آج حسب عادت علی الصبح جنگ اخبار پڑھا اور حامد میر صاحب کا جوابی کالم نظر سے گزرا۔ کالم میں وہ ذرا غصے میں نظر آئے، اس کالم میں فاضل کالم نویس مجھے ”موصوف‘‘ کہہ کے پکارتے رہے۔ تاہم میں ایک بار پھر دلیل کے ذریعے ہی ان کے تمام نکات کا حرف بہ حرف جواب دینے کی ادنیٰ سی کوشش کروں گا۔ میں بلوچستان کی تاریخ کے حوالے سے عرض کروں کہ بلوچوں کی تاریخ قدیمی طور پر ہمیشہ ’’Ballads‘‘ کی صورت میں سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہے۔ تمام بلوچ معاشرہ اسی شعر و شاعری کے طرز تاریخ کو مصدقہ سمجھتا ہے جیسا کہ کتاب کا لکھاری اور قاری تصنیف کو مصدقہ سمجھتا ہے لہٰذا بلوچوں کی تاریخ سے ’’Ballads‘‘ کی اہمیت کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پہلی وضاحت، سہیل وڑائچ صاحب کے کالم ’’بلوچستان پر سلگتا مکالمہ‘‘ روزنامہ جنگ 23نومبر 2024ء کو شائع ہوا، کے حوالے سے۔ میں نے ان کے سامنے یہ دلیل رکھی کہ آغا عبدالکریم نے قلات کی ریاست کے ضم ہونے کے بعد بغاوت کی اور افغانستان ہجرت کر گئے جو ان کا سسرال بھی تھا اور اس کے مقابلے میں ریاست پاکستان نے ایک محدود علاقے تک ایک محدود فوجی کارروائی کی۔ جناب سہیل صاحب شاید میری اس دلیل کو کہ پولیس رحیم یار خان کے کچے میں آپریشن کر رہی ہے کیا اس کو پورے پنجاب کا آپریشن قرار دیں؟ وہ قلات پولیس آپریشن سمجھے اور لکھ ڈالا۔ اس کی وضاحت میں جناب حامد میر صاحب جب آپ کے ساتھ میریٹ اسلام آباد میں نشست ہوئی تھی میں نے اس کو محدود فوجی آپریشن کہا تھا۔ میرا یہ دعویٰ کہ آپ نے ایک علیحدگی پسند رہنما کی خلیجی ملک میں ایک وزیر دفاع سے ملاقات کرائی تھی اس کے راوی کوئی اور نہیں آپ خود ہیں جس کا تذکرہ آپ نے چند سینئر صحافیوں کے روبرو اسلام آباد کلب کے کرکٹ گراؤنڈ میں کیا تھا۔ آپ نے ٹی وی مذاکرے کی دعوت کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ اس سے بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہو گا، میں اس سے اتفاق کرتا ہوں مگر مذاکرے سے آپ کے قارئین اور ناظرین کو حقائق جاننے کا موقع ضرور مل سکتا ہے۔ مجھے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب کے براہمداغ بگٹی سے مذاکرات پر اعتراض تھا نہ اب ہے اور میرے دل میں ڈاکٹر مالک بلوچ صاحب کیلئے انتہائی قدر اور احترام موجود ہے جس کا اظہار وہ خود بھی کرتے ہیں، مجھے اعتراض صرف اس بات پر ہے کہ ڈاکٹر صاحب جیسے جمہوری شخص کو اپنی اس وقت کی کابینہ اور صوبائی اسمبلی کو جمہوری روایات کے مطابق اعتماد میں لینا چاہئے تھا۔ آپ نے اپنے کالم میں مذاکرات سے انکار کی ایک وجہ مجھے قرار دیا جبکہ میں بار بار مقدس ایوان میں مذاکرات کی بات کرتا رہا ہوں لیکن آئین پاکستان ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں اور بغاوت کرنے والوں کے ساتھ جس سلوک کا ذکر کرتا ہے میں اُس کا بھی حامی ہوں اور آج آپ کے توسط سے آپ کے ’’نیاز مندوں‘‘ کو ریاست پاکستان اور حکومت بلوچستان کی طرف سے مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ میں اور میری جماعت سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی تنازع مذاکرات سے حل ہو تو اس سے اچھی بات کوئی نہیں اور وہیں میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ریاست کو معصوم لوگوں کے قتل کرنے والوں کی بیخ کنی کرنی چاہئے۔ اس کے بعد آپ نے کالم میں ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کے ساتھ اسلام آباد میں پیش آنے والے واقعہ کا ذکر کیا اور مجھے اس وقت کا وزیر داخلہ قرار دیا جبکہ میں اس وقت مستعفی ہو چکا تھا، آپ نے ایک سالہ پرانی تاریخ کو بھی مسخ کر دیا۔ البتہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے اس احتجاج سے متعلق یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ پرامن احتجاج ماہ رنگ بلوچ کا حق تھا تاہم جگہ کا انتخاب کرنا انتظامیہ کا حق ہوتا ہے۔ میر صاحب بلوچستان کے لوگوں کا آپ سے یہ گلہ بھی ہے کہ آپ لاپتہ افراد کے کیمپ میں بار بار جاتے رہے مگر وہیں پر معصوم شہیدوں کے ورثا بھی 22دن تک کیمپ لگا کر موجود رہے اور آپ 22سیکنڈ کیلئے بھی وہاں تشریف نہ لے گئے۔
جناب فکر یاراں سے آپ نے انکار نہیں کیا جس کی وجہ آپ نے ان کو مظلوم گردانا۔ میں آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ بلوچستان میں دہشت گردوں نے لگ بھگ پانچ ہزار معصوم شہریوں کو شہید کیا، جن میں اساتذہ، ڈاکٹرز، سیاسی کارکن اور صحافی شامل ہیں، کیا یہ مظلوم آپ کی فکر نظر سے کبھی گزرے ہیں؟
جنابِ من میں نے سردار عطاء اللہ مینگل صاحب یا میر غوث بخش بزنجو صاحب کو اپنی تقریروں میں کبھی غدار کہا نہ محب وطن، لہٰذا اردو زبان کیلئے جس نے بھی یہ کاوش کی میں اس کا معترف ہوں اور جہاں تک سردار عطاء اللہ مینگل صاحب کی بات ہے، انہوں نے وزیر اعلیٰ بنتے ہی بیک جنبش قلم تمام پنجابی اساتذہ / پولیس مین اور ٹیکنوکریٹس کو صوبہ بدر کرنے کا حکم دیا، میں اس حکم کو آج بھی غلط سمجھتا ہوں اور بلوچستان کے تعلیمی نظام کی تباہی کی بنیادی وجہ قرار دیتا ہوں جس کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔
محترم میر صاحب، نواب نوروز خان صاحب کے متعلق جو بیانیہ آپ بتاتے ہیں اور اپنے کالم میں تین بلوچ سرداروں کا ذکر کیا، ایک کا نام آپ نے غلط لکھا، ان کا نام سردار خان محمد نہیں سردار بلوچ خان تھا درستی فرمالیں۔ میں آپ جیسے عالم فاضل صحافی و دانشور کے سامنے چند سوالات رکھنا چاہتا ہوں کہ بلوچ تاریخ میں اس معاملے پر جو مکالمہ نواب نوروز خان صاحب اور سردار عطاء اللہ مینگل صاحب کے درمیان ہوا اسے حضور بخش خضداری صدارتی ایوارڈ یافتہ اپنی شعر و شاعری (Ballads) میں بیان کر چکے ہیں، اپنے نیاز مندوں سے اس کا ترجمہ براہوی زبان میں اردو میں کروا لیں۔ اس معاملے سے چند ماہ قبل وڈھ میں ایک دربار کا انعقاد ہوا جس میں اس وقت کے میجر جنرل حق نواز نے تھری ناٹ تھری کی بندوق کس قبائلی شخصیت کو کن خدمات کے عوض تحفے میں دی تھی؟ ان سوالوں کے جواب ضرور تلاش کریں تاکہ تاریخی واقعات میں چند شخصیات کا کردار واضح ہو سکے۔ میں جناب کے احترام کے پیش نظر اس کالم کا سلسلہ آج سے بند کر رہا ہوں، ٹی وی مناظرے کا جب حکم فرمائیں میں حاضر ہوں۔ پاکستان ہمیشہ پائندہ باد