پاکستان کے مقبول ترین گلوکار، اداکار اور ماڈل علی ظفر ایک ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں۔ وہ اچھے مصور، بہترین خطاط، مصنف، شاعر اور موسیقار بھی ہیں۔ انہوں نے پاکستان میںہی نہیں، بھارت جاکر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ان کی ہر ادا ایک خبر بن جاتی ہے۔ وہ بلاشبہ دْنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے لاکھوں، کروڑوں مداحوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ ٹی وی انٹرویوز میںکم نظر آتے ہیں، مگر جب جب نظر آتے ہیں، اپنی دھاک بٹھا جاتے ہیں۔ اس خوبرو اور دلکش شخصیت کو لوگ دیکھنا بھی چاہتے ہیں اور سننا بھی ۔ 18مئی 1980ء کو لاہور میں پیدا ہونے والے علی ظفر خیر سے 38 سال کے ہوچکے ہیں لیکن دیکھنے میںکم عمر لگتے ہیں۔
انہوں نے 2009ء میں اپنی پہلی محبت، عائشہ فاضلی سے شادی کی، جن سے ان کے دو بچے ہیں۔ ان کے والدین پروفیسر ظفراللہ اور کنول امین پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ علی ظفر کے ایک بھائی زین امریکا میں آئی ٹی انڈسٹری سے وابستہ ہیں، جبکہ ان کے چھوٹے بھائی دانیال، حال ہی میں بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شوبزکی دنیامیں وارد ہوئے ہیں۔ علی ظفر نے گورنمنٹ کالج لاہور اور این سی اے سے تعلیم حاصل کی۔ وہ بالی ووڈ میں اب تک نو فلموں میں کام کرچکے ہیں، ان میں ’’تیرے بن لادن‘‘، ’’لَو کا دِی اینڈ‘‘، ’’میرے برادر کی دْلہن‘‘، ’’لندن پیرس نیویارک‘‘، ’’چشم بددور‘‘، ’’ٹوٹل سیاپا‘‘، ’’کِل دِل‘‘، ’’تیرے بن لادن 2‘‘ اور ’’ڈیئر زندگی‘‘ شامل ہیں۔2016ء میں انہوں نے پاکستانی فلم ’’لاہور سے آگے‘‘ میں بھی کام کیا تھا جبکہ ان کی ایک اور پاکستانی فلم ’’دیوسائی‘‘ زیرتکمیل ہے۔ بے شمار مقبول گیتوں کے علاوہ علی ظفر نے 1999ء میں پہلی بار بطور اداکار ’’کالج جینز‘‘ نامی ڈرامے سے اپنے اداکاری کے سفر کا آغاز کیا، پھر ’’کانچ کے پَر‘‘ اور ’’لنڈا بازار‘‘ جیسے ڈراموں میں کام کیا۔ ان کے میوزک البمز ’’حقہ پانی‘‘ اور ’’جھوم‘‘ نے زبردست شہرت حاصل کی۔ علی ظفر کو اپنی ثقافت سے بھی بہت پیار ہے اُنہوں نے نے اپنے گھر میں رنگ برنگی چارپائیاں رکھی ہوئی ہیں۔ علی ظفر فائونڈیشن بھی قائم کی ہے، جہاں اسپیشل بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہے وہ ان بچوں کے ساتھ وقت گذارتے ہیں ۔
علی ظفر اپنی پروڈکشن میں بننے والی پہلی پاکستانی فلم ’’طیفا اِن ٹربل‘‘ کے حوالے سے بھی خاصی شہرت حاصل کررہے ہیں۔ فلم کی ہدایات احسن رحیم نے دی ہیں۔ علی ظفر نے ہی اسے پروڈیوس کیا ،خود اس کے ڈائیلاگ اور اسکرین پلے بھی لکھے ہیں۔ مایا علی کے مقابل وہ خود اس فلم میں ٹائٹل رول بھی ادا کررہے ہیں جبکہ دیگر کاسٹ میں جاوید شیخ، محمود اسلم، نیئر اعجاز، صوفیہ خان، فیصل قریشی اور سیمی راحیل وغیرہ بھی شامل ہیں۔ یہ فلم ڈیڑھ ملین امریکی ڈالر یعنی 18 کروڑ روپے کے بجٹ سے تیار ہوئی ہے۔ مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ اور ’’جیوفلمز‘‘ کے بینر تلے ریلیز ہونے والی اس فلم کی پروموشن میں علی ظفر مختلف ٹی وی چینلز پر فلم کی کاسٹ کے ساتھ اکثر دکھائی دے رہے ہیں۔ اسی حوالے سے اُنہوں نےجنگ میڈویک میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران نجی و فنی زندگی سے جڑے کئی دلچسپ سوالات کے جواب دیئے جو نذرِقارئین ہیں۔
٭… آپ نے اپنی فلم کا نام ’’طیفا اِن ٹربل‘‘ کیوں رکھا اوراسےبنانے کا خیال کیسے آیا؟
علی ظفر … یہ نام اس لئے رکھا کہ جب یہ فلم بڑے پردے پر دیکھی جائے گی تو اس میںسامعین کو کرداروں کے مختلف رنگ نظر آئیں گے۔ کئی سینئر آرٹسٹ بھی اس فلم میں جلوے دکھارہے ہیں اور اُن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے کرداروں پر اچھی گرفت رکھتے ہیں۔ ہنسی مذاق، ایکشن ، رومانس، کامیڈی سب ہی کچھ ہم نے اس فلم میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔ طیفا اِن ٹربل میں سب کچھ کور ہوگیا۔ لوگ فلم کو دیکھ کر سنیما گھروں سے باہر نکل رہے ہیں تو اپنے تمام غم بھول گئے ہیں اور اپنے تمام دوستوں سے کہہ رہے ہیںکہ یہ فلم ایک بار اور دیکھیںگے ۔ اب رہا سوال کہ میں یہ فلم کیوں بنانا چاہتا تھا ؟۔ دراصل میری خواہش تھی کہ ایک ایسی پاکستانی فلم بنائوں ،جسے پوری دُنیا اُسے دیکھے اور پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند ہوجائیں۔ سب اُس فلم کو بڑے پردے پر دیکھ کر جھوم اُٹھیں اور حیرت زدہ ہوکر کہیں کہ،یہ ہے پاکستانی فلم ، پاکستان بھی اتنی شاندار فلمیں بنا سکتا ہے؟۔
٭… جب آپ کی فلم پوری دُنیا میں ریلیز ہوئی اس وقت آپ کے کیا جذبات تھے؟
علی ظفر … وہ جذبات میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ ہر انسان کا ایک بڑا خواب ہوتا ہے اور جب وہ خواب پورا ہونے لگتا ہے تو آپ اُس کی خوشی کو بیان نہیں کر پاتے۔ مجھے اس سے بھی زیادہ یہ اچھا لگا کہ بہت خوبصورتی سے لوگوں نے میری فلم کے حوالے سے ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ ہماری فلم کے ٹیزر، ٹریلر، پوسٹرز اور گانوں پر جب عوام ردِعمل دیتے تو خوشی سے میرا ڈھیروخون بڑھ جاتا تھا۔ میں نے بہت دِل لگا کر اس فلم کو بنایا ہے ، زندگی بھر کام کرنے کا جو بھی تجربہ تھا، وہ میں نے اس پر خرچ کردیاہے، تاکہ میں پاکستان کیلئے ایسی فلم بنا سکوں جو بین الاقوامی سطح پر ہمارا سر فخر سے بلند کردے۔ آپ ہماری کامیابی کا اندازہ اِس فلم کے گیتوں سے لگا سکتے ہیں جو کئی عرصے تک ٹاپ ٹرینڈمیں رہے اور آج مجھے بے حد خوشی ہے کہ یہ پاکستان کی کامیاب ترین فلم بن گئی ہے۔ میرے پرستاروں نے جتنا پیار اور محبت مجھے دی ہے میں اُن کا شکریہ لفظوں سے ادا نہیں کر پارہا۔ میں سب ہی کا مشکور ہوں جنہوں نے مجھے اعتماد دیا، مجھ پر اور میرے کام پر اعتماد کیا اور یقین کریں میں اپنے چاہنے والوں کا بھروسہ کبھی نہیں توڑوں گا۔
٭… کیا طیفا اِن ٹربل نے پاکستان کی فلم انڈسٹری کو ایک بار پھر فعال کردیا ہے؟
علی ظفر … بات یہ ہے کہ بھارت کی فلم انڈسٹری ایک دَم اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہوئی، کئی اونچ نیچ پار کرنے کے بعد وہ اس مقام تک پہنچے ہیں۔ ہم نے بھی اچھی فلمیں بنانے کا آغاز کردیا ہے، اب ہم نے ایک درست سمت اختیار کرلی ہے لہٰذا اُمید ہے کہ ہماری فلم انڈسٹری بھی اپنے پائوں پر جلد کھڑی ہوجائے گی۔
٭… کیا مایا علی کا انتخاب کرنے کی خاص وجہ تھی؟
علی ظفر … دراصل احسن رحیم نے آڈیشنز لئے تھے، وہ نام نہیں کردار دیکھ رہے تھے کہ فلم کی ہیروئن کا کردار کون سب سے بہترین انداز میں ادا کرسکتا ہے۔ اس لئے مایا کا انتخاب ہوگیا اور مجھے خوشی ہے کہ ہماری کیمسٹری بہترین رہی ۔ نا صرف مایا نے اس فلم کیلئے انتھک محنت کی ہے بلکہ میں نے بھی صرف ایکشن دکھانے کیلئے کئی ماہ تک باقاعدہ ٹریننگ لی اس کے علاوہ کچھ کوریو گرافرز بھی باہر سے بلوائے گئے تھے۔
٭… آپ نے اپنی فلم کو کسی تہوار پر ریلیز کیوں نہیں کیا؟
علی ظفر … ہمارا بھی یہی پلان تھا کہ ہم اپنی فلم کو عید پر ریلیز کریں، میرے خیال سے سب یہی اُمید کرتے ہیں کہ چھٹی والے دِن بڑی تعداد میں لوگ فلم دیکھنے آئیں، ہماری فلم بڑے پردے پر ریلیز ہو اور سب انجوائے کریں۔ لیکن ایک دِن اچانک یہ بات ذہن میں آئی کہ ہمیں کسی بھی دوسری پاکستانی فلم کو ڈیمیج نہیں کرنا چاہئے، ہم نہیں چاہتے تھے کہ اپنی ہی فلمی صنعت سے بلا وجہ کا کمپٹیشن کریں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر فلم کی اپنی تقدیر ہوتی ہے۔ ہم پہلی بار فلم بنا کر سامنے لارہے تھے ،لہٰذا ہم نے یہ بھی روایت قائم کرنی تھی کہ اگر فلم اچھی ہو تو وہ کسی بھی دِن کامیاب ہوسکتی ہے۔ اس انوکھی روایت کو قائم کرنے کیلئے ہم نے اتنا بڑا رسک لیا تھا۔ بات یہ ہے کہ مستقبل میں اگر پاکستان کی فلم انڈسٹری 40-50 فلمیں ریلیز کرے گی تو سال بھر میںعیدیں تو 40-50 نہیں ہوتیں ،لہٰذا ہماری خواہش تھی کہ جس دِن طیفا اِن ٹربل ریلیز ہو اُسی دِن سب کی عید ہو جائے اور سب حیران ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ جس دِن یہ فلم ریلیز ہوئی اس نے ریکارڈ پر ریکارڈ قائم کردیئے۔
٭… پاکستان سمیت 25 ممالک میں ریلیز کرنے کی کوئی خاص وجہ ؟
علی ظفر … ہاں! اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ جب یہ فلم 25 ممالک میں لگے گی تو مزید 25 ممالک کے دروازے ہماری فلمی صنعت کیلئے کھل جائیں گے۔ مجھے فخر ہے کہ یہ پہلی پاکستانی فلم ہے جو 25 ممالک میں مختلف زبانوں میں ریلیز کی گئی۔ ان میں سے 14-15 ممالک ایسے ہیں جہاں کبھی بھی پاکستانی فلم ریلیز نہیں ہوئی۔ یہ کراچی، لاہور، اسلام آباد کی جیت نہیں ہے، یہ پورے پاکستان کی جیت ہے، ہمارا کام کوشش کرنا تھا ، ہم نے بھر پور کوشش کی ، کامیابیاں اوپر والا دیتا ہے اور اس نے بہت کامیابیاں دی ہیں۔
٭… مستقبل میں ہدایتکاری کریں گے؟
علی ظفر … مجھے ہدایتکاری پسند ہے لیکن فی الحال تو میں گلوکاری اور اداکاری میں ہی خوش ہوں۔ بات یہ ہے کہ ہدایتکاری بہت بڑی ذمہ داری والا کام ہے اور اس کا فیصلہ مستقبل میں کروں گا۔
٭… اپنے اور گھر کے حوالے سے کچھ بتائیں؟
علی ظفر… میری عادت ہے کہ مجھے لکھنا اچھا لگتا ہے کیونکہ اس وقت کوئی بدحواسی نہیںہوتی۔ میں اپنے خیالات کاغذ پر لکھتا ہوں۔ یہ سب کرنے سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اگر مجھے کوئی خواہش ہے یا اگر میںکوئی اُس سے التجا کرنا چاہتا ہوں تو ڈائری میں لکھتا ہوں۔جس طرح ہم لوگ دعا مانگتے ہیں، مجھے ایسے کرنااچھا لگتا ہے کہ اگر میری کوئی خواہش ہے تو میں لکھ کر بھی اس کا اظہار کروں۔جس طرح سے اللہ عطا کرتا ہے، وہ ایک اور ہی طریقہ ہے، ایک اور ہی چیز ہے، اس کو بیان کرنا مشکل ہے۔
٭… سناہےآپ شعروشاعری بھی کرتے ہیں؟
علی ظفر:غالب کہتے ہیںکہ ؎
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
٭… گیت کس کیفیت میں لکھتے ہیں؟
علی ظفر… گانوں کا پروسیس کچھ اور ہوتا ہے۔ جیسے ’’جھوم‘‘ ایک گانا ہے، میں نے تجھے دیکھا ہنستے ہوئے گالوں میں، جتنی تو ملتی جائے، اُتنی لگے تھوڑی تھوڑی، وہ بھی ایک خاص طریقہ کار اور خاص ذریعے سے آیا۔ لیکن دوسری طرف ایک راک اسٹار جیسا گانا کہ ’’کالی کالی راتوں میں کالا چشمہ پہن کے آتا ہوں، ہر پارٹی کی جان بن جاتا ہوں، میں نہیں سنتا اپنے باپ کی، نہ کوئی ٹی شرٹ میرے ناپ کی، یہ باڈی، یہ ڈولے، ہولے ہولے، تو گوگلز کرلے یار، آئی ایم آ ،راک اسٹار‘‘یہ گانا بھی کوک اسٹوڈیو میں فائنل کرنا تھا، لیرکس اس کے فائنل نہیں ہورہے تھے۔ میرے پاس بڑا کم ٹائم تھا تو جلدی جلدی میں نے ناشتہ کیا اور پھر دماغ میں لیرکس آئے۔ تو کبھی کبھی بڑی مزے سے چیزیں آجاتی ہیں۔
٭… کئی برس سے آپ ایسےہی نظرآ تے ہیں، نوجوان نوجوان سےکوئی خاص قسم کی خوراک استعمال کرتے ہیں ؟
علی ظفر… ایک تو جینیاتی طور پر ماں باپ کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ لیکن میری ایک روٹین، ایک ڈسپلن ہے۔ میں صبح اُٹھ کر سب سے پہلے گرین ٹی میں تھوڑی ہلدی اور نیوزی لینڈ کا ایک خاص شہد ڈال کر وہ چائے ضرور پیتا ہوں۔ مجھے کسی اورکا تو نہیں معلوم لیکن میںشہد ضرور کھاتا ہوں۔ دوسری چیز یہ کہ Meditation سے اپنا دن شروع کرتا ہوں۔ ورزش کرنے کے بعد یوگا کے کچھ آسن کرلیتا ہوں۔
٭… کیا آپ کے اندر روحانی عنصر بھی ہے؟
علی ظفر… روحانیت کا شروع سے ایک عنصر تھا اور ایک جستجو تھی اس طرف۔
٭… آپ بیک وقت پینٹر،ایکٹر ،گلوکار، فلم ساز اور خطاط بھی ہیں ؟ اتنے سارے کام ایک ساتھ ؟؟
علی ظفر… مجھے اپنی ایک چیز پر بہت فخر ہے کہ میں نے زندگی میں بہت محنت کی ہے۔ میرے خیال میں محنت کا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ ریکارڈنگ کیلئے جدید آڈیو اسٹوڈیو ، ہوم تھیٹر اور خطاطی کا سامان میرے ساس، سسر نے تحفہ میں دیا ہے کیونکہ مجھے خطاطی کا شوق ہے ، اس میں مختلف طرح کے قلم موجود ہیں۔خطاطی خود ڈیولپ کی ہے۔
٭… اپنا کون سا کام بہت شوق سے کرتےہیں پسند ہے ؟
علی ظفر… یہ میرے بس میں نہیں ہے کہ میں خود سے یہ فیصلہ لے لوں کہ کس چیز پر توجہ مرکوز کرنی ہے۔ اگر گانے کی دُھن کی آمد ہوتی ہے تو میں اس کو روک نہیں سکتا۔ اگر شاعری کا موڈ ہے تو اس کو روک نہیں سکتا۔اگر ایکٹنگ کا دل کررہا ہے تو مجھ سے رُکا نہیں جاتا۔ اب جس طرح میں نے فلم بنائی ہے ’’طیفا اِن ٹربل‘‘یہ میرا ایک خواب تھا کہ ایک ایسی فلم بنائی جا ئے پاکستان میں،جو بین الاقوامی سطح کی ہو اور ہمیں عالمی سطح پر نمائندگی ملے۔
٭… پاکستان اور بھارت کا کیسے موازنہ کرتے ہیں؟
علی ظفر… بھارتیوں نے اپنی ایک انڈسٹری تیار کی ہے اس پر کافی عرصہ لگایا ہے ، وہ ایک پروسیس سے گزرے ہیں، پھر جاکر اُن کی ایک انڈسٹری ڈیولپ ہوئی ہے، وہ اب لاکھوں لوگوں کو روزگار دیتی ہے۔ اس انڈسٹری کی ایک معیشت ہے۔ ہمارے یہاں بدقسمتی سے وہ انڈسٹری بن نہیں سکی اور فنکاروں کو وہ مقام اور عزت، جس کے وہ حقدار ہیں، اس طرح سے شاید نہیں مل پایا لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ آگہی بڑھ رہی ہے،اگر آپ صرف عزت کمائیں تو پیسہ خود بہ خود بن جاتا ہے۔
٭… بھارت بڑے اداکار، گلوکار، اداکارائیں، آپ کو اپنا دوست کہتے ہیں ایسا ہی ہے ؟
علی ظفر… میں نےایک ہی زبان بولی آج تک، وہ زبان ہے پیار کی،، سلمان خان نے جب مجھے اپنے فارم ہائوس پر مدعو کیا ، پوری رات ہم گفتگو کررہے۔انہوں نے اپنی زندگی کی بہت سے ذاتی چیزیں مجھے بتائیں، میں نے بھی ڈسکس کیں۔ اسی طرح شاہ رخ ہیں، ان سے ایک اور طرح کا تعلق ہے۔ لیکن روزانہ کی بنیاد پر اس طرح نہیں ہوتا، کیونکہ ہر کوئی اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہوتا ہے،فلم ’’سلطان‘‘کے ڈائریکٹر علی عباس ظفر ہیں وہ بہت اچھے دوست ہیں۔ ادیتی رائو حیدری ، شاد علی، پریانکا چوپڑا ہیں، جب ’’طیفا اِن ٹربل‘‘ کا ٹیزر آیا تھا تو خاص طور پر پریانکا نے اسکے بارے میں ٹویٹ کیا تھا کہ ’’طیفا آنہیں رہا، طیفا آگیا ہے‘‘ تو مجھے بڑا مزے کا لگا۔ ان کا پیار ہے، محبت ہے کہ وہ سپورٹ کرتے ہیں اور شاید مجھ میں کوئی اچھی چیز اُن کو نظر آئی ہو۔
٭…آپ نے تو کترینا کیف کے دوپٹے کو بھی سنبھالا دیا تھا
علی ظفر: دوپٹے میں سنبھالتا رہتا ہوں۔ دوپٹے سنبھالتے سنبھالتے الزام بھی تو لگ جاتا ہے۔ لیکن کیا کہیں،دُنیا کے کئی رُخ ہیں، کئی پہلو ہیں۔
٭… آپ کا پسندیدہ گلوکار کون کون ہیں؟
علی ظفر… بڑے غلام علی خان صاحب، مہدی حسن صاحب خان صاحب، کشور کمار، محمد رفیع، لتا جی، آشا جی مجھے بہت پسند ہیں۔ ویسے فرینک سناترا، ایلوس پریسلے بھی مجھے بہت پسند ہیں۔ سوچتا ہوں کہ ایشیا میں تو چھا گئے، دُنیا میں بھی چھائیں، ہالی و وڈ بھی جائوں وہاں بھی اپنا نام کمائوں، کیونکہ خواب ہمیشہ بڑے ہی دیکھنے چاہئیں۔سوال یہ بھی ہوگا کہ خواب کیسے پورے کریںگے، بس آپ دیکھتے جائیں،کچھ نہ کچھ کام تو ہو ہی رہا ہے۔
٭… کونسی شخصیت بہت پرکشش لگتی ہے؟
علی ظفر… میںنے اپنی بیگم سے کہا کہ شارلی تھیرون مجھے بڑی پسند ہے،اگر میں ان سے ملا تو مجھے ایک وقت کا کھانا اس کے ساتھ اکیلے کھانے دینا۔ اس نے کہا کہ ہاں، اس کے ساتھ اجازت ہے۔ بچپن میں مجھے سلمیٰ ہائیک بڑی پسند تھیں لیکن ان سے ملاقات ہوگئی۔ وہ تھوڑی سی میری فین لگ رہی تھیں ملنے کے بعد، لیکن یہ میری غلط فہمی ہے۔
٭… آپ کے خیال میں خوب صورتی کا معیار کیا ہے؟
علی ظفر…یہ دل یہ تو ہے۔جو چیز دل میں ہوتی ہے، وہ چہرے پر آجاتی ہے۔ چہرہ پرکشش ہونا یا اچھا ہونا خدا کی نعمت ہے۔
٭… کوئی کیردارکرنے کی خواہش ؟
علی ظفر… ایک فلم میں ہیتھ لیجر نے ’’جوکر‘‘ کا رول پلے کیا تھا، اس طرح کاکردار کرنا چاہتاہوں،اس کے علاوہ وہ کردار جو مجھ سے میچ نہ کرے اور میر ی شخصیت سے بھی بہت مختلف ہو، وہ کرکے میں بہت انجوائے کروں گا۔
٭… کیاآپ کی شخصیت میں کوئی تضادہے؟؟
علی ظفر…عادتاً سنجیدہ اور گہری سوچ کا مالک ہوں ،میرے دماغ میں صرف یہ چل رہا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے لیےجوکرنے والا ہوں، وہ میںکرپائوںگا۔ اگر مجھے کسی کو انٹرٹین کرنے کے لیے ایک دَم سے ایک مختلف کردار میں آجانا ہے اور مزاحیہ ہوجانا ہے تو وہ میںکرلوں گا۔ میں جب کوئی سین کرتا ہوں تو اس وقت اس کردار کو اپنے اوپر طاری کرلیتا ہوں، اس کو محسوس کرکے کرتا ہوں۔
٭…کونسی کتابیں پڑھتے ہیں؟
علی ظفر… میں یہ نہیں دیکھتا کہ مجھے دُنیا کے امیر ترین آدمی کی کتاب پڑھنا ہے کہ اس نے پیسہ کیسے کمایا، میں دیکھتا ہوں کہ یہ انسان عظیم کیسے بنا۔ نیلسن منڈیلا کیسے بنا۔
٭… کیا دولت کمانا پسند ہے ؟
میرا گانا ہے کوک اسٹوڈیو میں ’’جولی‘‘اس میں کہا جارہا ہے کہ دولت کمانا، عزت کمانا، ایک دن دُنیا سے سب کو ہے جانا، پیار ہی مہان ہے، باقی سب سامان ہے، آنے والی نسلوں کو میرا یہ پیغام ہے، کہ پیسہ، جوانی، نہیں رہتے جانی، ان کا بھروسہ نہیں ہے، رشتے اور ناتے، اور پیار والی باتیں، ان میں ہی ہے زندگی۔ اپنے گانوں اور آرٹ کے ذریعے، یہاں تک کہ میری فلم ’’طیفا اِن ٹربل‘‘کے پیچھے بھی جو میسج ہے، فلم دیکھ کر جو لوگ اسے محسوس کریں گے کہ پیسہ کمانا مشکل نہیں ہے، عزت کمانا مشکل ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ پیسہ کمانا برا ہے، میںکہتا ہوں کہ سب کو کمانا چاہیے۔
علی ظفر: میں نے ایک نظم لکھی تھی آج کل کے دَور کے حساب سے وہ یہ تھی کہ
چلو آئو دیکھیں کب تک چلے گا یہ سب
کچھ نہ رہے گا باقی ہم جاگ اُٹھیں گے تب
سنائیں گے پھر یہ داستاںپر سننے والا نہ کوئی
گہری نیند میں مدہوش اور خواب بننے والا نہ کوئی
پھر دیں گے سدا تک سدائیں
مانگیں گے گڑگڑا کے دُعائیں
کہ جگا دے ہمیں اُس خوابِ غفلت سے
کہ جہاں کچھ تو غلط ہورہا ہے