کے جنگل میں خوفناک جانور، مگرمچھ، زہریلے سانپ، بچھو اور کیڑے کثرت سے پائے جاتے ہیں، یہاں ایسے مچھر بھی ہیں جو ڈینگی مچھر سے بھی زیادہ خطرناک ہیں اسی لئے جنگل میں رات گزارنے والے سیاحوں کو ان سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے لگوانا لازمی ہے۔ ایک رات جب چاند کی روشنی ایک دلفریب منظر پیش کررہی تھی تو ہمیں جنگل کی سیر کو لے جایا گیا، جنگل میں کئی کلو میٹر پیدل سفر کے بعد جب میں واپس ہوٹل آیا تو حفاظتی جوتے پہننے کے باوجود میری ٹانگیں کئی جگہوں سے زخمی تھیں اور ان سے خون رس رہا تھا جبکہ کیڑوں کے کاٹنے کے کچھ نشانات بھی میری پنڈلی پر نمایاں تھے۔ صبح ہوتے تک میری ٹانگوں پر سوجن آگئی جس کے باعث مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔ایمزون جنگل میں گزارے گئے 5 دن میری زندگی کے یادگار ترین دن تھے جہاں مجھے قدرتی حسن کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے دریائے ایمزون میں دنیا کی نایاب پنک ڈولفن کے ساتھ تیراکی اور رات کو ایمزون جنگل کا پرخطرسفر بھی کیا۔ میں نے اس مقام کو بھی دیکھا جہاں پیرو سے آنے والا ایک دریا اور دریائے ایمزون کئی کلومیٹر تک ایک ساتھ چلتے ہیں اور ان کے پانی آپس میں نہیں ملتے جبکہ ان کے پانی کی رنگت بھی مختلف ہے۔ مجھے دریائے ایمزون کے آبشار سے مچھلی پکڑنے اور اسے قبائلی انداز میں آگ پر بھون کر کھانے کا منفرد تجربہ بھی حاصل ہوا۔ میں نے ایمزون دریا میں لینڈ کرنے اور ٹیک آف کرنے والے ہوائی جہاز سے ایمزون جنگل کا فضائی مظاہرہ بھی کیا۔ میرا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ میں دنیا کی کسی بھی جگہ پر ہوں اپنی والدہ سے بذریعہ فون رابطہ کرکے ان کی خیریت ضرور دریافت کرتا ہوں اور ساتھ ہی ان سے ڈھیر ساری دعائیں بھی لیتا ہوں لیکن ایسا پہلی بار ہوا کہ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سہولت میسر نہ ہونے کے باعث میں اپنی والدہ کو فون نہ کرسکا اور دنیا سے بھی لاتعلق رہا۔ ایمزون کے بعد میری اگلی منزل برازیل کا مشہور شہر Rio De Janeiro تھی جس کے بارے میں، میں آئندہ کالم میں تحریر کروں گا۔
تازہ ترین