لاہور کے بعد کراچی میں بھی پتنگ بازی میںکیمیکل اور دھاتی ڈوراور شیشے سے تیار کیے ہوئے مانجھے کا استعمال جان لیوا ثابت ہورہا ہے ۔گزشتہ دنوں شریف آباد تھانے کی حدود غریب آباد انڈر پاس، نیشنل بنک کے قریب موٹر سائیکل پر سوار 7سالہ معصوم بچی تلبیہ گلے پر پتنگ کی ڈور پھرنے سے جاں بحق ہوگئی ۔اس واقعہ کا درد ناک پہلو یہ تھازخمی بچی کوطبی امداد کی فراہمی کے لیے ایمبولینس کو چند فرلانگ کے فاصلے پر واقع سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد تک پہنچنے میں تقریبا45منٹ اس وجہ سےلگے کیوںکہ لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے اسے آگے جانے کا راستہ نہیں ملا۔کافی عرصے سے ہر اتوار کولیاقت آباد کے پل کے نیچے سروس روڈ پر الاعظم اسکوائرسے کریم آباد کی جانب جانے والی سڑک پر پولیس اور کے ایم سی کی مبینہ سر پرستی میں پرندوں اور جانوروں کا غیر قانونی بازار لگتا ہے ۔ خریداروںاور پرندے فروخت کر نے والے سیکٹروں افراد کے اژدہام کے باعث ایمولینس تو کجا لوگوں کا پیدل چلنا بھی محال ہوتا ہے ۔
یہاں صبح سےرات گئےتک ٹریفک جام رہتا ہے،جس کے باعث اطراف میں واقع فلیٹوں کے رہائشی اورشریف آباد کے مکینوں کوذہنی اذ یت کاسامناکرنا پڑتا ہے ۔علاقہ مکین اس کی شکایات متعدد بار پولیس اور کے ایم سی حکام سے کر چکے ہیں لیکن کچھ نتیجہ نہیں نکلا۔ اس سے قبل بھی یہاں اس طرح کے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ علاقہ مکینوں کو کسی ہنگامی صورت حال میںاپنے مریض کو ایمبولینس، رکشہ ٹیکسی یا نجی گاڑی میں اسپتال تک لے کرپہنچنا مشکل ہوگیا۔ پتنگ کی ڈور سے گردن کٹنے کی وجہ سے بچی کی حالت خاصی تشویش ناک تھی اور خون تیزی سے بہہ رہا تھا، لیکن اسپتال تک پہنچنے کے لیے راستہ نہ تھا، ایمبولینس ڈرائیورنے ناکامی کے بعد عباسی شہید اسپتال کا رخ کیا ، لیکناس وقت تک کافی خون بہہ چکا تھا، بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث بچی راستے میںہی دم توڑ گئی۔عینی شاہدین کا اس افسوس ناک واقعے کے بارے میں کہنا ہے کہ اگربچی برو قت سندھ گورنمنٹ اسپتال تک پہنچ جاتی تو شاید بچ جاتی ۔
اس سانحہ پر غم سے نڈھال بچی کے والد افضال خاں کا کہنا تھا کہ ہم بچی کے ہمراہ اس کی نانی کے گھر کورنگی جارہے تھے ،اور آج تلبینہ نے موٹر سائیکل پر آگے بیٹھنے کی ضد کی اور چھوٹے بھائی خرم کوپیچھےبٹھادیا ۔انھوں نے کہا کہ پتنگ کی ڈور سے اس کی گردن بر ی طرح کٹ گئی تھی اور خون کا فوارہ بہہ رہا تھا ، لیکن اسے روکنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی، اسپتال کے راستے میں لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے ایمبولینس کو راستہ ملنا مشکل ہورہا تھا۔ اگر وہ وقت پر اسپتال پہنچ جاتی تو شاید اس کی زندگی بچ جاتی۔ تلبینہ کی ماں صدمے کی سے نڈھال ہے۔ایک سوال پر افضال خاں نے کہا کہ میری بچی تو دنیا سے چلی گئی لیکن مزید لوگوںکوپتنگ کی ڈور سے محفوظ رکھنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جاناچاہئیں۔ انہوں نےاعلی حکام سے اپیل کی کہ پتنگ بازی اورکیمیکل ڈور پر پابندی لگا دی جائے تاکہ اب کسی اور کو یہ دن نہ دیکھنانہ پڑ ے ۔اس سلسلے میں ایس ایچ اوشریف آباد مرزاعظیم بیگ نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ واقعہ کی اطلاع ملنے پر پولیس جائے وقوعہ پر گئی تھی ،تاہم والد نےمقدمہ در ج کر انے سے انکار کر دیا تھا ۔
انھوں نے کہا کہ میں نے چند ہفتے قبل ہی چارج سنبھالا ہے۔ یہ بات درست ہے سندھ گورنمنٹ اسپتال کے سامنے اتوار کو پرندوں اور بکرا منڈی لگنے کی وجہ سے سڑک پر لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے ،جس سے ٹریفک بھی جام رہتاہے ،اب میں آئندہ اتوار کو خود چیک کروں گا ۔انہوں نے کہا کہ اس بازار کاخاتمہ کرانا میونسپل حکام کی ذمہ داری ہے،وہ اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھائیں گے تو پولیس ان کی بھر پور مدد کر ےگی ۔
پتنگ کے سامان کی فروخت تومحلوں میں واقع دکانوںمیں کی جاتی ہے ،لیکن بڑی دکانیں صدر ایمپریس مارکیٹ میں ہیں ، جہاں کیمیکل سے تیار کی گئی ڈوراورہمہ اقسام کی پتنگوںکی کھلے عام فروخت ہوتی ہے۔اس کاروبار سے چشم پوشی کے عیوض پولیس یومیہ نذرانہ وصول کرتی ہے ۔ ماضی میں پتنگ بازی سے ہونے والی زیادہ تر اموات عام طور پر پتنگ کٹنےکے بعد اسے لوٹنے کی کوشش میں ہوتی تھیں جو آج بھی جاری ہیں۔ تاہم دھاتی یا کیمیائی ڈور تو پتنگ اُڑانے کے دوران بھی درمیان میں آنے والوں کے لئے موت کا پیغام بن جاتی ہے اور اس کی وجہ سے درجنوں ہلاکتیںہوچکی ہیں۔ عام طور پر پتنگ کٹنے کے بعد فضا میں ہچکولے کھاتی ہے تو بالخصوص بچے اور نوجوان اُس کو پکڑنے کی کوشش میں اپنے اطراف چلتے ہوئے ٹریفک کو بھی یکسر انداز کر دیتے ہیںاور حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ راہ چلتے سائیکل اور موٹر سائیکل سوار بھی ہلاکت خیز ڈور کاشکار ہو رہے ہیں۔ کیمیائی ڈور بھی اتنی ہی جان لیوا ہے جتنا کہ دھاتی ڈور مگر دھاتی ڈور اگر کسی کی گردن پرپر پھر جائے تو وہ تلوار یا کسی تیز دھار آلے کا کام کرتی ہے اور مذکورہ شخص کی جان بچنا ایک معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔ پتنگ اُڑانے کی عام ڈوریں تو سائیکل یا موٹر سائیکل سوار کے آگے بڑھنے کے نتیجے میں ٹوٹ جاتی ہیں مگر دھاتی ڈور کوششوں کے باوجود بھی نہیں توڑ سکتے۔ اگر آپ نے موٹر سائیکلوں میں استعمال ہونے والے کلچ یا ایکسی لیٹر وائر دیکھے ہیں تو یہ بھی نوٹ کیا ہو گا کہ پتلے سے ایک وائر میں بال سے کچھ موٹے کم از کم ایک درجن تار ہوتے ہیں۔ پرانے کلچ وائر سے بھی یہ دھاتی ڈور بنائی جاتی ہے۔
کیمیائی ڈور دراصل مچھلی پکڑنے والی باریک نائیلون کی ڈوری ہوتی ہے۔ جس پر کیمیکل لگا کر اسے جان لیوا بنا دیا جاتا ہے ۔ گزشتہ عشرےمیں لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں تین سے چار موٹر سائیکل سوار یکے بعد دیگرے پتنگ کی ڈور گردن پر پھرنے کے باعث موت کی آغوش میں پہنچ گئے تھے۔ اس سانحہ کے بعد خود لاہور کے شہریوں میں پتنگ بازی کے خلاف شعور اجاگر ہوا۔ تاہم لاہور میںمنائے جانے والے بسنت کے تہوار کی اس سوغات نے اب کراچی سمیت ملک بھر کے دیگر شہروں میں انسانی خون سے ہولی کھیلنا شروع کردی ہے اور حال ہی میں صرف دو ہفتے کے دوران دو اموات ہوچکی ہیں۔ پتنگ بازی صرف دھاتی اور کیمیائی ڈور استعمال کئے جانے پر ہی جان لیوا نہیں بنتی بلکہ عام مانجھا بھی کسی موٹر سائیکل سوار کی گردن پر پھر جانے سے اس کا نرخرہ کاٹ سکتا ہے۔ مانجھے میں بھی پسا ہوا شیشہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اکتوبر 2005ء میں عدالت عظٰمی نے پتنگ کی ڈور سے لاہور میں ہونے والی ہلاکتوں کو دیکھتے ہوئے سوموٹو ایکشن لے کر پتنگ بازی پر پابندی عائد کر دی تھی۔ یہ پابندی صرف لاہور تک محدود نہیں تھی بلکہ اس کا اطلاق پورے ملک پر ہوتا ہے۔لیکن پولیس اور انتظامیہ نے سپریم کورٹ کے اس حکم پر اب تک کوئی بھی اقدام نہیں اٹھایااور یہ کاروبار مکمل آزادی کے ساتھ پورے ملک میں جاری ہے۔ضرورت اس بات کی ہے پتنگ سازی کے مقامات اور اس کی خریدوفروخت میں ملوث دکانوں اور کاروباری مراکز پر چھاپے مار کر اس کاروبارکاخاتمہ کرکے، اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ جس مکان یامقام سے پتنگ فضا میں بلند ہوتی نظر آئے، وہاں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے موقع پر پہنچ کر سپریم کورٹ کے حکم کے نفاذ پر عمل درآمد کرائیں اور پتنگ اڑانے والوں کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں جن میں قتل، اقدام قتل اوردہشت گردی کی دفعات بھی شامل ہوں تاکہ غریب آباد جیسے دردناک سانحات کی روک تھام ہوسکے۔