امتیاز راشد
قائد اعظم محمد علی جناح نے 14اگست 1947 کے دوران ایک الگ خطہ میں پاکستان قائم کرکے مسلمان قوم کے حوالے کردیا تھا۔ قائد اعظم کا پاکستان گزشتہ 70سالوں سے جس طرح آگے کی طرف رواں دواں ہے، ان ستر سالوں میں ہم وہ مقاصد حاصل نہ کرسکے جن کے لئے یہ پاکستان بنایا گیا تھا۔ ان70سالوں میں قوم نے اپنے اس پاکستان میں خوشحالی کی جھلک بھی دیکھی، سسکیاں اور آہیں بھی اس پاکستان کا مقدر رہا،بےروزگاری اور بیماریوں سے تنگ افراد کو یہاں خودکشیاں بھی کرنا پڑیں، قوم نے اس دوران سیاستدانوں کی قلابازیاں اور کرپشن کا کلچر بھی دیکھا اور یوں ان70سالوں میں قائد اعظم کے پاکستان کی یہ خوبصورت تصویر دھندلاتی گئی۔پاکستان کے اندرونی اور بیرونی کیفیت کو دیکھ کر تحریک انصاف کے چیئرمین اور متوقع وزیر اعظم عمران خان کو ایک نیا پاکستان بنانے کا خیال آیا۔
انہوں نے اپنے اس پاکستان کو نیابنانے کا خواب دیکھا اور اپنی سیاسی جدوجہد میں ایک نئے پاکستان کا نعرہ بھی قوم کو دیا۔ نئے پاکستان کے نام پر قوم نے25جولائی کے انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو اکثریت کے ساتھ ووٹ دے کر عمران خان کے لئے وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار کی۔ قومی اسمبلی کے 13اگست کو ہونے والے اجلاس میں عمران خان سمیت تمام ارکان اسمبلی نے رکنیت کا حلف اٹھالیا ہے۔ ابھی وزیر اعظم پاکستان کا چنائو ہونا ہے۔ تحریک پاکستان کی طرف سے عمران خان کو وزیر اعظم کے لئے نامزد کیا گیا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) پاکستان کے صدر میاں شہباز شریف بھی اپنی جماعت کی طرف سے بطور وزیر اعظم کے امیدوار نامزد کئے گئے ہیں، تاہم قومی اسمبلی میں عمران خان کو ارکان اسمبلی کی مطلوبہ اکثریت حاصل ہوچکی ہے۔ اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ 18اگست کو عمران خان ہی اپنے نئے پاکستان کے نئے و زیر اعظم منتخب ہوجائیں گے اور اسی روز سے عمران خان کے نئے پاکستان کا آغاز ہوجائے گا۔ قوم 14اگست کو قائد اعظم کے پاکستان کا جشن آزادی منا چکی ہے۔
اب 18اگست کو نئے پاکستان کا جشن دیکھنا بھی باقی ہے۔ 18اگست کو عمران خان وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد قوم کو پہلی کیا خوشخبری دیتے ہیں اس خوشخبری سے ہی نئے پاکستان کا پتہ چل جائے گا ۔ ان کی حکومت نئے پاکستان کی آڑ میں کیا تبدیلی لائے گی۔ قوم نئی تبدیلی کو دیکھنے کے لئے ابھی سے بےچین نظر آرہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا عمران خان قوم کی امیدوں پر پورا اترتے ہوئے اسے ریلیف دیں گے اگرچہ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
عمران خان نے اگر ایک نئے پاکستان کا خواب دیکھ ہی لیا ہے تو اسے پورا ہونے ہی دیا جائے، خوابوں کی تعبیر بعض اوقات اچھی اور مفید بھی ہوجاتی ہے۔قوم اور اپوزیشن کوئی زیادہ جلد بازی نہ دکھائے ، عمران خان کو کام کرنے کا پورا اور مکمل موقع دیا جائے۔ انہیں یہ کہنا نہ پڑے کہ مجھے موقع نہیں دیا گیا۔ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کا چنائو عمران خان کے لئے ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔عہدہ ایک ہے اور امیدوار اس سے کہیں زیادہ ہیں تاہم معلوم یہ ہوا ہے کہ عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب کا چنائو اپنے ذہن اور دل میں تو کرلیا ہے اب ایسے خوش قسمت امیدوار کا نام منظر عام پر آنا باقی رہ گیاہے۔ پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے اس کے مسائل بھی زیادہ ہیں پنجاب کے لئے ایک مضبوط اور تجربہ کار شخص کی ضرورت ہے جو سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف جیسی صلاحیتوں سے کم صلاحیت کا مالک نہ ہو۔ بہت سی خامیوں کے ساتھ میاں شہباز شریف نے پنجاب کو بہترین طریقے اور سوجھ بوجھ کے ساتھ چلایا۔ لاہور سمیت پنجاب کے بعض علاقوں میں ترقیوں کی تصاویر اور منظر نظر آتے ہیں۔ پنجاب کو بنانے کے لئے میاں شہباز شریف کو دن رات محنت اور کام کرنے پڑے، اگرچہ ان کے بعض منصوبے ابھی ادھورے رہ گئے ہیں لیکن اب جو بھی پنجاب کا وزیر اعلیٰ بن کر آئے وہ پہلے ان منصوبوں کو ضرور مکمل کروائے۔ ان منصوبوں کو یہ سمجھ کر ادھورا نہ چھوڑا جائے کہ یہ میاں شہباز شریف کے منصوبے ہیں۔یہ منصوبے ان کے ذاتی نہیں ہیں، یہ صوبے کی بہتری کے منصوبے ہیں جن کو مکمل کرانا پنجاب کی حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔
ابھی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہونا باقی ہے۔ اسی طرح دیگر صوبوں کی طرح صوبہ پنجاب کی اسمبلی میں بھی یہ عہدے مکمل ہونے باقی ہیں۔ ادھر یہ بھی سنا جارہا ہے کہ مسلم لیگ(ق) کے پرویز الٰہی چودھری کو پنجاب اسمبلی کا سپیکر مقرر کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں پرویز الٰہی نے لابی شروع کردی پرویز الٰہی چودھری ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں وہ پہلے بھی پنجاب اسمبلی سپیکر اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں وہ سیاسی طور پر بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں وہ اپنے تجربے اور ذہانت سے پنجاب اسمبلی کو اس طرح چلائیں گے کہ اپوزیشن بھی یہ کہتی نظر آئے گی کہ پرویز الٰہی چودھری ہمارے بھی تو ہیں۔
پرویز الٰہی چودھری سیاسی جادوگر ہیں وہ اپنے جادو سے اسمبلی میں سب کو رام کرلیں گے۔ وہ پنجاب اسمبلی کو سیاسی طور پر چمکائے رکھیں گے، سپیکر بن کر انہیں اپنی جماعت کو بھی مزید مضبوط کرنے کا موقع ملے گا۔ اس دفعہ پنجاب اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد10ہے، آئندہ اس تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ بہت سی نئی تبدیلوں کے ساتھ اس تبدیلی کا بھی عندیہ ملا ہے کہ پی ٹی آئی اور ق لیگ مل کر پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام لائے گی جبکہ ہر ادارے کا آڈٹ بھی ہوگا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پنجاب میں پولیس کو ٹھیک کیا جائے گا۔ یہ دونوں باتیں بہت اہم اور ضروری ہیں، پنجاب میں واقعی نیا بلدیاتی نظام لانے کی اہم ضرورت ہے تاکہ عوام کو نچلی سطح پر ریلیف مل سکے۔ ان کے مسائل حل ہوں جبکہ پولیس واقعی بےلگام ہوچکی ہے۔ اسے لگام دینے کی ضرورت ہے۔ جعلی پولیس مقابلوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے اس بارے کہا جاتا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے پولیس کو ٹھیک کرنےکی طرف کوئی توجہ نہیں دی بلکہ اس کی بہتری کے لئے وہ اقدام کرتے رہے پولیس کو کروڑوں روپے کے فنڈز کے ساتھ ساتھ پولیس کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دی گئیں۔ اس سے سیاسی کام لئے گئے بڑے کاموں میں پولیس کی حوصلہ افزائی کی گئی ظاہر ہے کہ پھر اس نے بےلگام ہی ہونا تھا۔ عمران خان بھی اپنی تقاریر میں یہ بات بار بار کہہ چکے ہیں کہ پولیس کے نظام کو بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے اگر وہ حکومت میں آگئے تو وہ پولیس کے نظام کو ٹھیک کردیں گے۔ عمران خان18اگست کو اقتدار اور حکومت دونوں میں آجائیں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ پولیس کے ساتھ کیا رویہ رکھتے ہیں۔ اسے ٹھیک کریں گے یا بےلگام ہی رہنے دیں گے۔ پنجاب مضبوط ہوگا تو اس کے اثرات مرکز میں بھی دیکھے جاسکیں گے اب موقع ہے کہ پنجاب کو م ضبوط سے مضبوط بنایا جائے۔