• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں اللہ کا شکر ہے کئی خدشات کے باوجود کسی تاخیر کے بغیر عام انتخابات ماسواء کوئٹہ کے پرامن ماحول میں مکمل ہو گئے ہیں جس میں عمران خان واضح اکثریت کیساتھ کامیاب ہو گئے ہیں۔ اسی طرح عمران خان کو ان کی 22سالہ جدوجہد کا ثمر تو مل گیا ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ کئی بڑے چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے جو ان کے بطور وزیر اعظم حلف اٹھانے کے بعد ماضی کی حکومتوں کی غلط اور غیر متوازن معاشی پالیسیوں کے حوالے سے معاشی مشکلات کا ایک بڑا پیکیج انہیں اٹھانا اور کسی سمت لگانا پڑے گا۔عمران خان کی دو روز قبل پری پرائم منسٹر تقریر میں ایک بڑی تبدیلی یہ نظر آئی کہ وہ جارحانہ انداز سے زیادہ عاجزی کیساتھ قوم سے مخاطب ہوئے۔ یہی وقت اور حالات کا تقاضا تھا اس سے مجھے 1970ء کی دہائی کا عمران خان یاد آ گیا جو فاسٹ بائولر کے طور پر بڑے دھیمے انداز میں اپنی بائولنگ کا آغاز کیا کرتا تھا پھر آہستہ آہستہ ان کی رفتار میں تیزی آتی جاتی تھی اب ان کی پہلی تقریر ہی میں عاجزی سے ہر شخص کو خوشی ہوئی کہ وہ ماضی کی سیاست اور روایات کو دفن کرکے نئے عزم اور سوچ کے ساتھ پاکستان کے اگلے سفر کا آغاز کرنیوالے ہیں۔ اب عمران خان نے وزیر اعظم ہائوس چھوڑنے اور وزراء کے بلاک میں آفس ورک کا جو فیصلہ کیا ہے اس طرح چاروں صوبوں کے گورنر ہائوسز کے بارے میں اعلانات 1998ء میں وزیراعظم نواز شریف نے بھی ا سٹیٹ گیسٹ ہائوس میں کئے تھے بعد میں اس حوالے سے کچھ نہیں ہوا تھا اس حوالے سے عمران خان کا انکی تقریر کے حوالے سے آغاز بالکل ٹھیک رہا۔اچھا بائولر اور کھلاڑی ایسے ہی اچھی اننگز کا آغاز کرتا ہے پھر وقت کیساتھ ساتھ وہ جارحانہ انداز اختیار کرتا جاتا ہے ۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ بیرون ملک پاکستانیوں کو سرمایہ کاری میںلانے کیلئے خصوصی ٹاسک فورس بنائیں اور دوسری طرف اعتدال پسندی کیساتھ ملک میں برداشت کی سیاست کی، روایات کا آغاز کریں اسلئے کہ موجودہ حالات میں عمران خان کو کوئی میڈل نہیں ملے۔انہیں حکومت میں آنے سے قبل خارجہ ایشوز سے زیادہ داخلی ایشوز اور بالخصوص معاشی فرنٹ پر کئی چیلنجز ملے ہیں جن کے حل کے لئے انہیں یہ سوچنا ہے کہ وہ اپنے سو دن کے اعلان اور پھر پانچ سالہ پلان پر کیسے عمل کرینگے ۔اسلئے کہ کئی معاشی ایشوز ایسے ہیں جن کے حل کی امید میں ہمارے بیروزگار نوجوانوں اور بچیوں کیساتھ ساتھ عام افراد نےانہیں ووٹ دیئے ہیں اس وقت مسلم لیگ (ن) کیلئے یہ بہترین وقت ہے کہ وہ سوچ بچار کریں کہ آخر کیوں انہیں اتنے سال کے اقتدار کے بعد ایسے حالات سے دوچار ہونا پڑا اور پہلی بار پنجاب میں عددی اعتبار سے انہیں PTIپر برتری حاصل نہیں ہو سکی دوسری طرف عمران خان اور PTIکو ایسی معاشی پالیسیاں بنانی ہونگی جو پاکستان کے امیر طبقہ اور ٹیکس چوروں کیلئے مددگار ثابت نہ ہوں بلکہ وہ غریب اور مڈل کلاس کے مسائل اور مشکلات کو کم کریں ان میں پہلا مسئلہ روزگار کا ہے، دوسرا بڑا مسئلہ گرانی اور خاص کر بجلی گیس وغیرہ کے نرخوں میں کمی کا ہے ۔بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے نئے قرضہ کے حصول کیلئے سوچنے کی بجائے قرضوں کو ری شیڈولنگ یا معافی کیلئے سوچ بچار کرنا ہو گی جیسے 1998ء کےعرصہ میں پریس کلب میں پاکستان نے قرضوں کی ری شیڈولنگ کرائی تھی ۔اس کے علاوہ پاکستانی روپے کی قیمت میں کمی کیلئے قابل عمل اقدامات کرنے اور ہر شخص کو ایک روپے سے لیکر اس کی آمدنی کے کسی بھی حجم میں کچھ نہ کچھ ٹیکس دینے کی عادت ڈالنا ہو گی۔ اس سلسلے میں پہلے مرحلے میں ٹیکسوں کی شرح میں کمی کیلئے سیاسی اور عوامی نقطہ نظر سے گزرنا پڑے گا۔مالیاتی ڈسپلن اور اکنامک گورننس کو یقینی بنانے کیلئے عمران خان کو ذاتی طور پر اپنے سخت رویے کیساتھ وفاق اور صوبوں میں سخت اور بے رحم اقدامات کرنے ہونگے جو مکمل طور پر قومی مفادات اور ضروریات کے پس منظر میں ناگزیر ہیں۔ ملک میں اگر مجموعی طور پر گورننس اور خاص کر اکنامک گورننس بہتر ہو جاتی ہے تو اس سے معاشی انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکتی ہے ۔اسکے ساتھ ساتھ PTIکو سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی اداروں کیساتھ محاذ آرائی والے رویے سے گریز کرنا ہوگا ۔اسلئے کہ مجموعی طور پر سب اداروں کو اس وقت سب سے زیادہ تشویش ملکی معاشی حالات اور صورتحال پر ہے اسکے لئے انہیں ایک بااختیار تھینک ٹینک بنانا چاہئے جس میں لمبی لمبی تقاریر اور ڈرافٹ تیار کرنے والے ماہرین بلکہ عملی طور پر معاشی حالات بہتر بنانے کی آگاہی رکھنے والوں کو شامل کرنا ہوگا۔ااس بارے میں عمران خان بطور وزیر اعظم ملک کے معاشی ماہرین اور مختلف ممبروں سے ملاقاتیں کرلیں اور ان سے مشاورت کے بعد شارٹ ٹرم اور لونگ ٹرم پلان کیلئے مشاورت کریں، وہ جذبات سے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ مسائل حل کرنے کیلئے اپنی موثر ٹیم تیار کریں اور کوشش کریں کہ سب اداروں کے ساتھ ان کے معاملات بہتر سے بہتر رہیں تاکہ انہیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کسی جگہ بلاوجہ کی اپوزیشن نہ ملےاور نہ ہی اپوزیشن کو مختلف ایشوز پر پوائنٹ اسکورنگ کا موقع ملے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین