• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپریل 2014سے شروع عہد بعنوان ’’ سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘25جولائی 2018ء اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا۔اس ڈرامے میں ملکی غیر سیاسی و سیاسی اور غیر ملکی ،جتنے کردار ملوث،اپنے حصے کی کامیابی سے ہمکنار ہر ایک کو حصہ بقدر جثہ مل گیاہے۔چار سالہ جہد مسلسل میں امریکی ٹارگٹ پاک چین اقتصادی راہداری اور گوادر بندرگاہ پر چینی تسلط، اصل نشانہ ،خطا نہیں گیا۔چارسالوں سے لکھ ہار چکا ،چین کی تزویراتی روح اس منصوبے کی تکمیل میں جبکہ امریکہ نے اس منصوبے کو کبھی مکمل نہیں ہونے دینا ۔امریکہ کو کامیابی مبارک، سہولت کاروں ،مددگاروں کی کارگری مینی برجہالت یا بدنیتی پر ’’دل باغ باغ ‘‘ ہوچکا۔
دنیاوی و سیاسی مقاصد کے لیے قرآن و حدیث کا استعمال کسی طور مناسب نہیں ۔25 جولائی کو پاکستان کی تاریخ کے متنازع ترین انتخابات کی گرد دھول کیا بیٹھتی، بگولہ بن چکی۔اپوزیشن کیلئے دھاندلی ہضم کرنا مشکل ۔ بے شک اللہ قادر مطلق،جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے۔ سورۃ العمران کی یہ آیات غزوہ بدر اور غزوہ اُحد کے ارد گرد کے زمانہ سے متعلق ہیں ۔ مسلمانوں پر ابتلاکا دور، مصائب آلام ،فقر و فاقہ کی پکڑ نے اطاعت شعار وں کو عجیب حسرت و یاس آمیز استفہامیے کی نذر کر رکھا تھا ۔ سورۃ العمران کی آیت 26 اور 27میں اللہ تعالیٰ نے اسی استفہام کا جواب، خوبصورت لطیف پیرائے میں دیا کہ ’’ اصل عزت اور ذلت کا تعین بارگاہ خداوندی میںہونا ہے۔ دنیاوی معیار اور پیمانوں سے ناپنا مناسب نہیں ‘‘ (ماخوذ : تفہیم القرآن :مولانا مودودیؒ) ۔میرے نزدیک پچھلے 70 سال سے پاکستان کو تباہی اور خرابی کے کنارے پر رکھنے والوں کی اکثریت خبط عظمت ،مطلق طاقت اور زُعم مرجع خلائق کے بل بوتے مملکت کو چار چاند لگانے کے شوق میں ریاست کے چاروں طبق روشن ہو چکے۔ یہ کیسا الیکشن ،جس کے نتائج کثیر تعداد کو زود رنج اور مشتعل کر گئے؟انتخابی دن کی دھاندلی ہمیشہ پولنگ ایجنٹ کی قابلیت، موجودگی، غیر موجودگی سے منسلک رہی۔ ماضی میںدھاندلی وہاں مؤثررہی جہاں پولنگ ایجنٹ لاموجود،اغوا کر لیے،گھسنے نہ دیئے وغیرہ وغیرہ ۔چنانچہ الیکشن دن پر دھاندلی پولنگ ایجنٹس کی کمزوری سے نتھی رہتی ہے۔ اگرچہ 2018ء کے الیکشن کا حتمی نتیجہ مہربانوں نے مہینوں پہلے اناؤنس کر رکھا تھا ۔تحریک انصاف کو 116 سیٹوں کے ساتھ عزت اور ن لیگ کو 60 سیٹوں کے ساتھ ذلت دینا تھا،نیا طریقہ ایسا نستعلیق، ششدر ہوں ۔3لاکھ 70ہزار فوج کو الیکشن میں ملوث رکھنا، کسی طور وطنی مفاد میں نہ تھا،بہرحال عزت، حفاظت کے اپنے تقاضے ۔کئی سوالات اٹھا گیا۔6بجے کے بعد ہزاروں پولنگ اسٹیشن پر گنتی کے انتظام کو اپنے کنٹرول میں لے لینا،ایسی ویڈیو وائرل ، پہلی دفعہ آرمی کمان کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہوئی۔فارم 45جس پر الیکشن امیدواروں کے حاصل شدہ ووٹوں کا اندراج رہنا تھا، پولنگ ایجنٹوں کو فارم 45 سے محروم رکھا۔فارم 45کی چار کاپیاں:RO ، الیکشن کمیشن ،تھیلے اندر اور پریزائڈنگ افسر کے پاس ایک ایک رہنی تھی۔RO نے ساری کاپیاں اپنے پاس رکھ لیں۔ پولنگ ایجنٹ نے اپنے امیدوار کے لیے دو باتیں یقینی بناناتھیں ۔ دوران پولنگ کسی قسم کی دھاندلی ،بے قاعدگی نہ ہو۔پولنگ ختم ہونے ے بعد گنتی میں ممکنہ ہیرا پھیر ی نہ ہوسکے۔گنتی کی ہیرا پھیری کام دکھا گئی، جہاں جہاں ن لیگ مضبوط، زبردستی باہر۔وہی ہوا جس کا ڈر تھا،سیکورٹی عملے نے بہت جگہ معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ مخصوص پولنگ اسٹیشن جہاں پر مسلم لیگ ن کی جیت حتمی اور یقینی، سارے دھاندلی تنازع وہیں اُٹھے۔رزلٹ بذریعہ موبائل فون یا لیپ ٹاپ پہنچانے کا نظام (RTS)فیل ہوگیا یا کر دیا گیا،بین اسی طرح جس طرح خادم رضوی کے فیض آباد دھرنے کے موقع پر اسلام آباد کا CCTV نظام بیکار نظر آیا۔ رات10 بجے جبکہ صرف 3فیصد نتائج سامنے آئے تھےکہ ’’ عمران خان کو وزیر اعظم کہنا شروع کر دیں‘‘ کا حکم شروع ہو گیا تاکہ عمل پیہم،یقین کامل کے ساتھ مستحکم رہے۔ایک مثال میانوالی NA-95 جس سے عمران خان کا بھاری اکثریت سے منتخب ہونا یقینی ،11بجے تک مکمل نتیجہ آ گیا۔میانوالیNA-95کا جغرافیہ ملاحظہ فرمائیں، ضلع چکوال کی سرحد سے شروع حلقہ مغرب جانب درہ تنگ، لکی مروت پر ختم، 120 کلومیٹر جبکہ ضلع چکوال حد سے شکر درہ کوہاٹ(شمال) تقریباً 90 کلومیٹر بنتا ہے ۔حلقہ ایک تہائی بلند و بالا سنگلاخ پہاڑ، دریا سندھ عین بیچ میں،کچھ کچہ، کچھ تھل بھی ، نتائج 11 بجے ثبت۔دوسری جانب فیصل آباد، لاہور ،راولپنڈی،کراچی،گوجرانوالہ وغیرہ جہاں پر تمام پولنگ اسٹیشن RO کے دفتر سے 15 منٹ سے آدھے گھنٹے کے فاصلے پر، دو روز تک نتائج نہ ملے بلکہ مسلسل تبدیل ہوتے رہے۔یاد رہے ان شہروں میں RTS اہم تھا،ہارڈ کاپی نقد میسر تھی۔کل ووٹ 5کروڑ کے لگ بھگ پڑے،منسوخ ووٹوں کی تعداد 50 لاکھ، نیا عالمی ریکارڈ،ن لیگ چالیس سیٹوں پر چند سو سے ہاری ، منسوخ ووٹ ہزاروں میں ہاوی۔ سیکورٹی اہلکاروں کا ووٹ گنتے،سنبھالتے پایا جانا،تضحیک آمیز ویڈیوز وائرل،الیکشن نظام کا مذاق بن چکی ہیں۔2018ء میں تمام سیاسی جماعتیں متحارب ،ایک دوسرے خلاف نبردآزما ، سوائے تحریک انصاف سب نے نتائج مسترد کر دیئے ۔ اندوہناک ،قومی میڈیاکو قومی رہنماؤں کی دھاندلی پر پریس کانفرنس دکھانے سے روک دیا گیا۔پشاور سے چارسدہ، مانسہرہ ،مری،کراچی تک اپنے تئیں لوگ سڑکوں پر، انتہائی تشویشناک رد عمل سامنے آرہا ہے۔عرصے سے اندیشہ تھا جاری کاریگری اور اداروں کا کھلے عام سیاست میں ملوث رہنا، سوشل میڈیا پر بگڑا دہن کہیںسڑکوں پر نہ آجائے،آگیا ۔گو میڈیا کو کوریج سے روک دیاگیاہے، حالات کی سنگینی بدرجہ اتم موجود۔
الیکشن کے اگلے دن میجر جنرل غفورصاحب کی دو ٹویٹس ہر خاص و عام میں موضوع ِبحث رہی۔ ایک ٹویٹ میںجنرل صاحب نے الیکشن کی شفافیت کے حق میں بھارتی ٹی وی(NDTV) کی گواہی پیش کردی ۔ ؎
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبال کو یہ ضد کہ پینا بھی چھوڑ دے
دوسری ٹویٹ قرآن کی سورۃ عمران کی آیت 26 کا ایک حصہ،عام حالات میں امر بالمعروف ایک پسندیدہ فعل،حکم ربانی بھی۔ مگر الیکشن کے نتائج کے تناظر میں، جنرل صاحب کی ٹو یٹ کو انواع اقسام کے مطالب اور معانی پہنائے گئے ۔ میں نہیں سمجھتا ، جنرل صاحب کی ٹویٹ کا اشارہ نواز شریف کی جیل یا مسلم لیگ کی شکست اورتحریک انصاف کی صاف شفاف الیکشن مہم سے لے کر شاندار انتخابی فتح تک ، کی طرف ہوگا۔ فوج غیر سیاسی ادارہ یقیناََدونوں پہلوؤں سے کوئی غرض نہیں رہی ہوگی۔پھر بھی اس ٹویٹ کو لاکھوں نے اپنا موضوع بنایا۔ علم سیاسیات کا معمولی طالب علم، مجھے اس الیکشن میں نہ تونواز شریف کی شکست اور سبکی نظر آئی اور نہ ہی عمران خان کی قدر و منزلت ،شان و شوکت آسمانوں کو چھوتی نظر آئی۔میرے نزدیک توپاکستان میں نواز شریف کی بڑی سیاست کا نقطہ آغازہوچکا ہے۔
مان لیں ،عمران خان جلد ہی سیاسی انجام کا حصہ ہونگے اور نواز شریف کے ہر اول دستہ کا حصہ ہونگے ۔ نامساعد حالات میں بھی LONE WARRIOR نواز شریف چٹان کی طرح نمایاں جبکہ قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر پیچھے ہے،کسی سیاستدان کو اور کیا چاہئے؟ ایک کروڑ 28لاکھ ووٹ کن حالات میں ملے ،جس آن سے ملے،اسی شان نے سلامت رہنا ہے۔چار سال قیامت ڈھائی، سیاست نہیں ریاست بچاؤ سے شروع کہانی ، الیکشن دھاندلی، 2014ء سے قومی میڈیا پر یک طرفہ ننگی گالیاں، الزامات، پاناما سے اقامہ تک ،پہلے ایک ادارہ، پھر دوسرا ،پھر تیسرا اور پھر چوتھا ، کیا ہتھکنڈے استعمال نہ ہوئے،4سال سے میڈیا ٹرائل، جھوٹ،سچ،بہتان،سوشل میڈیا فیکٹریاں دن رات نواز شریف اور خاندان کو غدار،نااہل، بدکردار،جھوٹا،بد دیانت سب کچھ کر ڈالا۔سارا ملک ان کے اثاثے کھنگالنے میںمختص،وفاقی اور پنجاب کی’’ تاریخی کرپٹ‘‘ حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے میں مستعد رہے۔ شیخ رشید کے حلقے میں جا کر ایک اعلیٰ شخصیت نے بنفس نفیس ’’تباہی بربادی‘‘ دیکھی۔پنجاب کے اندر’’ ترقیاتی کاموں کی حالت زار اور پھر ترقیاتی کاموں کے ٹھیکوں، تعیناتیوں، بے قاعدگیوں کا ایک انبوہ‘‘،سب عدالتی نیب کارروائیاں الیکشن سے پہلے ہونا لازمی تھیں، لگ بھگ 2 درجن لیگی ایم این ایز کی وفاداریاں تبدیل، چند درجن نے ٹکٹ واپس کر ڈالے، قمر السلام کا آناً فاناً جیل جانا،مضحکہ خیزانداز میںحنیف عباسی کو رات 11 بجے عمر قید کی سزا کہ کرنے والے خود بھی ہنس ہنس کر دہرے۔ یوسی ناظم، اور اہم ورکرز کی پکڑ دھکڑ، افسوس میڈیا کی آنکھیں تسلسل سے چندھائی رہیں۔ الیکشن سے قبل خبر چلی ، نواز شریف ، مریم ڈیل مانگ رہے ہیں ، الیکشن متاثر کرنے کی ہر کوشش آزمائی گئی۔ کیا کیا اوچھا ہتھکنڈا نہ آزمایا گیا۔ آفرین، نواز شریف کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ہر کوشش ناکام ۔ دوسری طرف4سال سے عمران خان کو یک طرفہ میڈیا پذیرائی، عدالتوں سے صداقت، امانت، شرافت کے درجنوں سرٹیفکیٹ، سرکاری و قومی وسائل سب کچھ نذر رہے۔یہی وجہ، تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے اترا نہیں پا رہے، وضاحتیں دے رہے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کا جتنا طلب گار، ضرورت مند عمران،کوئی دوسرا قرب و جوار میں نہیں۔ طلب اور ضرورت کمزوری بن جائے تو سمجھوتہ کرنا بنتا ہے۔22سال سے کمال ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے عار نہیںکہ’’مجھے وزارت عظمیٰ کیا دے سکتی ہے، مجھے کس چیز کی کمی ہے‘‘۔یاد رہے مشرف کی دہلیز سے ماتھاتب اٹھایا جب یقین ہوگیا کہ وزارت عظمیٰ کے لیے مشرف کا چناؤ عمران خان نہیں۔ کرسٹیانا بیکر نے اپنی کتاب FROM MTV TO MAKKAH میں لکھا کہ’’ 1992 میں عمران خان نے عندیہ دیا تھا کہ شوکت خانم اسپتال کی جلد از جلد تکمیل انکے وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار کرے گی ‘‘۔بزرگ سیاستدان جاوید ہاشمی کی الیکشن کے بعد کی پریس کانفرنس کو اگر من و عن جڑ دوں تو جو کچھ کہنا لکھنا چاہتا ہوں ،مقصد پورا رہتا۔جاوید ہاشمی سے بھلا یہ کریڈٹ کون چھین سکتا ہے کہ جو کچھ سالوں سے گلا پھاڑ پھاڑ کر کہا ،آج لفظ بلفظ درست بیٹھ چکا ہے۔اہل وطن، نظر رکھو، ریاست مدینہ کے لیے بدترین ہارس ٹریڈنگ جاری،منافقت عروج پر۔تھکا دینے والی اعصاب شکن انجینئرنگ کے بعد بھی، نواز شریف عفریت بن کر سامنے،آج ملکی سیاست کا محور ہے۔نواز شریف سے ایک گزارش،اصل نقصان پہنچانے والوں کو ذہن میں رکھیں،عمران خان جناب کا اصل دشمن نہیں،کل دوست ہو گا۔ عمران خان کو صدق دل سے گلے لگائیں۔عمران خان حکومت کو کھل کر بھرپور سپورٹ کریں،مضبوط بنائیں۔ جمہوریت کی مضبوطی نے دشمنوں کے قدم اکھاڑنے ہیں۔ غیر منتخب قوتوں سے بہترین انتقام کایہی موقع ہے۔ میری بات یاد رکھیں کہ ایک سال 4 مہینے بعد عمران خان نوازشریف کا اثاثہ ہوگا، ہر اول دستے کا اہم حصہ رہنا ہے۔عمران خان کے لیے یو ٹرن اور اپنے اقوال زریں کی بے توقیری معمول کا عمل ہے۔ گہراگھاؤ، نواز شریف کو زیر کرتے کرتے پاک چین اقتصادی راہداری ڈھیر ہوچکی ۔پاک چین اقتصادی راہداری، خدا حافظ۔موجودہ سیاسی ارتعاش کا سب سے بڑا فائدہ امریکہ کو ، جبکہ چین کانقد نقصان۔ آج کس کی عزت؟کس کی ذلت؟کس کی جانب اشارہ ؟کس چیز پر اترانا؟کونسا فخر؟ طے کرنا مشکل ۔آؤ سب مل کر ایک ہی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اس گھمبیر صورتحال سے نکالے(آمین) کہ اصل عزت و ذلت ،پاکستان کی عزت و ذلت سے منسلک ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین