انتخابات کے نتائج کی گرد ابھی نہیں بیٹھی جی ڈی اے سندھ میں مبینہ دھاندلی کے خلاف طلب کردہ اجلاس میں صوبے بھر میں ہڑتال کی کال یا پھر سلسلہ وار احتجاجی مظاہروں کا اعلان کرسکتی ہے تاہم انتخابی نتائج کے خلاف کراچی میں ایم کیو ایم ، جی ڈی اے، جمعیت علماء اسلام اور اے این پی نے زوردار مظاہرے کئے جس میں انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے اسے جھرلوالیکشن قرار دیا۔ دھاندلی کے خلاف گرینڈڈیموکریٹک الائنس، متحدہ مجلس عمل اور نوازلیگ نے مختلف شہروں میں مظاہرے کئے اور انہوں نے چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے اور دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا۔ کراچی پریس کلب پر جی ڈے اے ، مجلس عمل کے تحت انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ۔ اس موقع پر مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے جی ڈی اے کے رہنما سابق وزیر اعلیٰ سندھ سیدغوث علی شاہ نے کہاکہ ہم سندھ کی سطح پر مطالبہ کررہے ہیں کہ 25جولائی کو ہونے والے الیکشن کالعدم قرار دے کر نئے انتخابات کرائے جائیں اور چیف الیکشن کمشنر فوری طور پر مستعفی ہو۔انہوں نے کہاکہ نواز شریف کے بعد آصف علی زرداری کا بھی احتساب ہونا چاہیئے اگر ہمارے مطالبات پر فوری عمل نہیں کیا گیا تو اگلے مرحلے میں پہیہ جام کی کال دیں گے۔مجلس عمل کے رہنماؤں قاری عثمان ، اسلم غوری اورعمرصادق نے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ یہ انتخابات تاریخ کے بدترین انتخابات تھے اس کے نتائج پہلے سے تیار شدہ تھے ہم اس جعلی انتخابات کو نہیں مانتے۔جبکہ اے این پی سندھ کے صدر شاہی سید نے بھی کراچی میں مبینہ دھاندلی کے خلاف کراچی پریس کلب پر ایک بڑے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہمارامینڈنٹ چھیناگیا ہے ایم کیو ایم نے الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اس بار پوراٹائر پنکچر ہوا ہے الیکشن میں اصل انجینئرنگ 6 بجے کے بعد ہوئی پیراشوٹ پارٹی یہ سمجھ رہی تھی کہ ایم کیو ایم ختم ہوگئی ۔ فاروق ستار نے کہاکہ کرپشن کے خلاف لہر پنجاب سے چلی تاہم گھوٹکی پر آکر کیوں رک گئی انہوں نے کہاکہ متحدہ آج بھی وزن رکھتی ہے اب بھی اقتدار کے لیے ہر پارٹی ہمارے دروازے پر آرہی ہے مظاہرے سے عامرخان نے بھی خطاب کیا۔ گرینڈڈیموکریکٹ الائنس(جی ڈی اے) کی جانب سے کراچی، ٹھٹھہ، حیدرآباد ، میرپورخاص، سکھر، نواب شاہ، بدین، ڈگری، جھڈو، نوکوٹ، عمرکوٹ، ٹنڈوالہیار، لاڑکانہ سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں عام انتخابات کے دوران سندھ میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف مظاہرے کیے اور دھرنے دیئے گئے ۔ اس الیکشن میں طرفہ تماشہ یہ ہے کہ تمام جماعتیں الیکشن میں دھاندلی کا الزام عائد کررہی ہیں جی ڈی اے سندھ میں پی پی پی کے خلاف سراپا احتجاج ہے تو پی پی پی ملک گیر سطح پر الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کے خلاف مسلم لیگ(ن) پی ٹی آئی کے خلاف توایم ایم اے، اے این پی اور پختون خواہ الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کے خلاف کے خلاف احتجاج کررہی ہے جبکہ ایم کیو ایم الیکشن کمیشن کے خلاف سراپا احتجاج ہے دوسری جانب سندھ میں انتخابی نتائج کے بعد پی پی پی کو حکومت بنانے کے لیے کسی سہارے کی ضرورت نہیں گرچہ قائدایوان کے نام کا باضابطہ اعلان نہیں ہوا تاہم مرادعلی شاہ اب تک سب سے مضبوط امیدوار ہیں۔پیپلزپارٹی کی قیادت نے 35 رکنی نئی سندھ کابینہ کے لیے آصف زرداری کی ہمشیرہ سمیت 9 منتخب ایم پی ایز کے ناموں پر غورشروع کردیا ہے۔18 وزرا کے ساتھ 5 مشیر اور 12 معاونین کابینہ کا حصہ ہوں گے۔کابینہ کے فیصلے پر صرف وزراءرائے شماری میں حصہ لیں گے مشیروں اور معاونین کو ووٹ کاحق نہیں ہوگا ذرائع کا کہناہے کہ اسپیکرشپ کے لیے سابق وزیراعلیٰ سیدقائم علی شاہ کے نام کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے جبکہ ڈپٹی اسپیکر کے لیے مرادعلی شاہ سینئر اور جام مدد کے نام سامنے آئے ہیں ، کہاجارہا ہے اس مرتبہ مخصوص نشستوں پر بہت کم وزیرمشیربنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ادھر پی پی پی سندھ کے صدر نثارکھوڑو کی صاحبزادی نداکھوڑو کی لاڑکانہ سے شکست پر پی پی پی قیادت نے سندھ کے صدر نثار احمد کھوڑو پر سخت ناراضگی کااظہار کردیا اور نثاراحمدکھوڑو کو سندھ کی صدارت سے ہٹانے اور ان کی جگہ مولابخش چانڈیو یا سیدخورشید احمد شاہ کو پی پی پی سندھ کا صدر بنائے جانے کا امکان ہے۔ پی پی پی کے انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے لاڑکانہ کی صوبائی نشست پر نثاراحمدکھوڑو کی صاحبزادی ندا کھوڑو کی جی ڈی اے کے معظم عباسی کے ہاتھوں شکست کا سخت نوٹس لے لیا ہے اور پارٹی قیادت نے نثارکھوڑو سے سخت بازپرس بھی کی ہے اور ان پر سخت ناراضگی کا بھی اظہار کردیا ہے ذرائع کے مطابق پی پی پی قیادت نے نثار کھوڑو کوہٹانے کے لیے اعلیٰ سطح پر مشورے شروع کردیئے ہیں۔ اس ضمن میں بلاول بھٹو زرداری ، آصف علی زرداری نے لیڈیز ونگ سندھ کی مرکزی صدرفریال تالپور ، سینئررہنماشیری رحمن، حاجی علی حسن زرداری اور سینیٹرمیاں رضاربانی سے مشاورت کی ہے بتایاجاتا ہے کہ نثارکھوڑوکو عہدے سے ہٹانے سے پہلے انہیں وضاحت کرنے کا ایک موقع دیا جائے گا۔پی پی پی قیادت سندھ کے دیگر عہدوں پر تبدیلی لانے پر غور کررہی ہے تاہم پی پی پی کراچی ڈویژن کے صدر سعیدغنی کا عہدے ناصرف برقرار رکھنے کافیصلہ کیا گیاہے بلکہ انہیں کابینہ میں اہم ذمہ داری بھی سونپی جائے گی۔ تاکہ کراچی میں کھلامیدان ملنے کے بعد پی پی پی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر کراچی سے آئندہ بلدیاتی انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کرے۔ادھر پی ایس پی کی انتخابات میں شکست کے بعد پی ایس پی میں شکست وریخت کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ان کے بعض اہم عہدیداروں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی ہے تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے درمیان اتحاد کو دونوں جانب کے کارکنوں نے قبول نہیں کیا ہے۔ تحریک انصاف سے ایم کیو ایم نے جومعاہدہ کیا ہے اس معاہدے کے 70 فیصد مطالبات کا تعلق صوبائی حکومت سےہے۔ کراچی میں اب دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی ہے میئرکراچی کا تعلق متحدہ سے ہے سندھ میں پی پی پی کی حکومت ہے اور وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے جارہی ہے ان حالات میں کیا کراچی کی ترقی کے لیے کام ہوسکیں گے کراچی کے شہری اب چکی کے دو کے بجائے تین پاٹ میںپسیں گے۔دوسری جانب پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے درمیان معاہدہ سے پی ٹی آئی کے ووٹرزمیں بے چینی پائی جاتی ہے بلدیاتی انتخابات میں ووٹرز ا س اتحاد پر ری ایکشن کا اظہار کرسکتے ہے ادھر کارکنوں کی تنقید اور دباؤ کے بعد پی ٹی آئی کراچی ڈویژن کے صدر فردوس شمیم نقوی نے کہاکہ متحدہ قومی موومنٹ پر جوا لزام لگائے گئے ان پرقائم ہیں میڈیا سے گفتگو میں فردوس شمیم نقوی نے نیاپنڈورا باکس کھول دیا اور کہاکہ ہم مجبوری میں ایم کیو ایم کے پاس گئے اتحاد بھی مجبوری ہی میں کیا ہے انہوں نے مزید کہاکہ ہم نے عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے لیے ووٹ پورے کرنا تھے ایم کیو ایم کی حمایت کی ضرورت تھی اس لیے ان کے پاس گئے۔ پی ٹی آئی کراچی کے صدر نے کہاکہ ایم کیو ایم کوالیکشن 2018 میں شکست میئروسیم اخترکی خراب کارکردگی کے باعث ہوئی ہے فردوس شمیم نقوی کے بیان پر ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے کہاہے کہ اگر شروع میں ہی ایسا رویہ رکھا گیا تو آگے مشکلات بڑھ جائیں گی انہوں نے یہ بھی کہاکہ تحریک انصاف کی قیادت کے سامنے معاملہ رکھیں گے کہ قوم کے سامنے آکر بتائے کیامجبوری تھی۔تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان ہونے والا معاہدہ دونوں جماعتوں کے لیے چیلنج بنتاجارہا ہے اور معاہدے کے باوجود دونوں جماعتوںکےدرمیان نظریاتی اختلافات حکومت کی تشکیل سے قبل ہی سامنے آنے لگے اور خصوصاً کراچی کی سطح کی لیڈرشپ کے درمیان، ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے مانگی جانے والی وزارت کے حوالے سے بھی فی الفور تحریک انصاف کی قیادت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ذرائع نے بتایاکہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے باوجود دونوں جماعتوں کے درمیان نظریاتی اختلافات موجود ہیں لیکن پھر بھی فی الفور دونوں جماعتوں کا اتحاد وقت کی مجبوری ہے ایم کیو ایم کراچی میں اپنی اکثریت کھوچکی ہے اوراسے خود کوسنبھالنے اور پارٹی حالات کو بہتر کرنے کے لیے کچھ وقت چاہیئے جبکہ تحریک انصاف کو حکومت بنانے، وزیراعظم کے انتخاب اور صدر پاکستان کے انتخاب کے لیے ایم کیو ایم پاکستان کی ضرورت ہے۔