• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف نے ملک کے چاروں صوبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ 1971ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ایک سیاسی جماعت کو پاکستان کے چاروں صوبوں میں ایسی کامیابی ملی ہو۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان، سیاسی رہنمائوں اور کارکنان کو اس کامیابی کو منزل نہیں بلکہ سفر کے ایک نئے دور کا نقطۂ آغاز سمجھنا چاہیے۔ پاکستان کے عوام نے سیاست پر حاوی بڑے بڑے سیاست دانوں کو مسترد کرکے کئی اہم پیغامات دیے ہیں۔ انتخابی نتائج سے یہ واضح ہورہا ہے کہ سیاست کو دولت کے حصول کا ذریعہ بنانے والوں کیلئے ووٹرز کے خیالات مثبت طور پر تبدیل ہورہے ہیں۔ جرائم اور سیاست کے گٹھ جوڑ کے منفی اثرات ووٹرز پر واضح ہو رہے ہیں۔ ووٹنگ پر لسانی، نسلی یا مسلکی وابستگیوں کے اثرات کم ہو رہے ہیں۔ انتخابی نتائج سے یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ شہری علاقوں میں رہائش پذیر تعلیم یافتہ مڈل کلاس اور دیہی علاقوں کے کم تعلیم یافتہ یا ناخواندہ اور غریب ووٹرز کی آرا میں فرق کافی کم ہوا ہے۔ اس مشاہدے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کا سماج جاگیردارانہ تسلط اور وڈیرانہ ذہنیت سے چھٹکارا پا کر اپنے فیصلے خود کرنے کی طرف بہت زیادہ آگے بڑھا ہے۔ انتخابات میں بڑے قبیلوں کے کئی بااثر سرداروں اور انکے حمایت یافتہ افراد کی شکست پاکستانی سماج میں ایک نئی فکر کی قبولیت اور ملکی ترقی کے لیے عوامی دلچسپی کے اشارے ہیں۔ 70ء اور 80ء کی دہائیوں میں پاکستان میں دو بڑے ووٹ بینک تھے، دونوں کا حوالہ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت تھی، یعنی ایک بھٹو ووٹ اور دوسرا بھٹو مخالف ووٹ۔ 77ء کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت پاکستان پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے نو غیر مذہبی (چاہیں تو انہیں سیکولر کہہ لیں) اور مذہبی جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد(PNA) اور 1988ء میں بینظیر بھٹو کی زیرِقیادت پاکستان پیپلز پارٹی کے سامنے غیر مذہبی اور مذہبی جماعتوں کے اسلامی جمہوری اتحاد (IJI) کے مقاصد میں سرفہرست بھٹو مخالف ووٹ کو ایک جگہ لانا تھا۔ 90ء اور 2000ء کی دہائی میں پاکستان میں بھٹو ووٹ بے اثر ہوتا گیا۔ اب ملک میں نواز ووٹ اور نواز مخالف ووٹ بینک سامنے آیا۔ 2016ء تک پاکستان میں نواز ووٹ برقرار تھا۔ پانامہ اسکینڈل کے افشا اور انکے بعد نوازشریف اور انکے بچوں کی جانب سے بار بار بدلتے موقف نے پاکستان میں نواز ووٹ کو بہت بڑا دھچکا پہنچایا۔


2018ء کے انتخابی نتائج پاکستان میں ایک نئے ووٹ بنک یعنی عمران خان ووٹ کا نقطہ آغاز بھی ہیں۔ عمران خان ووٹ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کے اثرات دیہی اور شہری علاقوں میں تقریباً ایک جیسے ہیں۔ اس ووٹ بنک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ، درمیانے، کم تعلیم یافتہ اور ناخواندہ سب ہی شامل ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک جاگیردارانہ پس منظر رکھنے کے باوجود غریبوںکے حامی اور اشرافیہ کے مخالف بن کر سامنے آئے۔ نواز شریف نے سیاسی سفر کی ابتدا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھی اور اشرافیہ کے حامی کی حیثیت سے کی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو دونوں کو مذہبی طبقات کی مخالفتوں کا سامنا رہا۔ نواز شریف کو ملک کے مذہبی طبقات کی حمایت زیادہ حاصل رہی۔ 2013ء کے بعد انہوں نے اپنا لبرل امیج بنانے پر زیادہ توجہ دی لیکن اس کوشش میں انہیں مذہبی افراد کی بڑی تعداد کی حمایت سے محروم ہونا پڑا۔ بھٹواور نواز شریف کے برعکس عمران خان کو ایسی صورتحال کا سامنا نہیں ہے۔ انہیں اشرافیہ، مڈل کلاس اور غریب سب طبقات سے حمایت ملی ہے۔ مذہبی اور لبرل دونوں طبقات سے انہیں ووٹ ملے ہیں۔ معاشرے کے تقریباً سب طبقات سے ملنے والی اس حمایت کو ملک کے استحکام، قوم کی خوشحالی اور سماجی بہتری کیلئے استعمال ہونا چاہیے۔


پاکستان کو کرپشن اور بدحال معیشت کا سامنا ہے۔ عمران حکومت کئی خرابیوں کو محض چند انتظامی اقدامات سے ہی ٹھیک کرسکتی ہے۔ عوام سے قربانیاں مانگنے سے پہلے اصلاح کا عمل اپنی ذات، اپنی جماعت اور عوام کے منتخب ایوانوں سے کرنیکی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے میری ایک تجویز یہ ہے کہ نومنتخب اسمبلی میں سب سے پہلے بل کے ذریعے فنانس بل 2018ء میں ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں راتوں رات کیا جانیوالا اضافہ واپس لیا جائے۔


کراچی میں ’’ دی پارٹی از اوور‘‘


صحافت اور ادب دو الگ الگ شعبے ہیں۔ صحافت کا محور خبر ہے۔ اس محور میں خبر سے متعلق نقطہ نظر کو بھی کچھ جگہ فراہم کی گئی ہے۔ اس طرح صحافت کا گلوب زیادہ تر نیوز اور کچھ حد تک ویوز کے گرد گھومتا ہے۔ میدان صحافت میں رفتار میں تیزی درکار ہے۔ ایک صحافی کو واقعہ یاحالات کی خبر بعجلت تحریر کرنی ہوتی ہے۔ حالات کے تناظر میں صحافی جو کچھ سوچ رہا ہے اُسے کالم یا مضمون کے لیے جلد ہی ضبط تحریر میں لاتا ہے۔


ادب کے تقاضے الگ ہیں۔ ادب ایک تخلیقی عمل ہے۔ ادب میں خبرکی اہمیت نہیں ہے۔ صحافت میں تخلیقی روش تو ہوسکتی ہے لیکن صحافت خود ایک تحقیقی عمل نہیں ہے۔ خبر یا کالم لکھتے ہوئے سادہ الفاظ عام سے انداز میں لکھے جاسکتے ہیں یا تحریر میں ہلکا سا ادبی رنگ شامل کیا جاسکتا ہے لیکن خواہش کبھی خبر نہیں ہوسکتی۔ ادبی اسلوب ہو یا عام انداز بیاں خواہش کو خبربنادینا صحافت کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ ادب میں کسی ایک یا چند واقعات کے پس پردہ اسباب کو سمجھنے، فرد اور سماج کے گہرے مشاہدے کی صلاحیت، جذبات و احساسات کی تفہیم اور قارئین کے فہم کے مطابق بہتر انداز بیان کی اہمیت ہے۔


شعبۂ صحافت میں ادبی طرز بیان کی آمیزش اظہار کو فزوں تر کردیتی ہے۔ یہ خوبی ہمارے دور کے معدودے چند صحافیوں ہی میں پائی جاتی ہے۔ سینئر صحافی، تجزیہ کار، کالم نگار محترم سہیل وڑائچ ان میں سے ایک ہیں۔ وڑائچ صاحب کی تحریروں میں ادبی شگفتگی اور چاشنی قاری کو واقعات اور حالات سے باخبر رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے ادبی ذوق کی سیرابی بھی کرتی ہے۔ ان کی تحریر کا ایک طرۂ امتیاز تمثیلی کالم نگاری ہے۔ یہ خوبی ابھی تک ان سے ہی مخصوص ہے۔ اس طرز کی کالم نگاری کے ذریعے انہوں نے اپنی بات کہنے کا ایک نیا ڈھنگ وضع کیا ہے۔ ادبی انداز بیاں لیے ہوئے تمثیلی کالم نگاری نے اردو قارئین میں تحریر سے دلچسپی پیدا کردی ہے۔ اس طرز کی تحریریں ذوق مطالعہ کو مہمیزکرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سہیل وڑائچ صحافت کے میدان میں فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی خدمت میں بھی پیش پیش ہیں۔ سہیل وڑائچ کے کالموں کا مجموعہ ’’دی پارٹی از اوور‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔


کراچی آرٹس کونسل نے شہر کی ادبی، فنّی، صحافتی، سماجی سرگرمیوں کے ایک اہم مرکز کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ اسے یہ مقام دلانے میں دیوانہ وار جدوجہد کرنے والے احمد شاہ، پروفیسر اعجاز فاروقی اور دیگر ساتھیوں کی شبانہ روز کاوشیں شامل ہیں۔ سہیل وڑائچ کی کتاب کی تقریب رونمائی کراچی آرٹس کونسل میں ہوئی۔ کتاب اور صاحب کتاب پر تین نسلوں کے استاد، محترم و معتبر شکیل عادل زادہ، شعبہ صحافت سے دیرینہ وابستگی رکھنے والے اور قافلۂ ادب کے ایک اہم رکن استادِ گرامی محمود شام، سینئر صحافی امتیاز عالم، مظہر عباس، ڈاکٹر ایوب شیخ، فاضل جمیلی اور احمد شاہ نے اپنے اپنے انداز میں خوب گفتگو کی۔

تازہ ترین