احتشام طور
خیبر پختونخوا کی تاریخ میں پہلی بار سوات سے صوبے کے وزیر اعلیٰ آ رہے ہیں۔قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ملاکنڈ ڈویژن کے سات اضلاع سے کوئی وزیراعلیٰ نہیں لیاگیا۔ منتخب وزراء اعلیٰ کے علاوہ مختصر مدت کیلئے نگران کے طور پر آنیوالے وزراء اعلیٰ کی اکثریت کا تعلق بھی دیگر اضلاع سے تھا جن میں فضل حق، مفتی محمد عباس، راجہ سکندر زمان، شمس الملک، جسٹس (ر)طارق پرویز اور جسٹس(ر) دوست محمد خان شامل ہیں۔خان عبدالقیوم خان قیام پاکستان کے بعد صوبے کے پہلے وزیراعلیٰ تھے جو 1953ءتک اس عہدے پر فائز رہے۔ سردار عبدالرشید دو سال اور سردار بہادر چند ماہ وزیراعلیٰ رہے۔ 1955ءسے1972ءتک یہ صوبہ براہ راست آمریت کے تسلط میں رہا۔ 1972ءمیں مولانا مفتی محمود وزیراعلیٰ بنے مگر وہ صرف ایک سال اس عہدے پر فائز رہے۔ جب ان کی حکومت ختم ہوئی تو عنایت اللہ گنڈاپور وزیراعلیٰ بنے۔ وہ دو سال تک اقتدار میں رہے۔ پھر نصراللہ خٹک نے بقیہ دو سال گزارے۔ 1977ءکے انتخابات میں اقبال جدون وزیراعلیٰ بنے مگر ان کا دور اقتدار بھی چند ماہ ہی رہا۔ پشاور کے ارباب جہانگیر 1985ء سے 1988ء تک غیر سیاسی انتخابات کے بعد تین سال صوبے کے وزیراعلیٰ رہے۔ آفتاب شیر پائو دو مرتبہ مجموعی طور پر پانچ سال اس عہدے پررہے۔ میر افضل خان تین سال، صابر شاہ ایک سال، سردار مہتاب دو سال اقتدار میں رہے۔ خان قیوم کے بعد پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرنیوالے متحدہ مجلس عمل کے اکرم خان درانی دوسرے وزیراعلیٰ تھے۔
مردان کے امیرحیدر ہوتی اور نوشہرہ کے پرویز خٹک کو بھی اپنی پانچ سال کی مدت پوری کرنے کا موقع ملا لیکن اس بار وزارت اعلیٰ کے حوالے سے تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق کی طرف سے میڈیا پر عاطف خان کا نام آنے کے بعد مردان کے لوگوں نے خوب خوشیاں منائیں اور اس فیصلے پر جشن بھی منایا لیکن مردان والوں کو تیسری مرتبہ وزارت اعلیٰ نہ مل سکی اور اخبارات میں ان تمام صورتحال کا ملبہ پرویز خٹک پر ڈالا گیا کہ پرویز خٹک کی سازش کی بدولت مردان وزارت اعلیٰ سے محروم رہ گیا ‘عاطف خان عمران خان کے قریبی اور دیرینہ ساتھیوں میں سے ہیں اور جب سے پارٹی بنی ہے ‘ عاطف خان پارٹی اور عمران خان سے وفاداری نبھا تے آرہے ہیں لیکن تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق وزارت اعلیٰ کیلئے محمد عاطف خان کا نام نہ لیتے تو عاطف خان کی ناراضگی نہ ہوتی محمود خان جو کہ ایک شریف النفس انسان اور ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور انہوں نے اپنے دور وزارت میں کھیل ‘ثقافت اور آثاقدیمہ کے محکموں کو کافی بہتر انداز میں چلایا اور عمران خان نے عاطف خان کی ناراضگی ختم کرکے بروقت ایک صحیح قدم اٹھایا تحریک انصاف پر خیبر پختونخوا کے عوام نے جس اعتماد کا اظہا رکیا اب محمود خان اور ان کی پوری ٹیم کو چاہیے کہ وہ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کیلئے دن رات کام کریں ‘نامزد وزیر اعلیٰ محمود خان نے واضح طورپر کہا ہے کہ وہ کسی کا بندہ نہیں‘ وہ صرف تحریک انصاف کا بندہ ہے اور پارٹی میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ‘سب کو ساتھ لیکر چلوں گا اور تمام امور باہمی مشاورت سے طے کئے جائیں گے۔
پشاورنہ صرف پورے صوبہ خیبر پختونخوا بلکہ قبائلی علاقوں کا بھی صوبائی دارالخلافہ ہے۔ یہ بہت غریب پرور شہر ہے۔ صوبہ بھر سے لوگ تعلیم کے حصول، علاج معالجے، کاروبار ، تربیت، روزگار اور انصاف کی تلاش میں بھی پشاور آتے ہیں۔باہر سے پشاور آنیوالے لوگ جو تاثر لے کر واپس جاتے ہیں وہ پورے صوبے کے حوالے سے ہوتا ہے۔گویا پشاور کے بغیر صوبے کے دیگر اضلاع کا وجود ہی نامکمل ہےلیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ قیام پاکستان سے اب تک 71سال میں صرف آٹھ سال تک صوبے کا اقتدار پشاور کے پاس رہا۔گزشتہ 30سال سے پشاور سے کوئی وزیراعلیٰ منتخب نہیں ہوا جو اس شہر ناپرسان کی پسماندگی کی بنیادی وجہ ہے۔جن جن پارٹیوں کو اقتدار ملا۔وہ پشاور کو ترقی دینے اور یہاں کے مسائل حل کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہیں۔ پشاور کے خان عبدالقیوم خان اور ارباب جہانگیر جب وزیراعلیٰ تھے اس وقت کسی سیاسی جماعت کی حکومت نہیں تھی جسے عرف عام میں منتخب جمہوری حکومت کہا جاتا ہے۔ صوبے کی وزارت اعلیٰ سب سے زیادہ چار مرتبہ جنوبی اضلاع کے پاس رہی۔ ڈیرہ اور بنوں سے سردار عبدالرشید، مولانا مفتی محمود، سردار عنایت اللہ خان گنڈا پور اور اکرم خان درانی صوبے کے انتظامی سربراہ رہے۔چارسدہ سے آفتاب احمد خان شیرپاو دو مرتبہ وزیراعلیٰ بنے، میر افضل خان اور امیر حیدر ہوتی کا تعلق مردان سے تھا۔ نصر اللہ خٹک اور پرویز خٹک نے نوشہرہ سے آکر پشاور میں حکمرانی کی جبکہ سرداربہادر خان، سردار مہتاب احمد خان، محمد اقبال خان جدون اور پیر صابر شاہ کی صورت میں چاربار وزارت اعلیٰ ہزارہ کے حصے میں آئی۔
25جولائی کے عام انتخابات کے بعد صوبے کے 17ویں انتظامی سربراہ کا انتخاب 16 جولائی کو ہورہا ہے۔ ماضی پر نظر دوڑائیں تو مسلم لیگ کو پانچ ، پیپلز پارٹی کو پانچ،جے یو آئی ٗ متحدہ مجلس عمل، عوامی نیشنل پارٹی، تحریک انصاف اور اسلامی جمہوری اتحاد کو ایک ایک مرتبہ وزارت اعلیٰ ملی جبکہ ارباب جہانگیر آزاد حیثیت سے انتخاب جیت کر وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے تھےجبکہ 25 جولائی کو ہونیوالے انتخابات میں صوبے کے عوام نے ایک بار پھر تاریخ رقم کرتے ہوئے دوسری مرتبہ مسلسل تحریک انصاف کو وزارت اعلیٰ دیدی‘ تحریک انصاف کی طرف سے صوبے کے سب سے نظر انداز ملاکنڈ ڈویژن کو وزارت اعلیٰ دیکر ایک نئی تاریخ رقم کردی گئی اور یہ کریڈٹ اب صرف تحریک انصا ف کو ہی جائیگا کہ70 سال سے نظر انداز ملاکنڈ ڈویژ ن کو وزارت اعلیٰ دیکر ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کی طرف سے پی ٹی آئی پر بھرپو اعتماد کا صلہ دیدیا اب دیکھنا یہ ہے کہ محمود خان وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے صوبے کے عوام اور پارٹی کے اعتماد پر کتنا پورا اترتے ہیں یہ آنیوالا وقت ہی بتائے گا کیونکہ وزارت ا علیٰ کوئی پھول کی سیج نہیں بلکہ کانٹوںکی سیج ہے اور محمود خان کا اصل امتحان وزیر اعلیٰ کی حیثیت سےحلف اٹھانے کے بعد شروع ہوگا ۔