• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیا پاکستان . . . . مُلک کو درپیش چیلنجز

مُلک میں عام انتخابات ہو چُکے ۔ انتخابی نتائج کے مطابق ،عمران خان کی جماعت، پاکستان تحریکِ انصاف نے برتری حاصل کی ہے اور چیئرمین، پی ٹی آئی آیندہ 5برس کے لیے مُلک کے وزیرِ اعظم ہوں گے۔ انہوں نے اپنی وکٹری اسپیچ میں کہا کہ ’’قوم متّحد ہو۔ میرا مقصد، میری ذات سے کہیں بڑا ہے۔‘‘ اس موقعے پر عمران خان نے معیشت کو بہتر بنانے کی غرض سے مطلوبہ اقدامات پر بھی روشنی ڈالی، جن میں اداروں کو فعال و بہتر کرنا، پاکستانی تارکینِ وطن کو سرمایہ کاری کی ترغیب دینا اور چین سے فائدہ اُٹھانا شامل ہیں۔ متوقّع وزیرِ اعظم نے کہا کہ وہ مُلک کو مدینہ کی طرز کی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک بڑا چیلنج ہے اور پاکستان اپنے پڑوسیوں سمیت تمام ممالک سے خوش گوار تعلقات قائم کرے گا۔ خیال رہے کہ عمران خان گزشتہ کئی برسوں سے ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور اُن کی پارٹی کا بنیادی نعرہ بھی ’’تبدیلی‘‘ ہی ہے۔ چیئرمین، پی ٹی آئی متعدد مرتبہ یہ دعویٰ کر چُکے ہیں کہ اگر اُن کی جماعت کو حکومت کرنے کا موقع ملے، تو وہ مُلک و قوم کے حالات بدل دیں گے۔ پاکستان کو اقتصادی طور پر مضبوط مُلک بنائیں گے اور اس کی عزّت و وقار میں اضافہ کر کے بانیانِ پاکستان کے مقاصد حاصل کریں گے۔ نیز، عمران خان کا یہ دعویٰ بھی رہا ہے کہ وہ مُلکی وسائل سے ترقّی کے لیے سرمایہ فراہم کریں گے۔ 

نظام اور پالیسیز کو دُرست کریں گے، جس کے نتیجے میں مُلک میں خوش حالی آئے گی۔ مُلک سے لُوٹی گئی دولت کو، جو ان کے مطابق بیرونِ مُلک منتقل کر دی گئی ہے، وطن واپس لائیں گے، جس کے نتیجے میں قرضوں اور بجٹ خسارے سے نجات ملے گی۔ تاہم، اگر سیاسی جماعتوں کے مناشیر کا جائزہ لیا جائے، تو وہ طویل المدّت یا مختصر المدّت حکمتِ عملی کی بہ جائے صرف وعدوں کا مجموعہ نظر آتے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اسی طرح پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بھی زیادہ توجّہ کے قابل نہیں سمجھا گیا، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نئی حکومت کو ان مسائل پر فوری طور پر توجّہ نہیں دینا پڑے گی، کیوں کہ یہ معاملات مُلکی استحکام اور بقا سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔

اس وقت پاکستان کو اقتصادی و خارجی مسائل کا سامنا ہے اور یہ دونوں ہی ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ لہٰذا، مُلک کی دُرست سمت کا تعیّن کرنا ضروری ہے۔ خیال رہے کہ تیز رفتاری سے ترقّی کرنے والے ممالک کے رہنما یک سُو ہوتے ہیں اورایک واضح ویژن رکھتے ہیں۔ اقتدار میں آنے سے قبل ہی انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ مُلک کو کس رفتار سے آگے لے کر جائیں گے۔ با الفاطِ دیگر انہیں اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کی پالیسی کے نتیجے میں اگلے 50برس میں مُلک کہاں کھڑا ہو گا۔ اس مقصد کے لیے پہلے ہی سے ماہرین کی ایک ٹیم تیار کی جاتی ہے، کیوں کہ اقتدار میں آنے کے بعد صرف بیان بازی سے کام نہیں چلتا۔ پاکستان 20کروڑ سے زاید آبادی کا حامل ایک ترقّی پزیر مُلک ہے، جس کے وسائل کم اور مسائل بہت زیادہ ہیں اور انفرااسٹرکچر بھی بہت معمولی سا ہے، جس پر جدید مملکت کی تعمیر کسی صُورت ایک بڑے چیلنج سے کم نہ ہو گی، لیکن یہ نا ممکنات میں سے نہیں۔ آخر مسائل بھی اقوام ہی حل کرتی ہیں اور اس سلسلے میں ہمارے سامنے لا تعداد مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر چین نے پاکستان کے بعد آزادی حاصل کی۔ 

اس نے 1979ء کے بعد اقتصادی ترقّی کو اپنی بنیاد بنایا اور صرف 38برس میں دُنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔ جنوب مشرقی ایشیا میں واقع، سنگا پور، ملائیشیا، انڈونیشیا، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا، جاپان اور ویت نام بھی اس صف میں شامل ہو چُکے ہیں، جب کہ خود عمران خان کا ماننا ہے کہ ماضی میں پاکستان کا حصّہ رہنے والا بنگلا دیش بھی ہم سے آگے نکل چُکا ہے۔ اسی طرح بھارت سے متعلق عالمی مالیاتی اداروں کا کہنا ہے کہ وہ فرانس کو پیچھے چھوڑ کر دُنیا کی چھٹی بڑی معیشت بن چُکا ہے اور اس کی جی ڈی پی کی شرحِ نمو 7.3فی صد ہے، جو چین سے بھی زیادہ ہے۔ ان مثالوں سے پتا چلتا ہے کہ اگر ترغیب دینے والی قیادت ہو، تو ایک حوصلہ مند اور محنتی قوم اپنی منزل پا لیتی ہے۔ تاہم، پاکستان کی بد قسمتی یہ رہی کہ ہر نئی حکومت کا آغاز، سابقہ دَورِ حکومت میں مُلک کو پہنچنے والے نقصانات کی تفصیل بتانے سے ہوتا ہے، جس کے سبب قوم کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔ در حقیقت، 70برس بعد یہ انتہائی فرسود ہ سوچ لگتی ہے۔ 

انتخابی مُہم کے دوران گزشتہ حکومت کی خامیاں بیان کر کے پس ماندہ افراد کو اپنی جانب متوجّہ تو کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر دُنیا کے سامنے اپنے مُلک کی ابتر معاشی صورتِ حال کی منظر کشی کی جائے، تو پھر شاید ہی کوئی مُلک سرمایہ کاری کرنا پسند کرے۔ پھر اس سے بھی زیادہ پریشان کُن اَمر یہ ہو تا ہے کہ دُنیا میں مُلک کا کوئی مقام ہی متعیّن نہیں ہوپاتا اور نہ ہی پاکستانی پاسپورٹ کی کوئی قدر و منزلت ہو تی ہے۔ خیال رہے کہ اس وقت دُنیا بَھر میں موجود پاکستانی تارکینِ وطن کی تعداد 90لاکھ سے زاید ہے، جو بیرونِ مُلک تمام شعبہ ہائے زندگی میں پاکستان کی کام یابیوں کو بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں۔ لہٰذا، بہتر پالیسی یہ ہونی چاہیے کہ تعمیراتی کاموں کا تسلسل نہ صرف قائم رکھا جائے، بلکہ ان میں مزید اضافہ کیا جائے اور اس کا سہرا، کام کا آغاز کرنے والوں کو دیا جائے، لیکن اگر اس کے برعکس نئی حکومت مُلک کے دیوالیہ ہونے کا رونا رونا شروع کر دے گی، تو اس پر کون اعتماد کرے گا اور کون یہاں سرمایہ کاری کرے گا۔

مسلم لیگ (نون) کے دَورِ حکومت میں معیشت کو اوّلیت دی گئی اور اس سلسلے میں کئی اچّھے کام ہوئے۔ مثلاً ،توانائی کے شعبے میں خاصی سرمایہ کاری ہوئی، جس کے نتیجے میں بجلی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور لوڈشیڈنگ کم ہو گئی۔ صنعتیں بحال ہوئیں، جس سے کاروباری سرگرمیوں میں تیزی آئی۔ اس وقت چین کے تعاون سے شروع ہونے والا سی پیک منصوبہ مُلکی معیشت کے لیے سب سے بڑی ڈرائیونگ فورس ثابت ہو رہا ہے۔ اس اہم منصوبے کے تحت تعمیر ہونے والی گوادر پورٹ، ہائی ویز اور ریلوے نیٹ ورکس مُلک کو ترقّی کی نئی منازل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ سی پیک منصوبے کے تحت اب تک 50ارب ڈالرز (60کھرب روپے زاید) سے زاید کی سرمایہ کاری ہو چُکی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے دَورِ حکومت میں سی پیک کے تحت شروع ہونے والے تمام منصوبے غیر معمولی اہمیت اختیار کر جائیں گے۔ ایک جانب کئی منصوبوں کی تکمیل سے عوام کو فائدہ پہنچنا شروع ہو جائے گا، تو دوسری طرف کئی نئے اہم منصوبوں کا آغاز ممکن ہو جائے گا۔ 

یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت پاکستان کی آبادی میں 60فی صد نوجوان شامل ہیں، جنہیں روزگار فراہم کرنا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ گرچہ عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کروڑوں ملازمتیں فراہم کریں گے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ سب کیسے ممکن ہو گا۔ کیا اس سلسلے میں پی ٹی آئی نے کوئی حکمتِ عملی بنارکھی ہے؟ اقتصادی ماہرین کے مطابق، نئی حکومت کو ہر برس کم و بیش 10سے 15لاکھ نئی ملازمتیں پیدا کرنا ہوں گی، تب کہیں جا کر صورتِ حال قابو میں آئے گی، لیکن دوسری جانب گزشتہ ڈیڑھ برس سے مُلک میں ہر کام ٹھپ پڑا ہے۔ سرکاری اہل کار ہاتھ پر ہاتھ دھرے عدالتی فیصلوں کا انتظار کرتے رہے اور انتظامیہ بالکل مفلوج ہو گئی۔ 

دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مُلک اس وقت دو برس پہلے والی پوزیشن پرکھڑا ہے، بلکہ مزید تنزّلی کی جانب گام زن ہے۔ اس صورتِ حال میں تاجر برادری کا اعتماد بُری طرح متزلزل ہو چُکا ہے اور اسٹاک مارکیٹ سے روز بُری خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ خیال رہے کہ ہم نہ کرامات کی دُنیا میں رہتے ہیں اور نہ ہی یہ وہ زمانہ ہے کہ جب کوئی مُلک دوسرے ممالک کو بہ خوشی قرضے دے دیا کرتا تھا۔ اب کوئی بھی مُلک کسی دوسرے مُلک میں سرمایہ کاری سے قبل صمانت مانگتا ہے اور یہ ضمانت کسی لیڈر کی قابلیت یا بیانات نہیں ہوتے، بلکہ اُس مُلک کی ساکھ ہوتی ہے۔ نئی حکومت کو اس بات کا خاص خیال رکھنا ہو گا۔ تنقید کا دَور گزر چُکا اور اب پورے 5برس تک صرف سَر جُھکا کر کام کرنا ہو گا۔

عالمی مالیاتی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت جی ڈی پی کی شرحِ نمو 5.2فی صد سالانہ ہے، جو گزشتہ 5برس کی شرحِ نمو(3فی صد) سے کہیں بہتر ہے۔ لہٰذا، نئی حکومت کو اسے 6فی صد سے اوپر رکھنا ہو گا، کیوں کہ ماہرین کے مطابق جب تک شرحِ نمو 9فی صد تک نہیں پہنچتی، تب تک مطلوبہ تعداد میں ملازمتیں فراہم نہیں کی جا سکتیں۔ نیز، مُلک میں بیرونی سرمایہ کاری بھی ضروری ہے۔ رواں خسارے اور قرضوں میں غیر معمولی اضافے نے اقتصادی ماہرین کو پریشان کر رکھا ہے اور پھر ڈالر کی قدر میں اضافہ بھی 20فی صد کے قریب جا پہنچا ہے۔ گرچہ کرنسی کی قدر میں کمی کا مقصد برآمدات میں اضافہ کرنا ہوتا ہے، لیکن اس کے برعکس مُلکی برآمدات میں تکلیف دہ حد تک کمی واقع ہوئی، جس کا ایک سبب تو بنگلا دیش، چین اور ویت نام جیسے ممالک کا پاکستان کے مدِ مقابل ہونا ہے، تو دوسری جانب اندرونِ مُلک توانائی کی بڑھتی قیمتیں تھیں، جن کی وجہ سے مصنوعات کی تیاری پر زیادہ لاگت آتی تھی۔ یہ صورتِ حال ذرا بہتر ہوئی، تو سیاسی بُحران نے مُلکی معیشت کو برباد کر دیا۔ سو، نئی حکومت کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہو گا، وگرنہ اگلا بجٹ بنانا مشکل ہو جائے گا۔ عمران خان نے اپنی وکٹری اسپیچ سے قبل بھی کہا ہے کہ وہ ایف بی آر اور اینٹی کرپشن کے محکمے کو بہتر بنائیں گے۔ 

نیا پاکستان . . . . مُلک کو درپیش چیلنجز

نیز، ٹیکس کلچر کی بہتری، ٹیکس کا پیسا عوام پر خرچ کرنا، سادگی اپنانا اور وزیرِ اعظم ہائوس اور گورنر ہائوسز کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کرنا بھی اُن کی ترجیحات میں شامل ہے، جب کہ غُربت دُور کرنے کے لیے انہوں نے سی پیک کا ذکر کیا اور چین سے غُربت مٹانے کا طریقۂ کار سیکھنے کی بات کی، لیکن اقتصادی ماہرین بعض ٹھوس اقتصادی مسائل کا بھی ذکر کرتے ہیں، جن سے نئی حکومت کو فوراً نمٹنا ہو گا۔ مثال کے طور پر نئی حکومت کو قرضوں کے حصول کے لیے فوری طور پر آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا یا پھر کسی دوسرے مُلک سے ایک سے دو ارب ڈالرز کی امداد لینا پڑے گی۔ تاہم، اکثر ناقدین کا ماننا ہے کہ چوں کہ عمران خان آئی ایم ایف کے ناقد رہے ہیں، لہٰذا نئی حکومت کے لیے اس عالمی مالیاتی ادارے سے رجوع کرنے کا فیصلہ آسان نہ ہو گا۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت مُلک میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری سی پیک کی شکل میں ہو رہی ہے اور اس صورت میں آئی ایم ایف میں جانے کا مطلب یہ ہو گا کہ آئی ایم ایف سی پیک کی مد میں ملنے والے قرضہ جات کے استعمال اور اُن کی شفّافیت کا آڈٹ کروائے،تو کیا یہ سب چین کو منظور ہو گا، کیوں کہ چین نے سی پیک کی مد میں قرضہ جات دو طرفہ معاہدوں کے تحت دیے ہیں اور ان کو کسی بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے تحت لانا بیجنگ کے لیے شاید ہی قابلِ قبول ہو۔ 

پاکستان، ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہو چُکا ہے اور اسلام آباد نے جولائی میں پیرس میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں اس کے روڈ میپ پر عمل کرنے کا وعدہ کیا ہے، جسے مذکورہ ادارے کے 35رُکن ممالک نے تیار کیا ہے، جس میں امریکا اور یورپی ممالک کے علاوہ چین اور تُرکی بھی شامل ہیں۔ خیال رہے کہ پاکستان، ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہونے کی وجہ سے پہلے ہی خاصا نقصان اُٹھا چُکا ہے اور اب اگر پاکستان نے اس ادارے کی شرائط کو نظر انداز کیا، تو اس کے مسائل مزید پیچیدگی اختیار کر جائیں گے۔

مُلک کی موجودہ معاشی صورتِ حال کے پیشِ نظر ماہرین کی رائے ہے کہ متوقّع وزیرِ اعظم، عمران خان کو فوری طور پر خارجہ پالیسی پر توجّہ دینی ہو گی، جسے خود انہوں نے ایک چیلنج قرار دیا ہے، جب کہ حالیہ انتخابات کے دوران تقریباً تمام جماعتوں ہی نے امورِ خارجہ کو نظر انداز کیا۔ شاید اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے عمران خان نے اپنی وکٹری اسپیچ میں کہا کہ پاکستان ہر مُلک کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرے گا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے تعلقات دُنیا اور خطّے کے ممالک سے بہت زیادہ تسلّی بخش نہیں۔ 

چین کے علاوہ خطّے کے زیادہ تر ممالک سے پاکستان کے روابط سرد مہری کا شکار ہیں اور ان ممالک میں افغانستان، ایران، بھارت اور بنگلا دیش شامل ہیں، جب کہ عرب ممالک سے بھی، جو ہمارے دیرینہ حلیف ہیں، کوئی بہت اچّھی توقّعات رکھنا مشکل ہو گا، کیوں کہ گزشتہ برسوں کے دوران ان ممالک پر بِلا سوچے سمجھے جس قسم کی تنقید کی گئی، اس کے نتائج اب سامنے آرہے ہیں۔ یاد رہے کہ خلیجی ممالک پاکستانی تارکینِ وطن کو روزگار فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ رہے ہیں اور ہم نے انہیں اپنے اندرونی معاملات میں غیر ضروری طور پر ملوّث کر کے خود کو خاصا نقصان پہنچایا ہے، جب کہ اس کے برعکس بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی نے عرب ممالک کے دَوروں کے دوران بھارتی باشندوں کے لیے ہم دردیاں حاصل کر لی ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خلیجی ممالک میں موجود پاکستانی تارکینِ وطن کا ماننا ہے کہ اب وہاں ہر شعبے میں بھارتی تارکینِ وطن غلبہ حاصل کر رہے ہیں اور پاکستانیوں کے لیے روزگار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔ 

لہٰذا، اس معاملے میں بھی نئی حکومت کو خاصی دِل چسپی لینا پڑے گی، پھر تیل کی قیمتوں میں بھی بہ تدریج اضافہ ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں مُلکی درآمدات کے بِل میں اضافے سے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر دبائو مزید بڑھے گا۔ گرچہ ماضی میں سعودی عرب اکثر مواقع پر تیل کی مُفت فراہمی اور طویل المدّت قرضوں کے ذریعے پاکستان کی مدد کرتا رہا ہے، لیکن اب ناقدین اس معاملے میں بے یقینی کا شکار ہیں۔ اگست کے بعد امریکا، ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عاید کر رہا ہے، جس میں تیل کا لین دین بھی شامل ہو گا اور بھارت تک نے امریکی دبائو میں آکر ایران سے تیل کی خریداری روک دی ہے۔ سو، نئی حکومت کو اس مسئلے کی طرف بھی فوری توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔ پھر ماہرین اس جانب بھی خصوصی توجّہ دلاتے ہیں کہ معیشت کی بحالی کے لیے ارد گرد کے ممالک سے تعلقات معمول پر لانا اور ماحول کو پُر امن رکھنا ضروری ہے۔ 

لہٰذا، اگر پاکستان تحریکِ انصاف مُلک میں ترقّی کا دَور جاری رکھنا چاہتی ہے، تو پھر علاقائی ہم آہنگی اس کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم نکتہ ہو گا۔ جیت کے بعد اپنی پہلی تقریر میں عمران خان نے پڑوسی ممالک، بھارت اور افغانستان سے تعلقات بہتر کرنے کا عندیہ دیا۔ اس موقعے پر اُن کا بھارت سے متعلق کہنا تھا کہ وہ پڑوسی مُلک کے ساتھ تجارت کے خواہش مند ہیں، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کی غُربت دُور کرنے میں مدد ملے گی۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی عمران خان نے یہ بھی کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہے اور مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل ہونا چاہیے۔ بھارت ایک قدم آگے بڑھائے، تو ہم دو قدم بڑھائیں گے۔ افغانستان سے تعلقات پر عمران خان کا کہنا تھا کہ افغان عوام کو امن کی ضرورت ہے اور اُن کی حکومت افغانستان میں امن قائم کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔ 

پاکستان کے نئے حُکم راں کی جانب سے اپنے پڑوسی ممالک کے لیے یہ خاصا مثبت پیغام ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایران اور سعودی عرب سے تعلقات بہتر کرنے اور مذکورہ دونوں ممالک کے درمیان اختلافات ختم کروانے کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے کا بھی عندیہ دیا۔ اس وقت امریکا سے پاکستان کے تعلقات انتہائی نچلے درجے پر ہیں۔ گرچہ دو طرفہ بات چیت جاری ہے، لیکن اعتماد کا فقدان ہے اور خود عمران خان بھی امریکا کے سخت ناقد رہے ہیں، لیکن اپنی وکٹری اسپیچ میں اُن کا کہنا تھا کہ وہ امریکا سے متوازن تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، دیکھنا یہ ہو گا کہ وہ ان بیانات کو عملی شکل دینے میں کس حد تک کام یاب ہوتے ہیں؟

تازہ ترین