• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جج نے ملزم سے کہا کہ استغاثہ تم پر سائیکل چوری کرنے کا الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے لہٰذا میں تمہیں باعزت بری کرتا ہوں ۔ملزم نے عدالت سے باہر آکر اپنے وکیل سے پوچھا کہ وکیل صاحب کیا اب میں وہ سائیکل استعمال کرسکتا ہوں۔یہی کچھ میاں صاحب 25سال سے زیادہ مقیم اپارٹمنٹ میں جو لندن کے سب سے مہنگے علاقے میں واقع ہے معہ اپنی فیملی رہتے رہے اور آج تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ اُس کا مالک کون ہے؟
الیکشن 2018کو گزرے ہفتہ بھرسے زیادہ ہوچکاہے مگر میر ے لکھاری برادری سے تعلق رکھنے والے وہ بعض مخصوص محترم جنہیں میاں صاحب کے ہر دور میں وزارت ،سفارت اور خصوصی مراعات حاصل رہیں۔انہیںآج عمران خان کی آنے والی حکومت ہضم نہیں ہو رہی ۔وہ دھڑا دھڑ اُس میں خامیوں کے انبار جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں جو میاں صاحب کے ادوار میں بالکل نظر نہیں آئیں ۔اگر وہ شفاف نگاہوں سے دیکھیں تو 2013کے الیکشن میں صرف ایک ہی ہفتے بعد آزاد امیدواروں کی قطاریں مسلم لیگ ن کے درِدولت میں الیکشن جیتنے کے بعد لگ گئی تھیں ۔صرف 35منتخب افراد تو فوری طور پر میاں صاحب کی حمایت کا اعلان کرنے کے بعد حکومت کے دست راست بن گئے تھے ۔وہ اُس وقت کیوں خاموش رہے کیوں میاں صاحب کو باز رکھنے کی تلقین نہیں کی اور صراط مستقیم پر ڈٹ جانے کا مشورہ کیوں نہیں دیا وغیر ہ وغیرہ۔چلیں چھوڑیں اب آئیںاصل حقیقت کی طرف تقریباً سب جماعتوں کے رہنما جو سیاسی زندگی میں پہلی مرتبہ سیاست سے باہر ہوئے ہیں انہیں عمران خان ہضم نہیں ہو پارہے ہیں ۔لہذا سب مل کر اے پی سی بناکر مشترکہ گولہ باری کرکے پی ٹی آئی کو مشکلات میں ڈالنا چاہتے ہیں ۔فرق صاف ظاہر ہے صرف پنجاب میں حکومت بنانے کے لئے وہ اُسی طرح آزاد اور دیگر پارٹیوں کو لالچ دے رہے ہیں۔ جو صراط مستقیم کے مخالف سمت جاتی ہیں اور تو اور وہ غیر سیاسی گٹھ جوڑ کرکے مرکزی حکومت بنانے کی بھی سازش کررہے ہیں ۔وہ تو پی پی پی کو ہر طرح کالالچ دے کر اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں جس کے خلاف ہر الیکشن میں اُس پر کرپشن کے الزامات لگاتے رہے تھے۔آج وہ انہیں پارسا لگ رہے ہیں۔وہ بھول رہے ہیں کہ عوام گزشتہ تین دہائیوں سے انہی دو جماعتوں کے اقتدار میں رہنے کے باوجود مسائلوں کے انبار میں اضافہ ہی دیکھتے رہے اور ان کے کرتا دھرتا اپنی جیبیں بھرتے رہے اور ہر الیکشن کے موقع پر دھواں دھار تقریروں سے عوام کو گرماتے رہے ۔انہی چوہدریوں ،نوابوں ،جاگیرداروں کے بل بوتے پر کبھی ق لیگ تو کبھی ن لیگ کبھی پی پی پی میں شامل ہوکر حکومتی مزے لوٹتے رہے اور اب بھی وہ باز نہیں آئے ۔اور پی ٹی آئی کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاکر گزشتہ دو سالوں میں اعلانیہ شامل ہوتے رہے۔ اگر چہ اکثریت کو عوام نے اس الیکشن میں مسترد کردیا ہے مگر پھر بھی وہ اپنا وزن پی ٹی آئی کے پلڑے میں ڈال چکے ہیں ۔جن کی وجہ سے پی ٹی آئی بھی داغ دار ہوچکی ہے۔اقتدار کے بعد اب عمران خان کی دہری ذمہ دار ی ہے کہ وہ ان داغوں کو کو کیسے جھیلتے ہیں اور دھوتے ہیں ۔عوام کی بھر پور حمایت تو انہیں حاصل ہوچکی ہے مگر ان کرپٹ سیاست دانوں والا معاشرہ کیسے دھلے گا ۔یہ ایک بہت کٹھن راستہ ہے جو 70سال سے ایک ہی ڈگر پر چل چل کربند گلی تک جا پہنچا ہے ۔یہ سیاست دان ابھی تک یہی سمجھے ہوئے ہیں کہ وہ عوام کو پکاریں گے توعوام سڑکوں پر نکل آئیں گے یہ ان کی سیاسی بھول ہے ۔عوام خود اُن سے بیزار ہوچکے تھے ۔اسی وجہ سے اب وہ تمام سربراہان الیکشن ہار چکے ہیں وہ حلف کیسے اٹھائیں گے ؟جبکہ وہ سب کے سب اسمبلیوں سے باہر جاچکے ہیں۔ اگر ان میں ذرا سی بھی سیاسی سوجھ بوجھ باقی رہ گئی ہے تو انہیں چاہیے کہ اگلے الیکشن کی تیاریاں ابھی سے شروع کریں ۔عوام کا اعتماد بحال کریں جو اب تقریباً ناممکن ہوچکا ہے ۔ایک دو الیکشن کی بات ہوتی تو شاید عوام بھول جاتے وہ تو مستقل الیکشنوں میں کامیاب ہوکر عوام کو مستقل بے وقوف سمجھتے رہے اور بناتے رہے ۔عوام کے سامنے کوئی اور پڑھا لکھا سیاست دان نہیں ابھرا جس پر کرپشن کا الزام نہ لگا ہو۔خوش قسمتی سے عمران خان کی شکل میں ایک پڑھی لکھی سیاسی جماعت پی ٹی آئی ایک چوتھائی صدی گزارنے کے بعد الیکشن میں کامیاب ہوئی تو سب کے سب دھاندلی کے الزامات لگاکر اُس کو کنارے لگانے میں مصروف ہیں،کیا میڈیا اور کیا مخالفین سب کے سب نہیں چاہتے کہ پاکستان اور اُس کے عوام خوشحالی کی طرف دوبارہ لوٹیں ۔وہ ان کو اندھیرے کنویں میں ہی رکھنا چاہتے ہیں۔یقین کریں کہ پاکستان کی خوشحالی کے خواہاں آج بہت خوش ہیں ۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تبدیلی کیسے پنپے گی۔ یہ کرپٹ معاشرہ کیسے سدھرے گا؟ ایک آدمی کس کس محاذ پر لڑے گا ایک طرف عوام کی بدحالیاں دُور کرنے کی کوشش تو دوسری طرف انہی سیاست دانوں کی طرف سے رکاوٹیں اور قانونی سقم ،عدلیہ کی اپنی مجبوریاں۔ مگر مجھے قوی امید ہےکہ عمران خان مستقل مزاجی سے ان سے لڑ کر ان شاء اللہ کامیابی سےعہدہ برآ ہوگا ۔ ان کے ساتھیوں پر بھی ذمہ داریاں آچکی ہیں ۔اگر انہوں نے نہیں نبھائیں تو عوام اُ ن کوبھی ماضی کے سیاست دانوں کی طرح مسترد کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے اور صرف ایک الیکشن ہی کافی ہوگا ۔لہذا غلطیوں کی گنجائش اب باقی نہیں رہی ہے ۔قوم کی بھلائی کیلئے اچھے اور مثبت اقدامات عمران خان کو کامیاب ترین سیاست دان بناسکتے ہیں۔ اگر انہوں نے اپنی نشری تقریر پر عمل کیا تو دنیا دیکھے گی کہ پاکستان اپنا کھویا ہوا وقار واپس پالے گا ۔اُس کے لئے صرف اور صرف مثبت اقدامات کی ضرورت ہے اور بس ۔مخالفین خود بخود پی ٹی آئی کی اچھی تبدیلیوں سے خاموش ہوجائیں گے علاوہ سیاسی بھگوڑے ، لوٹ کھسوٹ والے عادی سیاست دانوں کے جو ہر دور میں عوام کے ووٹوں کی بے حرمتی کرتے رہے وہ آج چلارہے ہیں ’ووٹ کو عزت دو‘۔
میرے ساقی کو حلف اٹھانے دو تبدیلی کی خوشی میں شعر ہی بدل گیا ۔قارئین خود شعر درست کرلیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین