• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگرچہ 25جولائی کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کیساتھ ہی صوبائی اسمبلیوں کا چنائو بھی ہوا مگر صوبائی اور قومی سطح پر اسپیکروں اور ڈپٹی اسپیکروں کے الیکشن کے دوران بھی تجزیوں اور تبصروں کا محور یہی رہا کہ ان انتخابات کے نتائج سمیت مختلف حالات و واقعات کے اثرات وفاقی حکومت کی تشکیل پر کس طور مرتب ہونگے۔ شیڈول کے مطابق آج جمعہ 17اگست 2018ء کو وزیراعظم کا انتخاب ہونے جارہا ہے جس کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کی کامیابی کو بڑی حد تک یقینی سمجھا جارہا ہے۔ اس ضمن میں جہاں مختلف پارٹیوں اور گروپوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے پی ٹی آئی کے رابطوں اور کوششوں کا ذکر کیا جارہا ہے وہاں وزیراعظم کے عہدے کے لئے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو متفقہ امیدوار بنانے کے سوال پر گرینڈ اپوزیشن الائنس میں پڑنے والی دراڑ کا حوالہ بھی سامنے آرہا ہے۔ اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیوں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اختلافات بدھ کے روز سامنے آئے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) گیارہ پارٹیوں پر مشتمل الائنس کے متفقہ امیدوار کے طور پر کسی اور شخصیت کو سامنے لائے۔ پی پی پی کے تحفظات ماضی قریب میں میاں شہباز شریف کی جانب سے دیئے گئے پی پی پی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر مملکت آصف زرداری کے بارے میں بعض سخت اور منفی نوعیت کے ریمارکس کے حوالے سے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کے مذکورہ مطالبے کے ردعمل میں یہ تاثر دیا ہے کہ اس پر دبائو ڈالا گیا تو قائد حزب اختلاف اور چیئرمین سینٹ کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ حزب اختلاف کی دو بڑی پارٹیوں میں پائی جانے والی اس کھینچاتانی کے اثرات گرینڈ الائنس کے علاوہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے مستقبل پر پڑنے کے خدشات بھی ظاہر کئے جارہے ہیں۔ اس لئے عام خیال یہی ہے کہ دونوں پارٹیوں کےسینئر رہنمائوں کے درمیان پس پردہ رابطوں میں کوئی ایسا راستہ نکال لیا جائے گا جو مذکورہ پارٹیوں کے علاوہ گرینڈ اپوزیشن میں شامل باقی تمام گروپوں کے لئے بھی قابل قبول ہو۔ اس وقت کی صورت حال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے نامزد امیدوار اسد قیصر (176ووٹ) قومی اسمبلی کے اسپیکر اور قاسم سوری (183ووٹ) ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوچکے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے آغا سراج درانی 96ووٹ لیکر اسپیکر اور پی پی پی ہی کی ریحانہ لغاری 98ووٹ لیکر ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوچکی ہیں۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے مشتاق غنی 81ووٹ لیکر اسپیکر اور محمود جان 78ووٹ لیکر ڈپٹی اسپیکر بن گئے۔ بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر کا انتخاب جمعرات کو طے پایا تھا جس کے نتائج ان سطور کی اشاعت تک سامنے آچکے ہونگے۔ پنجاب اسمبلی میں جمعرات کو ہونے والے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات کے نتائج بھی ان سطور کی اشاعت تک سامنے آچکے ہونگے۔ صوبوں میں اسپیکر کے عہدوں پر انتخابات کے عمل سے شروع ہونے والی پیش رفت مستقبل کے صوبائی ڈھانچے کی بڑی حد تک نشاندہی کررہی ہے۔ آج سہ پہر وزارت عظمیٰ کے جو انتخابات منعقد ہورہے ہیں ان کا نتیجہ توقعات اوراندازوں کے مطابق سامنے آنے کی صورت میں پی ٹی آئی کے چیئرمین کا فوری طور پر امتحان شروع ہوجائے گا اور ہر گزرتے دن کیساتھ ان کے اعلان کردہ ابتدائی سو دن کے پروگرام میں پیش رفت کا جائزہ لیا جانے لگے گا۔ اس لئے پی ٹی آئی کو بہت سنبھل کر چلنا اور صوبوں سے بطور خاص مسلسل رابطہ رکھنا ہوگا کیونکہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت شہریوں کو دی جانیوالی سہولتوں کے اعتبار سے صوبائی حکومتوں اور اسمبلیوں کا کردار خاصی وسعت اختیار کرچکا ہے۔ اس ضمن میں ان اداروں کو فعال و متحرک رکھنے کی ضرورت ہوگی جو صوبوں اور مرکز کے باہمی تعلقات اور تعاون سے تعلق رکھتے ہیں۔ انصاف کی عام آدمی تک رسائی یقینی بنانے، استحصال کے خاتمے اور ہر شعبے میں میرٹ کی پاسداری یقینی بنانے کیلئے بھی نئی حکومت کو زیادہ تیزی سے حرکت میں آنا ہوگا۔

تازہ ترین