• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاریب سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے ناقابل رشک انجام اور سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی اقتدار سے عبرتناک سبکدوشی میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں مگر بہت سوں کو اس کا شعور نہیں۔
میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن ) کی گو شمالی بہت ہوچکی وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرچکے اور قید و بند ،جلا وطنی کی صورت میں سزا بھی بھگت لی مگر اپنی حدود سے تجاوز سید سجاد علی شاہ نے بھی کیا۔ جوڈیشل ایکٹوازم کا دائرہ بڑھاتے بڑھاتے وہ بارودی سرنگوں کے علاقے میں داخل ہوگئے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف ان کی عدوات میں ملزم کی طرح پیش ہوئے تو یہ انتظامیہ پر عدالتی بالا دستی کا کھلا اعتراف تھا، انہوں نے غیر مشروط معافی بھی مانگ لی مگر چیف جسٹس نہ صرف بھاری عوامی مینڈیٹ کی نفی کرنے پر تل گئے بلکہ انہوں نے ایوان صدر کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو بھی دھر رگڑا۔”میں آپ کو بھی عدالت میں طلب کرلوں گا“ حالانکہ یہ قانون پسند اور جمہوریت نواز جرنیل صدر اور وزیر اعظم کی درخواست پر مسلح فوج کے جذبے سے ایوان صدر آیا تھا۔
نتیجتاً آرمی چیف صدر وزیر اعظم اور چیف جسٹس کی لڑائی میں غیر جانبدار ہوگئے، ججوں میں پھوٹ پڑگئی اور چیف جسٹس کے فیصلوں پر عملدرآمد کسی کے بس میں نہ رہا۔ انتظامیہ چیف ایگزیکٹو کے احکامات کی پابند، ایوان صدر لنگڑی بطخ اور فوج غیر جانبدار ،انجام معلوم چیف جسٹس کو اپنے بردار ججوں کی طرف سے الوداعی ریفرنس بھی نصیب نہ ہوا، اگر وہ وزیر اعظم کی غیر مشروط معافی قبو ل کرلیتے توشاید تاریخ مختلف ہوتی۔
جنرل پرویز مشرف فوج کے سربراہ تھے، امریکہ کے لاڈلے اور برسراقتدار مسلم لیگ(ق) کے مربی و مالک۔ میاں نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور اور کوئی سیاسی قوت فوجی حکمران کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہ تھی مگر معلوم نہیں کس اندرونی خوف اور مزید اختیارات سمیٹنے کی احمقانہ خواہش نے انہیں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف اقدام پر مجبور کیا۔9مارچ2007ء کو انہوں نے پہلی بار اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری اور3نومبر کو وہ شاخ کاٹنے کی کوشش جس پر باوردی صدر کا آشیانہ تھا۔ پہلے وہ وردی، پھر صدارت اور آخر میں پاکستان میں قیام کی سہولت سے بھی محروم ہوگئے۔
اب پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
پاکستان اس وقت تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے جوڈیشل ایکٹوازم کو بادل نانخواستہ ہی سہی مقننہ، انتظامیہ اور فوج نے قبول کرلیا۔ یوسف رضا گیلانی کی برطرفی کے عدالتی فیصلے سر تسلیم خم کرکے تمام اداروں نے عدالت عظمیٰ کی بالا دستی مان لی۔ مگر چند حالیہ واقعات نے ا ٓزاد عالیہ کی غیر معمولی مفاہمت کے حوالے سے بہت سے اداروں کے کان کھڑے کردئیے ہیں ۔ دو سال بعد آرمی چیف کی مدت صدارت پر اعتراض اور راولپنڈی بار کی قرار داد نے عدلیہ تحریک سے ہمدردی رکھنے والے بہت سے وکلاء ، دانشوروں اور محب وطن شہریوں کو پریشان کردیا۔
آرمی چیف کے بیان کے بعد عدلیہ کے خلاف بعض حلقے جس طرح متحرک ہوئے اور الزام تراشی کی نئی مہم منظر عام پر آئی اس سے بھی ان شکوک و شبہات کو تقویت مل رہی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے اور حالات 1997ء اور 2007ء سے مشابہ ہیں ،خدا کرے یہ محض نظر کا دھوکہ اور دماغ کا وہم ہو مگر قوت واختیار کے ہر منبع اور بالا دستی کے خواہش مند ہر فرد اور ادارے کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ کیا ایک دوسرے کو زیر کرنے اورمہم جو دیگرے نیست کا نعرہ مستانہ بلند کرنے کا نتیجہ ان کی خواہش کے مطابق نکلنے کی کوئی امید اور انجام سید سجاد علی شاہ اور جنرل پرویز مشرف سے مختلف ہونے کا یقین بھی ہے یا محض چند لگائی بجھائی کرنے والوں اور اپنے ذاتی و گروہی مذموم مقاصد کے لئے اداروں کی لڑائی کی راہ ہموار کرنے والوں کی باتوں میں اگر ایک نئے تصادم کو ہوا دی جارہی ہے جس کا نتیجہ فعال و آزاد عدلیہ کی پسپائی ، بلوچستان ، خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں مصروف جنگ، فوج کی رسوائی، جمہوریت کی رخصتی اور آزاد میڈیا پر نئی قدغنوں کی صورت میں برآمد ہو اور قوم و ملک برسوں پیچھے چلے جائیں۔
سید سجاد علی شاہ اور جنرل پرویز مشرف کو طاقت کا گھمنڈ ،زیادہ سے زیادہ قوت حاصل کرنے کی مجنونانہ خواہش اور اپنی طے شدہ حدود سے تجاوز نے حاصل شدہ قوت و اختیار سے محروم کردیا مگر دونوں کے غیر حکیمانہ انداز فکر اور طریقہ کار کا نقصان ملک و قوم ،عدلیہ، میڈیا اور فوج کو بھی ہوا، اگر اب خدانخواستہ کسی نے ان کے انجام کو فراموش کیا تو معلوم نہیں، عدلیہ اور میڈیا کو اپنا سفر دوبارہ کہاں سے شروع کرنا پڑے؟ جمہوریت کی صبح روشن کب طلوع ہو؟ اور جن نعمتوں کے ہم عادی ہوچکے ہیں انہیں کھو کر دوبارہ کبھی پاسکیں یا خواب ہی دیکھتے گز ر جائیں؟ عدلیہ اور فوج کے مابین بدگمانیوں کی فصل کاشت کرنے والوں کو ہرگز اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے کہ فائدہ وہ اٹھائیں گے ایسا کبھی ماضی میں ہوا ہے نہ آئندہ ہوسکتا ہے لہٰذا جو جس کو مل چکا ہے اس پر قناعت کرے اور کثرت کی خواش میں ہلاکت کو دعوت نہ دے، حکومت، عدلیہ، پارلیمنٹ، فوج اور میڈیا کے لئے مضمون واحدبسا اوقات لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا میں بدل جاتی ہے۔
تازہ ترین