• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس طرح ڈیوڈ پیٹریاس اور امریکی کمانڈر جنرل ایلن رسوائی سے دوچار ہوئے ہیں اس سے صدر ڈیوڈ اوباما کی صدارتی حیثیت میں اسٹرٹیجک اضافہ یقینی ہوگا اور یہ معاملہ یہی ختم نہیں ہوگا بلکہ پینٹاگون کا وہ جنگجو ذہن رکھنے والا گروہ جس نے صدر اوباما سے بعض انتہائی غلط فیصلے کرائے اور افغانستان کے حوالے سے انہیں گمراہ کیا۔ اس کی حقیقت بھی واضح ہوجائے گی اس طرح امریکی وزیر دفاع لیون پینٹاکو بھی ابھی قیمت ادا کرنی پڑے گی اور انہیں بھی جانے کیلئے کمرکس لینا پڑے گی اور کبھی جاسوسی نظام میں بھی بڑی تبدیلیوں کی ضرورت پیش آئے گی کیونکہ وہاں بھی لیون پینٹا اور ڈیوڈ پیٹریاس کی سوچ کے لوگ موجود ہیں اور حقیقت اب صدر اوباما کے دوسرے دور میں انہیں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا پڑے گی اور ان کے گرد پینٹاگون اور سی آئی اے میں بیٹھے ہوئے ان غلط سوچ رکھنے والوں کا محاسبہ کرنا پڑے گا جنہوں نے امریکا میں موجود اینٹی اوباما لابیوں اور میڈیا کے ذریعہ یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ صدر اوباما امریکا کے ایک ناکام صدر ثابت ہوئے۔جو لوگ عالمی سیاست میں ہونے والے واقعات میں دلچسپی رکھتے ہیں انہیں اندازہ ہوگا کہ امریکی میڈیا کا بہت بڑا حصہ پوری شدت سے امریکیوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہا تھا کہ صدر اوباما 2012ء کا انتخاب ہار جائیں گے اور امریکی میڈیا اور یہودی لابیاں صدر اوباما کے مقابلے میں ری پبلکن امیدوار کو اس طرح پیش کررہے تھے کہ وہی ہونے والا صدر ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈیوڈ پیٹریاس کا سیکس اسکینڈل اور امریکی کمانڈروں کا افغانستان میں طرز عمل اور امریکی وزارت خارجہ میں موجود اس طرز عمل کے حامیوں کے کرداروں کو سامنے رکھ کر صدر اوباما کو پینٹاگون، وزارت خارجہ اور CIA کی بڑے پیمانے پر تطہیر کی ضرورت ہوئی اگر انہوں نے اپنے وژن کو استعمال کرتے ہوئے امریکی وقار کے خلاف کام کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو آگے جاکر انہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ بات قارئین کو یاد ہوگی کہ جب صدر اوباما کا پہلا دور شروع ہوا تھا تو انہوں نے بڑے فیصلہ کن انداز میں یہ بات کہی تھی کہ اب افغانستان میں مزید امریکی افواج نہیں بھیجی جائیں گی لیکن NEOCON کی لابیوں اور پینٹاگون میں ان کے پلانٹ کراتے ہوئے ہرکاروں نے جس میں وزیر دفاع لیون پینٹا، ڈیوڈ پیٹریاس، جنرل ایلن اور ان کے ہم خیال وزارت خارجہ کے اہلکاروں اور سی آئی اے کی ذہنی کاوشوں نے صدر اوباما کا گھیراؤ کرلیا اور ان کے فوج نہ بھیجنے کے فیصلے کو تبدیل کرایا اور 35000 امریکی فوج افغانستان بھیجوا دی۔ مجھے یاد ہے میں نے اس وقت بھی اس فیصلے پر تجزیہ کرتے ہوئے اسے بہت بڑا بلینڈر قرار دیا تھا، ہوا بھی ویسا ہی۔جس وقت صدر اوباما پہلے ٹرم کیلئے صدر ہوئے تو ان سے ایک بنیادی غلطی یہ ہوئی تھی کہ انہوں نے ری پبلیکن صدر کے دور کے بعض افراد کو اہم ذمہ داریاں سونپ دیں ان افراد کا تعلق سی آئی اے پینٹاگون اور وزارت خارجہ سے تھا۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ یہ لوگ صدر اوباما کیلئے مشکلات پیدا کریں گے اور ہوا بھی ایسا ہی حالانکہ انہیں اپنے وژن اور سیاسی سوجھ بوجھ کے مطابق نئی بساط بچھانے کی ضرورت تھی۔
لیکن اب قدرت نے خود ایسا انتظام کردیا ہے کہ انہیں امریکا کی بہتری کیلئے اپنی فکری استعداد کو بروئے کار لانے کا موقع ملے گا اور وہ نئی انتظامیہ سامنے لا سکیں گے جو نئی سوچ اور قوت عمل کے ذریعہ آگے بڑھ سکیں گے جس وقت امریکی میڈیا پوری شدت کے ساتھ یہ تاثر دے رہا تھا کہ ری پبلیکن امیدوار مسٹر مٹ رومنی کی جیت یقینی ہے اور دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے نتائج نے ثابت کیا کہ امریکی میڈیا نے تمام تجزئیے طرفداری کی بنیاد پرکئے تھے۔ ری پبلیکن پارٹی نے بے تحاشہ دولت پانی کی طرح بہائی لیکن حقائق یہ بتا رہے تھے کہ اوباما جیت جائیں گے۔ میں نے 3نومبر کے اپنے کالم میں جس کا عنوان تھا امریکی صدارتی الیکشن یہ لکھ دیا تھا کہ ”مسٹر رومنی جو مسٹر اوباما کے مقابل امیدوار ہیں میرا تجزیہ یہ ہے کہ وہ ایک کمزور مدمقابل ہیں ان کا وژن خود امریکا کی حیثیت کے بارے میں معلق فکر کی طرح ہے وہ کسی مضبوط پلیٹ فارم پر کھڑے نظر نہیں آتے۔ مسٹر رومنی مجھے تو ایک ڈمی امیدوار نظر آتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے مسٹر اوباما کی جیت 6 نومبر کو یقین میں بدل جائے گی۔“
یہ پینٹاگون اور سی ائٓی اے کی سازش کا نتیجہ ہے کہ افغانستان کی جنگ پاکستان میں پہنچائی گئی تھی میں نے پرویز مشرف کے دور میں انہیں انہی کالموں کے ذریعہ آگاہ کرنے کی پوری کوشش کی لیکن وہ ”عقل کل“ بنے ہوئے تھے اور طاقت و اقتدار کے نشے میں تھے انہوں نے توجہ نہیں کی اس سازش اور وار گیم کے اہم کردار ڈیوڈ پیٹریاس اور لیون پینٹا جیسے ہی لوگ تھے۔”افغانستان کا مسئلہ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کے حل سے علاقے کی لبرل اور جمہوری قوتوں کو تقویت ملے گی ایران کے مسئلے پر کوئی بڑا تناؤ پیدا نہ ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ صدر اوباما نئی ٹیم کے ساتھ میدان میں اتریں گے اور بین الاقوامی سطح پر بہتر اور پرامن دنیا کیلئے کام کرسکیں گے۔“
امریکی صدر کے نئے پلان کی طرف میں نے اپنے اسی کالم میں اشارے کئے تھے امریکیوں کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ پاکستان اس علاقہ کا وہ ملک ہے جو انہیں افغانستان سے نکلنے کا راستہ دے سکتا ہے اور افغانستان میں ایسی حکومت کو وجود میں لانے کا محرک بن سکتا ہے جو امریکا کی حامی نہ ہو تو مخالف بھی نہ ہو۔امریکی سیاسی قیادت کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ویتنام میں بھی ان کی ناکامی ان کی عسکری قیادت کی ناکامی تھی اور صدر نکسن نے امریکا کو ویتنام میں بڑی تباہی سے بچایا۔ افغانستان میں بھی امریکا کی عسکری قیادت ناکام ہوئی ہے جس نے وہائٹ ہاؤس میں بیٹھی ہوئی قیادت کو گمراہ کیا اور صدر اوباما کو تباہی اور ناکامی کے اس راستے پر لگا دیا جس پر سابق امریکی صدر کو لگایا ہوا تھا۔
روس جنیوا معاہدے کے ذریعہ افغانستان سے نکلا اور اس معاہدے کو کامیاب بنانے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا۔ امریکا نے جو غلطیاں افغانستان سے روس کے جاتے وقت کی تھیں اب اس کو نہ دہرائے ورنہ اس کے اثرات مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام ہے۔ اب زیادہ عرصہ تک شام میں حالات جوں کے توں نہیں رہ سکتے۔ اسرائیل کا مفاد اپنی جگہ لیکن امریکہ کے اپنے مفادات پرامن مشرق وسطیٰ سے وابستہ ہیں۔اس وقت بھی صورتحال کا تقاضہ یہ ہے کہ پاکستان ہی وہ ملک ہے جو مذاکرات کے ذریعہ امن کے قیام میں مدد دینے کی پوزیشن میں ہے، جنگ چھیڑنا آسان ہے اس کو ختم کرنا بہت مشکل ہے، امریکا سے زیادہ اس حقیقت کو کون جانتا ہے۔
تازہ ترین