• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران پارٹی سربراہ، کیس رازداری زمرے میں نہیں آتا، کنوردلشاد

کراچی(جنگ نیوز)سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کہ عمران خان کا این اے 53کے حوالے سے کیس رازداری کے زمرے میں نہیں آتا ہے، عمران خان چونکہ خود پارٹی سربراہ ہیں اور انہوں نے اپنے ہی پارٹی نشان پر مہر لگائی اس لئے یہ رازداری کا معاملہ نہیں ہے، رازداری کا معاملہ تب ہوتا ہے جب آپ کسی دوسرے امیدوار کو ووٹ دینا چاہیں، ماضی میں ایسا ہی کیس سمیرا ملک کا سامنے آیا تھا مگر انہوں نے کسی دوسرے امیدوار کو ووٹ دیتے ہوئے بیلٹ پیپر دکھایا جو رازداری کے زمرے میں آگیا، اسی طرح ٹھٹھہ کے شیرازی برادران نے بلدیاتی انتخابات میں اپنا ووٹ ظاہر کیا وہ بھی رازداری کے زمرے میں آیا، عمران خان کے وکلاء نے رازداری کے معاملہ کی روح کے مطابق کیس داخل نہیں کیا بلکہ ان سے معذرت کروارہے ہیں۔ کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ نے این اے 131 میں دوبارہ گنتی کا حکم دیدیا تھا تو اس پر عمل ہونا چاہئے تھا، عمران خان کو سپریم کورٹ جانے کے بجائے دوبارہ گنتی کروادینی چاہئے تھی اس طرح ان کے انتخابی حلقے کھلوانے کی وعدے کی بھی لاج رہ جاتی۔صدر پلڈاٹ احمد بلال محبوب نے کہا کہ 2013ء کے انتخابات کافی منصفانہ اور شفاف تھے، اس الیکشن سے متعلق شور بہت کیا گیا اس لئے وہ زیادہ بدنام ہوگیا، پاکستان کی کوئی مرکزی اتھارٹی 2013ء کے انتخابات پر کسی درجے میں اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کررہی تھی، جیوڈیشل کمیشن بھی اسی نتیجے پر پہنچا تھا کہ 2013ء کے انتخابات میں بے ضابطگیاں ضرور ہوئیں مگر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت دھاندلی نہیں ہوئی۔ احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ 2018ء کے انتخابات کا معیار پچھلے انتخابات سے پانچ فیصد کم ہونے کی بڑی وجہ پری پول فیز ہے، انتخابات سے قبل ایک سال کے دوران تمام جماعتوں کویکساں مواقع حاصل نہیں تھے، کچھ پارٹیوں کیلئے آسانیاں تو کچھ کیلئے دشواریاں تھیں، کچھ پارٹیوں کو پچھلے ایک سال میں پراسس کے تحت نشانہ بنایا گیا جس کا پیٹرن نظر آتا ہے، انتخابی اصلاحات میں بہت سی چیزیں اچھی بھی ہوئیں، 2018ء کے انتخابات میں پولنگ ڈے کے دن اچھے پراسس کی بنیادی وجہ الیکشن کمیشن کی کارکردگی رہی، الیکشن کمیشن نے اسٹاف کی تربیت، سیکیورٹی اور پرامن ماحول کا اہتمام کیا تھا، الیکشن کمیشن کو رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم اور گنتی کے عمل سے متعلق شکایات پر تحقیقات کرنی چاہئیں، پاکستان کا ایک سیاسی ماحول ہے جس کے تحت طے کرلیا جاتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو نہیں آنے دینا چاہئے کیونکہ یہ بہت خراب جماعت ہے اور پھر اس کے بارے میں مختلف پلاننگ کے ذریعہ چیزیں ہوتی ہیں جو نہیں ہونی چاہئیں، اگر ہم ان شکایات پر قابو پالیں تو ہمارے انتخابات دنیا کے بہترین انتخابات میں سے ایک ہوں گے۔میزبان شاہزیب خانز ا د ہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سوال اٹھتا رہا ہے کہ کیا نواز شریف اور شہباز شریف ایک ہی صفحہ پر ہیں، شہباز شریف جو کچھ کررہے ہیں چاہے ان کا ایئرپورٹ نہ پہنچنا ہو یا پھر کل اپوزیشن اتحاد کے احتجاج میں نہ پہنچنا ہو اس پر کیا نواز شریف شہباز شریف سے مطمئن ہیں، آج ن لیگ کے رہنما اور دیگر سیاسی رہنما نواز شریف سے ملاقات کیلئے اڈیالہ جیل پہنچے، کچھ لوگوں کو ملنے کی اجازت ملی جبکہ کچھ افراد کو ملاقات کے بغیر ہی واپس جانا پڑا، ملاقات کے بعد شہباز شریف نے نواز شریف سے جیل میں ہونے والی ملاقات سمیت دیگر کئی اہم معاملات سے متعلق گفتگو کی، شہباز شریف نے سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی مگر ان جوابات سے کچھ مزید سوال پیدا ہورہے ہیں، شہباز شریف پر گزشتہ روز تنقید ہوئی ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج میں شریک نہیں ہوئے، ن لیگ کی طرف سے کہا گیا کہ وہ موسم کی خرابی کے سبب نہیں آسکے، ہم نے کل احسن اقبال کے سامنے فلائٹس کا ڈیٹا رکھا کہ کتنی فلائٹس لاہور سے اسلام آباد گئیں مگر ان کا کہنا تھاکہ موسم کی خرابی ہی کی وجہ سے شہباز شریف نہیں آسکے تھے، شہباز شریف نے بتایا کہ الیکشن میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے اپوزیشن اتحاد پارلیمانی کمیشن کے مطالبہ پر ایک ہے، پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ وہ مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیشن کے مطالبہ کی حمایت کرتے ہیں، شہباز شریف سے شریف فیملی کیلئے کسی ڈیل یا مذاکرات سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے اس کا واضح جواب دیا مگر اس جواب میں بھی ایک سوال پیدا ہوا، شہباز شریف نے کہا کہ نہ کوئی این آر او دینا چاہتا ہے نہ کوئی لینا چاہتا ہے مگر تین ماہ پہلے طلال چوہدری نے ہمارے پروگرام میں کہا تھا کہ نواز شریف کو این آر او کی پیشکش کی گئی ہے، شہباز شریف سے پنجاب میں حکومت بنانے سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے مخالفین کی طرح سیاست نہیں کرسکتے، کیا ن لیگ کے سربراہ نے پنجاب میں حکومت سازی کے معاملہ میں ہتھیار ڈال دیئے ہیں ، کیا شہباز شریف یہ بتانے کی کوشش کررہے تھے کہ پنجاب سے جیتنے والے آزاد امیدواروں کو اپنی طرف مائل کرنے میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، شہباز شریف نے بتایا کہ نواز شریف احتجاج کی سیاست نہیں چاہتے حالانکہ نواز شریف جیل جانے سے پہلے کارکنوں کو مسلسل کہتے رہے کہ وہ جہاں سے اور جیسے بھی آواز دیں انہیں نکلنا ہوگا۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ نواز شریف آخر کار عدالت میں پیش ہوں گے، باقی دو ریفرنسز کا سامنا کریں گے، میڈیا پر نظر آئیں گے، شریف خاندان کیخلاف احتساب عدالت میں چلنے والے دونوں ریفرنسز کی سماعت اب نئی عدالت اور نیا جج کرے گا مگر ان کیسوں کی کارروائی ازسرنو شروع نہیں ہوگی بلکہ اس کا آغاز گزشتہ احتساب عدالت میں ہونے والی آخری سماعت سے ہی ہوگا، نئی احتساب عدالت کے جج نے اڈیالہ جیل میں قید نواز شریف کو تیرہ اگست کو طلب کرلیا ہے، احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر نواز شریف کو تیرہ جولائی کے بعد پہلی بار اڈیالہ جیل سے باہر یا اندر میڈیا سے بات کرنے کا موقع ملے گا یا نہیں یہ سوال اہم ہے کیونکہ پہلے وہ ملزم کے طور پر پیش ہوتے تھے مگر اب وہ مجرم ہیں، اس وقت العزیزیہ ریفرنس میں 20میں سے 19گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوچکے ہیں، فلیگ شپ ریفرنس میں 16 میں سے 14گواہان کا بیان ریکارڈ ہوچکا ہے، اس کے بعد دونوں ریفرنسز میں نواز شریف کا بیان ریکارڈ ہونا ہے، سپریم کورٹ کی ڈیڈ لائن میں بارہ دن باقی ہیں کیا بارہ دن میں یہ معاملہ طے پاسکتا ہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ عمران خان کی تین حلقوں سے کامیابی کا نوٹیفکیشن کلیئر ہوگیا، ایک حلقہ سے کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا مگر اب بھی ایک حلقہ سے نوٹیفکیشن رکا ہوا ہے، اس حلقے میں فیصلہ عمران خان کیخلاف آیا تو باقی حلقوں میں بھی کامیابی کالعدم ہوسکتی ہے، عمران خان نے کیمرے کے سامنے بیلٹ پیپر پر مہر لگائی جس پر الیکشن کمیشن نے ووٹ کی رازداری ظاہر کرنے پر ازخود نوٹس لیااور این اے 153 سے عمران خان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روک دیا گیا، آج عمران خان کی اس حوالے سے جمع کرائی گئی تحریری درخواست مسترد ہوگئی، الیکشن کمیشن عمران خان کیخلاف ازخود نوٹس کا فیصلہ ممکنہ طور پر کل کرے گا۔

تازہ ترین