• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پوری دنیا میں حالات حاضرہ کی ایک بڑی خبر بن کر پاکستان کی یہ نئی سیاسی حقیقت عیاں ہوگئی کہ، تاریخ کرکٹ کے شہرہ آفاق کپتان سے ’’تبدیلی کا علمبردار سیاستدان‘‘ بن جانے والے عمران خان نے پاکستانی انتخابی معرکے میں وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار کرلی۔ وہ اب چند روز میں حلف اٹھانے والے ہیں۔ گزشتہ 5سالوں میں عمران کو عوام دوست اور تازہ ذہن انتھک پاکستانی سیاست دان ہونے کی جو شہرت ملی اس سے زیادہ درجے پر اب ان کی عالمی پذیرائی ہو رہی ہے۔ وہ ملک کے 40سالہ عوام دشمن سخت جاں اسٹیٹس کو سے لڑتے بھڑتے ملک کی سب سے بڑی تازہ ذہن پارلیمانی قوت بن کر ابھرے ہیں۔ بلاشبہ ماضی کی اسٹیبلشمنٹ کے گھڑے دو خاندانوں کے سیاسی غلبے پر یہ ضرب کاری ہے، جس سے ان کی بنیاد ہل کر رہ گئی ہے، جبکہ گزرے بدترین جمہوریت کے عشرہ میں آج کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اپنی تاریخی غلطیوں کے کفارے کی ادائیگی بلند درجے پر اور بہت واضح ہے۔ اس انتہاکا ناجائز فائدہ جس طرح پی پی اور ن لیگی حکومتوں نے شاہی بن جانے والے دونوں خاندانوں کو اپنا سیاسی قبلہ و کعبہ مانتے ہوئے اٹھایا، وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ جب دھماچوکڑی کے ماحول میں یہ رقم ہو رہا تھا، پاکستان یتیم پھر بھی نہ ہوا۔ شیطانی انداز حکومت کے ساتھ لٹتے پٹتے، بگڑتے اجڑتے پاکستان کے کروڑوں بے بس اور بے حس لوگوں میں پر زور احتجاج اور برائی کی نشاندہی کے لئے عمران خان موجود تھا۔ انسداد کرپشن کے لئےاسی کی چیخ وپکار پر شدت سے مطلوب احتسابی عمل کی راہ ہموار ہوئی، تب اسے مدد بصورت مدد خدا ملی۔ کھل کھلا کر واضح ہونے لگا کہ اس بیمار کی گئی مملکت خداداد میں کون کیا ہے؟ طاقت ور اسٹیٹس کو اور عمران خان کی Power of one کے اس معرکہ میں کوئی اسلام آباد کے غیر ملکی سفارتخانے بند نہ ہوگئے تھے، بلکہ اسلام آباد کی سفارتی مانیٹرنگ پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئی کہ کتنے ہی دنیا کے اہم ممالک کے اپنے قومی مفادات کا یہ تقاضا تھا۔گویا دنیا سب کچھ دیکھ رہی تھی اور ہے۔
سو، 25-26جولائی کو عمران خان کی تحریک انصاف کی انتخابی برتری اور خان اعظم کے وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہونے کی خبر پوری دنیا میں حالات حاضرہ کی اہم خبر تو بنی ہی، یہ صرف اقتدار کی تبدیلی پاکستان کی نئی سیاسی حقیقت بن کر بھی دن کے اجالے کی طرح عیاں ہو ئی۔ تبدیلی کا علمبردار بن کر قومی سیاست پر غلبہ پا جانے والا سیاست دان، اپنے ملک کے ظالمانہ اور سخت گیر اسٹیٹس کو پر کاری ضرب لگاتا اس پوزیشن میں آ گیا کہ چند روز میں وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے والا ہے۔
عمران کو جتنی اور جتنی اچھی شہرت عالمی سطح پر انتخابات سے پہلے نصیب ہوئی۔ اس کی اس سے زیادہ عالمی پذیرائی انتخاب جیتنے کے بعد ہو رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف انتخابی نتائج میں ملک کی سب سے بڑی وفاقی پارلیمانی قوت بن کر ابھری ہے۔ لیاری ڈیرہ اسماعیل و غازی خاں، کراچی اور لاہور اور سب سے بڑھ کر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے نتائج نے ثابت کر دیا کہ امراء کو امیر تر غرباء کو غریب تر اور متوسط طبقے کو بے بس بنانے والا خاندانی جمہوریت کا عوام دشمن حکومتی ماڈل اپنے آخری اور عبرتناک انجام سے قریب تر ہے۔
پاکستان میں اس تغیر بذریعہ ووٹ کو امریکہ، یورپی یونین ، برطانیہ اور جاپان جیسی جمہوریتوں اور چین، بھارت، سعودی عرب، امارات، ایران، ترکی اور افغانستان جیسے ہمارے عظیم دوستوں اور ہمسایوں نے قلب و ذہن سے قبول کر لیا۔ سب نے ہی خلاف روایت خیر سگالی کا پیشگی (حلف برداری سے پہلے) کا سفارتی اظہار کرتے ہوئے امکانی عمران حکومت سے بہتر تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ بنی گالا میں سفیروں کی منتظر وزیراعظم سے ملاقاتوں اور مبارک سلامت کا سلسلہ جاری ہے۔
ادھر دنیا میں انتخابی عمل (خصوصاً ترقی پذیر جمہوریتوں میں) کی مانیٹرنگ اور رپورٹ کرنے والے عالمی اداروں ، یورپین یونین اور کامن ویلتھ کے مشنز نے پاکستانی الیکشن ڈے کے پولنگ پر اسس کو پہلے سے بہتر قرار دیا۔ سارے عمل کے تحفظ اور ماحول کو پرامن رکھنے کیلئے فوج کے آئینی کردار کو سراہا۔ تاہم حسب روایت کچھ پروسیجرل نوعیت کی خامیوں اور کمیوں کی نشاندہی کی خصوصاً پولنگ اور نتائج آنے کی رفتار کے حوالے سے گویا انتخابی عمل کو ارتقاء میں پایا۔ اب ’’سست رفتاری‘‘ کی اصل وجہ تیز تر نتائج کے اعلان کو یقینی بنانے والے سوفٹ ویئر آر ٹی ایس کے مطابق Adoption (اختیاریت) کا ڈیزاسٹر بتایا جا رہا ہے۔ اس کا ذمہ دار الیکشن کمیشن ہے۔ جس نے اس کی تحقیقات کا اہتمام تو کیا ہے جو آئندہ ٹیکنالوجی پر اعتماد کیلئے لازم ہے۔
سب سے بڑھ کر پاکستانی قوم کو انتخابی نتائج باآسانی ہی نہیں خوشی کے آنسوئوں اور شکرانے کے ساتھ ایٹ لارج قبول ہوگئے۔ بیرون ملک آباد پاکستانیوں نے رو رو کر اپنے بہن بھائیوں ، رشتے اور تعلق داروں کو تبدیلی برپا ہونے کی مبارکباد دی۔
کوئی خان کی جیت پر اور کوئی اسٹیٹس کو کے بت ٹوٹنے پر شاد تھا۔
شاد سے یاد آیا جو کچھ بلاول اور پی پی کے ساتھ لیاری میںتحریک انصاف کے غریب بہادر کارکن شکور شاد نے کردیا، وہ کرپشن کی دلدل میں پھنسے لٹے پٹے اجڑےپاکستان میں آغازِ تبدیلی پر ہمارا تاریخِ سیاست میں ڈائمنڈ ریفرنس کے طور پر محفوظ ہوگیا۔ شکور شاد تمہیں اورتمہارے بہادر ساتھیوں کے جذبہ جمہوریت کو سلام! تم مردِ حر ہو، تم دانستہ سیاسی مکاری سے عشروں میں بنائے گئے سماجی پسماندگی کے جزیرے میں طلوع پذیر تبدیلی کی روشن کرنیں ہو۔
’’آئین نو‘‘ کا ریکارڈ اور قارئین دونوں شاہد ہیں کہ مملکت میں احتساب کو بمطابق آئین و قانون ناگزیر اور تبدیلی برپا ہونے کو یقینی قرار دیتے ہوئے یہ انتباہ بار بار کیا گیا کہ اسٹیٹس کو قوم و ملک کے خلاف منفی طاقت کو کبھی کم نہ سمجھا جائے۔ بلاشبہ آج یہ جزواً برباد ہوگیا اور ضرب ہائے کاری جاری ہیں۔ جلد ہی اس کی بیخ کنی لکھی گئی۔
تاہم مولانا فضل الرحمٰن، محمود اچکزئی اور اسفندیار کے ’’ماہی بے آب‘‘ ہونے سے ن لیگ کے نزاع (روایتی طاقت سے کافی نشستیں لینے کےباوجود) پی پی بدستور زبوں حالی، تحریک انصاف کی کراچی میں بڑی پارلیمانی موجودگی نے اسٹیٹس کو اور تبدیلی میں، پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں اور کسی حد تک اس سے باہر بھی ایک اور بڑے معرکے کی راہ ہموار کی ہے۔ یہ ہی لڑتے بھڑتے خان نے گڈ گورننس کا کوئی ماڈل بنانا اور چلانا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی محرومی کے بعدبھی انہوںنے سیاسی شعبدے سے جناب سرا ج الحق سمیت کتنوں کو دام میں لے کر محرومین کو اسٹیٹس کو کے کنبے کی شکل تو بہرحال دے دی ۔ سراج الحق صاحب کی حالت تو قابل رحم ہے کہ اسٹیٹس کو کے خلاف اتنی جدوجہد کرکے وہ مولانا کے کنبے میں آگئے۔ ایم کیو ایم خوب رہی شاید انہیں وقت کا پیغام پڑھنا آگیا۔ پڑھے لکھے تو پہلے بھی تھے اب لگا زیادہ ہوگئے۔ ملین ڈالر فیصلہ کیا اور بروقت،وگرنہ بدستور شام غریباں میں ہی رہتے۔ اب دھڑوں کوبھی ختم کرکے ایک ہو جائیں اور پی ٹی آئی کے ساتھ اتحادی بن کر اگلے انتخاب میں اندرون سندھ ماضی کا کفارہ اور توبہ کرتے اتحادی بنیں۔ نئی نسل کو علاقائی عصبیت سے نجات دلا کر برسوں سے استحصال زدہ سندھی بہن بھائیوں کو اسٹیٹس کوکی آمریت سے نجات دلائیں۔ یہ تجربہ بلدیاتی اور ضمنی انتخابات میںبھی کر سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے لئے بلوچستان پر توجہ لازم ہے ، خصوصاً مینگل صاحب کو گلے لگائیں، ان کی جلی کٹی سنیں، حوصلہ پیدا کریں کہ ان کی شکایات دور کرسکیں۔ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ مولانا کے دام سے نکلنے پر غور کرے۔ ایم ایم اے نری ریت ہے اس میں کوئی مچھلی نہیں۔ وما علینا الالبلاغ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین